کوئٹہ: وزیراعلیٰ بلوچستان نوا ب ثناء اللہ خان زہری کی زیرصدارت منعقدہ اعلیٰ سطحی اجلاس میں پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام 2016-2017میں شامل ترقیاتی منصوبوں کی پیش رفت کا جائزہ لیتے ہوئے منصوبوں کی بروقت اور معیاری تکمیل کو یقینی بنانے کے لیے اہم فیصلے کئے گئے اور محکمہ منصوبہ بندی و ترقیات سمیت تمام محکموں کو فیصلوں پر عملدرآمد یقینی بنانے کی ہدایت کی گئی، اجلاس کو ایڈیشنل چیف سیکریٹری منصوبہ بندی و ترقیات ڈاکٹر عمر بابر نے مجموعی طور پرپی ایس ڈی پی کی پیش رفت سمیت دیگر متعلقہ امور پر بریفنگ دی جبکہ سیکریٹری خزانہ نے فنڈز کے اجراء اور مختلف محکموں کے سیکرٹریوں نے اپنے اپنے محکموں کے تحت جاری منصوبوں کی پیش رفت سے آگاہ کیا، اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ جون 2017 میں فنڈز کے اجراء کے رجحان کی سختی سے حوصلہ شکنی کی جائے گی، محکمہ منصوبہ بندی و ترقیات جاری ترقیاتی منصوبوں کی مانیٹرنگ کو یقینی بنائے گا، وقت کی کمی کے باعث جن منصوبوں کے فنڈز واپس کئے جائیں گے آئندہ مالی سال میں ان منصوبوں کے لیے دوبارہ فنڈز جاری کئے جائیں گے، تمام محکمے مقررہ کردہ تاریخ تک ایکسسز اور سرنڈر کو یقینی بنائیں گے اور اپنے اپنے ترقیاتی منصوبوں کے لیے دستیاب فنڈز کے صحیح مصرف کو یقینی بنانے کے ذمہ دار اور جوابدہ ہوں گے، اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ صوبے کے تمام دستیاب وسائل عوام کی امانت ہیں جنہیں عوام تک پہنچنا چاہیے، اگر ہم یہ نا کر سکے تو بیڈ گورننس ہونگی، وزیراعلیٰ نے کہا کہ فنڈز لیپس ہونے کا تاثر درست نہیں اور نہ ہی ہم اپنے دامن پر ایسا کوئی دھبہ لگنے دیں گے، انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں تبدیلی لانے کے لیے ترقیاتی منصوبوں کی بروقت تکمیل اور عوام تک جلد از جلد ان کے ثمرات پہنچنے چاہیں۔ فنڈز کے ضیاع اور ان کے استعمال میں تاخیر کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی اور نہ ہی ترقیاتی منصوبوں کے معیار پر کوئی سمجھوتہ کیا جائے گا۔ انہوں نے چیف سیکریٹری بلوچستان کو ہدایت کی کہ وہ محکمہ منصوبہ بندی و ترقیات سے ترقیاتی منصوبوں کی منظوری ، محکمہ خزانہ سے فنڈز کے اجراء اور متعلقہ محکموں کے تحت ترقیاتی منصوبوں پر عملدرآمد تک تمام مراحل کی ذاتی طور پر نگرانی کریں، وزیراعلیٰ نے اپنی اور اپنی کابینہ کی جانب سے چیف سیکریٹری بلوچستان شعیب میر کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ چیف سیکریٹری صوبے کی ترقی اور عوامی مسائل کے حل کے لیے اپنی بھرپور صلاحتیں بروئے کار لاتے ہوئے منتخب صوبائی حکومت کی بھرپور معاونت کریں گے، وزیراعلیٰ نے کہا کہ وہ اور ان کی حکومت بیوروکریسی کو اپنی ٹیم کا حصہ سمجھتی ہے اور ہم مل کر ہی بلوچستان میں تبدیلی لا سکتے ہیں، انہوں نے کہا کہ وہ ناسازی طبیعت کی وجہ سے ڈاکٹروں کی جانب سے دئیے گئے آرام کے مشورے کے باوجود سرکاری امور کی انجام دہی کر رہے ہیں تاکہ صوبہ کا نظام صحیح سمت میں جاری رہے اور اس میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ وہ خود تمام مکمل شدہ ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح کریں گے اور ان کا جائزہ لیں گے تاکہ عوام جلد از جلد ان سے مستفیض ہو سکیں، اجلاس میں صوبائی وزراء ڈاکٹر حامد خان اچکزئی، سردار رضا محمد بڑیچ، عبیداللہ بابت، سردار در محمد ناصر، اراکین صوبائی اسمبلی میر عاصم کرد گیلو، سردار محمد صالح بھوتانی، میر اکبر آسکانی نے بھی شرکت کی۔ دریں اثناء ایڈیشنل چیف سیکرٹری ترقیات ومنصوبہ بندی ڈاکٹر عمر بابر نے کہا کہ حکومت کی جانب سے اس سال تقریباً2250 اسکیمات شروع کی گئی تھیں جن پر کام جاری ہے آئندہ بجٹ میں عوام کو پینے کے صاف پانی صحت تعلیم اور رسل ورسائل سمیت روزگار کی فراہمی کے لئے روڈ میپ تیار کر لیا ہے تاکہ لو گوں کو زیادہ سے زیادہ ترقیاتی منصوبوں کے ذریعے ان کی فلاح وبہبود کے حوالے سے کام کر کے مسائل کو حل کیا جا سکے ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعہ کی سہ پہر وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ میں صوبائی وزیر منصوبہ بندی وترقیات ڈاکٹر حامد اچکزئی، مشیر اطلاعات سرار رضا محمد بڑیچ، سیکرٹری خزانہ کیپٹن (ر) اکبر حسین درانی کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران کیا انہوں نے کہا کہ بلوچستان جو کہ پاکستان کے دیگر علاقوں کی نسبت زیادہ پسماندہ اور غربت زدہ ہے یہاں پر بسنے والے لو گوں کو تعلیم، صحت، پینے کے صاف پانی ، روزگار کی فراہمی ، ذرائع آمدورفت کی سہولیات دستیاب نہیں حکومت ترقیاتی منصوبوں کے ذریعے عوام کو زندگی کی بنیادی سہولیات تعلیم صحت پینے کا صاف پانی اورذرائع آمدورفت کے لئے اقدامات اٹھا رہے ہیں اس لئے آئندہ بجٹ کے حوالے سے روڈ میپ تیار کر لیا گیا ہے کیونکہ بلوچستان کے70 فیصد لو گوں کا ذریعہ معاش زراعت اور لائیو اسٹاک سے وابستہ ہے جبکہ30 فیصد لو گوں کا روزگار محنت مشقت سے وابستہ ہے حکومت کی جانب سے سب سے زیادہ فنڈز پانی کی ترسیل پر خرچ ہو رہے ہیں جس میں روزگار کی فراہمی، ذرئع مقاصد اور پینے کا پانی بھی شامل ہے ہماری کوشش ہے کہ عوام کو زیادہ سے زیادہ رسل ورسائل ، صحت، تعلیم پینے کے صاف پانی کی سہولیات دیں جس طرح موجودہ حکومت نے تعلیم کے فروغ کے لئے تقریبا23 فیصد فنڈ مختص کیا ہے اور وہ تعلیم کی بہتری پر خرچ کیا جا رہا ہے تاکہ لو گوں کو معیاری تعلیم کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بجٹ کا انحصار ڈویژنل پول اور فنڈنگ پر ہو تا ہے کہ ہمیں کتنے پیسے ملیں گے اس کے علاوہ مقامی ریونیو اور ہماری آمدن کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ تمام چیزیں تقریباً15 مئی تک مکمل ہو جا تے ہیں جس میں ٹوٹل فنڈنگ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا امسال1257 اسکیمات آن گوئنگ ہے جبکہ1047 نئی اسکیمات ہیں ٹوٹل2250اسکیمات جاری ہے جن پر کام شروع ہے اور وہ مختلف مراحل میں پہنچ چکی ہیں اور97 فیصد کام مکمل جبکہ بقیہ3 فیصد جون تک مکمل کرلیں گے پی ایس ڈی پی کی تمام اسکیموں پر دس سے100 فیصد تک کام ہو رہا ہے ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ترقیاتی فنڈ عوام کا پیسہ ہے یہ عوام کی فلاح وبہبود پر خرچ ہو گا اس میں کوئی خرد برد نہیں ہو سکتا انہوں نے کہا کہ تین سے چار بڑے منصوبے شروع ہو رہے ہیں جن کی فیزیبلٹی رپورٹ اور کچھ ٹینڈرنگ کے مراحل ہے جس میں انڈس واٹر کا منصوبہ، کوئٹہ ماس ٹرانزٹ ٹرین کا منصوبہ وغیرہ شامل ہے اس حوالے سے ایلو کیشن ہو چکی ہے اور سروے بھی ہوا ہے جو کوئٹہ ، سپیزنڈ ، دشت ، کچلاک میں ہو چکا ہے اور اس کی فیزیبلٹی رپورٹ تیار ہو رہی ہے انہوں نے بتایا کہ انڈس واٹر منصوبہ40 ارب روپے کی لاگت سے تیار ہو گا 272 کلو میٹر دور سے پانی کوئٹہ لانا ہے اس کے لئے10 ارب روپے ایلو کیٹ کئے ہیں ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ان بڑے منصوبوں پر پاکستان بھر اور دنیا کے مختلف ممالک سے کمپنیاں ٹینڈرنگ اور حصہ لیتی ہے ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ صوبہ بھر میں جاری ترقیاتی اسکیموں میں سے تیز اسکیمات کا جائزہ لے رہے ہیں جو15 مارچ سے 27 مارچ تک مکمل ہو گا اور پر وزیراعلیٰ بلوچستان کو بریفنگ دینگے تاکہ جن اسکیمات پر کام کی رفتار آہستہ ہے ان کے فنڈ تیز اسکیمات پر خرچ کر کے انہیں مکمل کر سکے انہوں نے بتایا کہ بیپرا کی پرفارمنس تمام صوبوں سے بہتر ہے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ30 جون تک ترقیاتی فنڈ میں سے پیسہ بچے گا نہیں بلکہ خرچ کر کے معیاری اور کوالٹی کے حساب سے کام کروائیں گے ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ایم پی اے کو کوئی فنڈز نہیں دیا جا تا بلکہ ان کی اسکیمات کو شامل کر تے ہیں کیونکہ وہ وعوامی نمائندے ہیں۔