کوئٹہ: سریاب کے بیشتر علاقوں کو ایک سرکل میں رکھنا سازش ہے بیشتر بلوچ علاقوں پرانے او رغلط نقشوں پر مردم شماری کی جا رہی ہے مردم شماری و خانہ شماری کے تین دن نقشوں کی جانب پڑتال میں گزر گئے سریاب کے بیشتر علاقوں میں خانہ شماری کیلئے ٹیمیں بھیجی نہیں گئیں جبکہ صوبائی حکومت اور انتظامیہ کی آشیرباد سے افغان مہاجرین کو پاکستانی شمار کیا جا رہا ہے کوئٹہ انتظامیہ کے ارباب و اختیار کی چشم پوشی معنی خیز ہے ان خیالات کا اظہار بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات آغا حسن بلوچ ایڈووکیٹ ، ضلعی قائمقام صدر یونس بلوچ ، لقمان کاکڑ ، حاجی وحید لہڑی ، صدام بلوچ ، شاہ جہان کشانی ، ندیم دہوار صمد بڑیچ نے کلی ترخہ ، چمن پھاٹک ، کلی دیبہ کے یونٹس کے مشترکہ اجلا س سے خطاب کرتے ہوئے کیا اجلاس کی کارروائی میر شاہنواز کشانی سے سرانجام دی اس موقع پربابو کھوسہ بھی موجود تھے مقررین نے کہا کہ مردم شماری خانہ شماری میں سریاب کے 262بلاکس کو ایک سرکل میں رکھنے کا مقصد یہی ہے کہ ان علاقوں میں دانستہ طور پر مردم شماری ، خانہ شماری کے مراحل کو مکمل نہ ہونے دیا جائے انتظامی نااہل اس امر سے ثابت ہے کہ بلوچ علاقوں کے جدید نقشے اب تک نہیں بنائے گئے اب تک نقشوں کی تیاری میں دن گزرے دیئے گئے ہیں یہ عمل دراصل بلوچوں کو مردم شماری و خانہ شماری سے دور رکھنا ہے یہاں گنگا الٹی بہتی ہے افغان مہاجرین جو لاکھوں کی تعداد میں ہیں انہیں مردم شماری سے دور رکھنے کا حکم عدالت سے صادر فرمایا لیکن صوبائی حکومت ، ضلعی انتظامیہ کی ارباب و اختیار کی سازشوں کا پردہ پاش ہو گیا ہے کہ اب تو کوئٹہ میں افغان مہاجرین کو مردم شماری میں لاکھوں کی تعداد میں شامل کیا جا رہا ہے مقررین نے کہا کہ کچلاک ‘ نواں کلی ‘ غوث آباد ‘ مشرقی بائی پاس ‘ بھوسہ منڈی ‘ پشتون باغ ‘ سبزل روڈ سرپل ‘ ہزار گنجی ‘ سیٹلائٹ ٹاؤن ‘چالو باؤڑی ‘ ترخہ ‘ کلی سملی سمیت دیگر علاقوں میں افغان مہاجرین کو پاکستانی شہریت قرار دی جا رہا ہے صوبائی حکومت بالخصوص محکمہ تعلیم غیر قانونی اقدامات کے ذریعے اساتذہ کو سیاسی بنیادوں پر ان علاقوں میں تعینات کر چکی ہے تاکہ حکمران اتحادی جماعتیں افغان مہاجرین کو بلواسطہ یا بلاواسطہ اندارج کروا رہے ہیں مذہبی جماعتیں اقتدار تک رسائی کیلئے غیر قانونی اقدامات کے مرتکب بنتے جا رہے ہیں ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ایسے اقدامات سے حکمران نفرتوں کو جنم دیں گے بلوچستان نیشنل پارٹی نفرت سے نام سے نفرت کرتی ہے ہم مردم شماری اور خانہ شماری کے مخالف نہیں یہ بات واضح کرنا چاہتے ہیں کہ 40لاکھ افغان مہاجرین کے اندراجات بھرپور طریقے سے جاری ہے کوئٹہ انتظامیہ کی سازشوں کو دیکھا جائے تو یہ بلواسطہ یا بلاواسطہ پارٹی بن چکے ہیں اب ذمہ دارای ان اداروں پر عائد ہوتی ہے وزیراعلیٰ بلوچستان چیف سیکرٹری اور ریاستی اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ غیر قانونی اقدامات کا فوری نوٹس لیں صوبائی مشینری کے کوئٹہ میں من مانی شروع کر رکھی ہے آج تو بلوچوں کو اپنی سرزمین میں محکومیت کی جانب دھکیلنے کی کوششیں کر رہے ہیں آج والے دور میں مہاجرین نہ صرف بلوچوں بلکہ مقامی پشتونوں ، ہزارہ ، پنجابی سمیت دیگراقوام کیلئے مسئلہ بنیں گے کلاشنکوف کلچر ، منشیات ، دہشت گردی انہی کے دیئے ہوئے تحفے ہیں 2013ء کے جعلی انتخابات کی طرح مردم شماری کے عمل کو آگے بڑھایا جا رہا ہے سرکل ون کو فوری طور پر چار پانچ حصوں میں تقسیم کیا جائے تاکہ وہاں پر خانہ شماری مردم شماری شروع ہو سکے اگر ایسا نہ کیا گیا تو ہم قانونی چارہ جوئی کا حق محفوظ رکھتے ہیں 262بلاکس کی مردم شماری چند اساتذہ نہیں کر سکتے مقررین نے انصاف فراہم کرنے والے اداروں اور حکمرانوں پر واضح کر دیا ہے کہ ناانصافیوں کا سلسلہ بند کریں ایسا نہ ہو تو حکمران عوامی غضب سے بچنے کیلئے راستہ نہ ملے کوئٹہ کے بلوچ علاقے قمبرانی اسٹریٹ ‘ کلی غریب آباد لوڑ کاریز ‘ کلی کمالو سریاب ‘ کلی سمال آباد ایئر پورٹ روڈ ‘ کلی الماس ‘ کلی مسلم آباد جتک روڈ ‘ مری محلہ کلی شموزئی ‘ رند آباد ‘ قادر آباد ‘ کلی بنگلزئی واپڈا گریڈ ‘ کلی ابراہیم زئی ‘ کمال آباد نیو ‘ گوہر آباد ‘ قمبرانی اسٹریٹ ‘ کیچی بیگ ‘ مسلم ٹاؤن ‘ کلی حبیب فیض آباد ‘ کسٹم مینگل آباد ‘ میاں غنڈی ‘ سردار کاریز ‘ کلی لہڑی آباد ‘ چشمہ اچو زئی ‘ سنجدی ژڑخو ‘ کلی محمد شہی ، کلی چلتن مغربی بائی پاس کلی جیو جو بلوچ آبادی پر مشتمل ہیں ان میں اب تک خانہ شماری کا عمل شروع نہیں کیا گیا مقررین نے بلوچ عوام سے اپیل کی کہ وہ لسانی جماعت کے اہلکاروں پر بھروسہ نہ کریں اور خود بال پوائنٹ کے ساتھ فارم پر کریں اور مادری زبان بلوچوں اور براہوی لکھیں ۔