|

وقتِ اشاعت :   March 28 – 2017

اسلام آباد کے چند علاقوں سے اکھٹا کیے گئے سیوریج کے نمونوں میں پولیو وائرس کی موجودگی کے انکشاف کے بعد وفاقی دارالحکومت میں خصوصی انسدادِ پولیو مہم کا آغاز کردیا گیا۔ سرکاری خبر رساں ادارے (اے پی پی) کی رپورٹ کے مطابق وائرس کی موجودگی چند ہفتوں قبل سامنے آئی تھی تاہم اب تک اسلام آباد میں پولیو کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا۔ پاکستان میں انسداد پولیو مہم کے معاون ڈاکٹر رانا صفدر کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں تین روزہ ویکسی نیشن مہم کا آغاز پیر (27 مارچ) سے ہوچکا ہے جبکہ پولیو ورکرز کی سیکیورٹی کے لیے پولیس کی جانب سے ضروری انتظامات بھی کیے جاچکے ہیں۔ واضح رہے کہ اسلام آباد میں پولیو کا آخری کیس 10 برس قبل سامنے آیا تھا۔ ملک کے مختلف علاقوں میں جاری انسداد دہشت گردی آپریشنز کے ردعمل کے طور پر طالبان اور دیگر عسکریت پسند متعدد بار پولیو ویکسینیشن سینٹرز سمیت ہیلتھ ورکرز کو نشانہ بنا چکے ہیں، جن کا ماننا ہے کہ پولیو کے قطرے پاکستانی بچوں کو بانجھ بنانے یا خفیہ معلومات اکھٹا کرنے کے لیے مغربی ممالک کا بہانہ ہیں۔ خصوصاً قبائلی علاقوں میں اس پریشان کن رجحان میں مزید اضافہ اُس وقت ہوا جب اس بات کا انکشاف ہوا کہ ابیٹ آباد کے قرب و جوار میں ایک پاکستانی فزیشن ڈاکٹر شکیل آفریدی کی جانب سے چلائی جانے والی ایک جعلی ہیپٹائٹس ویکسین مہم نے ہی امریکا کو مئی 2011 میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو تلاش کرکے ہلاک کرنے میں مدد دی۔ مغرب میں پولیو کا خاتمہ ہوئے طویل عرصہ گزر چکا ہے، لیکن پاکستان میں طالبان کی جانب سے حفاظتی ویکسین پر پابندی، طبّی عملے کو حملوں کا نشانہ بنانے اور اس ویکسین کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے سے پولیو کا مرض ملک میں اب تک موجود ہے۔ خیال رہے کہ پولیو انتہائی موذی وائرس ہے، جو عام طور پر حفظان صحت کی غیرتسلی بخش صورتحال کے باعث منتقل ہوجاتا ہے۔ اس وائرس کا کوئی علاج نہیں، جس سے زیادہ تر 5 سال سے کم عمر کے بچے متاثر ہوتے ہیں اور اسے صرف ویکسین کے ذریعے ہی روکا جاسکتا ہے۔