کوئٹہ: سیکرٹری تعلیم بلو چستان شا ن الحق نے کہا ہے کہ صو بہ بھر میں قا ئم 13 ہزار سے زائد اسکو لوں میں سے اس وقت 9سو 63غیر فعال ہیں ،ژو ب کے 70فیصد اسکولوں کے غیر فعال ہو نے سے متعلق اساتذہ تنظیم کی خبر حقا ئق پر مبنی نہیں ،آئندہ10 دنوں میں محکمہ تعلیم بلو چستان میں مزید13ہزار خا لی آ سا میوں کا اعلان کیا جا ئے گا ،صو با ئی دارلحکومت کو ئٹہ میں ان اسکو لوں کے لئے شلٹرز کی فرا ہمی کا بندو بست کیا جا رہا ہے جو کرا یہ کی عما رتوں میں قا ئم ہیں ۔ان خیا لا ت کا اظہا ر انہوں نے گزشتہ روز آئی این پی سے خصوصی با ت چیت کر تے ہو ئے کیا۔ان کا کہنا تھا کہ ہم نے یونیسف کی مدد سے آر ٹی ایس ایم ایس ( Real time shcool monetring system) انسٹال کیا جس کے تحت ہم نے مانیٹرنک شروع کی ، اس وقت 13 ہزار سکولوں میں 963 سکولز غیر فعال ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ اگلے 10 دن تک محکمہ تعلیم کے لئے 3ہزار سے زائد آسامیاں مشتہر کئے جائیں گے اور نیشنل ٹیسٹنگ سروس کے تحت بھرتیاں کرائیں گے ، ٹیسٹنگ سروس کے لئے ٹینڈر کرایا جائے گا ۔ انہوں نے کہاکہ کوئٹہ شہر میں جتنے بھی سکولوں کے مکانات کرایے پر لئے گئے ہیں ان کو شیلٹرز کی فراہمی ممکن بنانے کے لئے ہر ممکن اقدام اٹھائیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ 25 سے 30 سال پہلے ایک سکول ایک ٹیچر کا فارمیٹ چل رہا تھا اور کہا جاتا تھا کہ ایک ٹیچر ہی سب کچھ مینج کرسکتا ہے جسے صوبائی حکومت اور وزیر تعلیم نے یکسر مسترد کردیا ہے جبکہ ہم نیا نظام لارہے ہیں جس کے تحت ہم سائنس ، ریاضی ، جنرل سائنس دیں گے اور سکولوں کو ایک کمرے سے بڑھانے سمیت اساتذہ کی تعداد بھی بڑھائیں گے ۔ انہوں نے کہاکہ 25 فیصد بجٹ تعلیم پر خرچ کیا جارہا ہے محدود وسائل میں رہتے ہوئے یکدم تبدیلی ممکن نہیں اس لئے تبدیلی لانے میں وقت لگے گا ۔ بلوچستان گورنمنٹ کا سسٹم کمپیوٹرائزڈ ہورہا ہے بعض اساتذہ کی پے رول میں موجود تھی مگر بجٹ بک ریفلیکٹ نہیں ہوتا جس کی وجہ سے انہیں گھوسٹ ٹیچرز قرار دیا جاتا ہے بعض فارمولیٹیز پورا نہیں ہونے کی وجہ سے ان کا ریکارڈ صحیح نہیں آرہا دراصل وہ اپنی ڈیوٹیاں سرانجام دے رہے ہوتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے کچھی ، ڈیرہ بگٹی ، پشین اور لورالائی میں اس پر ریسرچ کیا اور وہاں سو سے ڈیڑھ سو ٹیچرز پر اعتراض آیا تھا جس نے اپنے ڈاکومنٹس جمع بھی کرادیئے تھے مسئلہ ان کی پراپر ریکارڈنگ نہیں ہوئی تھی ۔ اصل میں گھوسٹ ٹیچرز کی تعداد بہت کم ہے ۔ انہوں نے کہا کہ این ایچ سی آر کے نام سے ایک سروے آیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ صوبے میں 70 فیصد بچے سکولوں سے باہر ہیں یہ تعداد پبلکی ہوسکتی ہے مگر اگر پرائیویٹ سکولوں ، لیویز سکولوں اور مدرسوں میں شامل بچوں کی تعداد اس میں شامل کیا جائے دو تہائی بچے سکولوں کے اندر ہیں ۔ ابھی جو بجٹ ہمارے پاس موجود ہے ان سے سکولوں کی تعمیر و مرمت ، بنیادی سہولیات فراہمی کے لئے ہم جنگی بنیادوں پر کام کررہے ہیں اور دو سے تین ہفتے میں ٹینڈرنگ کرکے بہت سے سکولوں کے لئے فنڈز ریلیز کئے جائیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے سروے کیا کہ صوبے میں کل کتنے سکولز ہیں بعض سکولز سی اینڈ ڈبلیو اور دوسرے محکموں کے ذریعے بنے ہوتے ہیں جس کا ہمیں بعد میں پتہ چل جاتا ہے کہ سکول تعمیر ہوچکا ہے ہم اس کے لئے ایس این ای تیار کررہے ہیں جس میں اس طرح کے تمام سکولز شامل کئے جائیں گے تاکہ ان کی اپرول فنانس سے لی جائے اور وہاں ٹیچرز فراہم کئے جائیں ان سب کے لئے ریکروٹمنٹس کی پراسس مکمل کرکے نہ صرف این ٹی ایس کے ذریعے ٹیچرز فراہم کئے جائیں گے بلکہ تمام سٹاف دیا جائے گا تاکہ سکول مکمل طور پر فعال ہوسکے ۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کا آرڈر آیا کہ جونیئرز کو سینئرز کی پوسٹوں سے ہٹایا جائے اس کے بعد سپریم کورٹ کا ایک اور آرڈر آیا کہ آپ نے مردم شماری کرانی ہے ۔ مردم شماری کے لئے ڈیوٹیاں فیڈرل لیول پر لگتی ہے کسی بھی لیول پر اگر ہم ڈیوٹیوں میں تبدیلی کریں تو ان کا پورا منصوبہ ڈسٹرب ہوجاتا ہے۔ مردم شماری کا پراسس ختم ہونے کے ساتھ ہی جونیئرز کو سینئرز کی پوسٹوں پر تعینات کیا جائیگا جن کی ڈیوٹیاں مردم شماری میں لگی ہیں وہ مردم شماری ختم ہونے تک اپنا کام کرے گا ۔ انہوں نے کہاکہ اسی طرح سپریم کورٹ کا ایک اور آرڈر آیا کہ پروموشن جلدی کی جائے ہم نے سینئرز کے کیسز تیار کرکے پروموشن بورڈ کے پاس بھیجوادیتے ہیں اور ان کی پروموشن ہوجائے گی ان کے پروموشن کے بعد ان کی خالی پوسٹوں پر میرٹ پر لوگ بھرتی کئے جائیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ سیسا کی جانب سے کچھ عرصہ قبل اخبار میں شائع ہونے والی خبر میں لکھا گیا تھا کہ ضلع ژوب میں 70 فیصد سکولز غیر فعال ہیں جو کہ صحیح نہیں ۔