|

وقتِ اشاعت :   April 25 – 2017

کوئٹہ : بلوچستان نیشنل پارٹی کے ترجمان نے نیشنل پارٹی کے بیان پرردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بی این پی کا قیام قوم ، وطن کی بقاء و جدوجہد نظریہ اور اصولوں کی بنیاد پر عمل میں لائی گئی اس وقت چند مفاد پرست سیاسی مسافر بھی صف میں شامل ہوئے ان کی مفاد پرستی جلد عوام کے سامنے عیاں ہوگئی آج یہ مختلف ناموں سے نام نہاد سیاسی ٹولے بنا کر اقتدار پر براجمان ہیں اقتدار میں ہونے کے باوجود عوامی حمایت حاصل نہ ہونے کا غصہ بی این پی کیخلاف ہرزہ سرائی کر کے اترنے کی کوشش کر رہے ہیں نوشکی جلسے کی ناکامی کا غصہ بی این پی کیخلاف باتوں سے اترنا ممکن نہیں بی این پی کی سیاست کا مقصد بلوچوں کے اتحاد ، یکجہتی ، حقوق کے جدوجہد کیلئے تھی موصوف شاید ااقتدارکی نیت اور حصول کیلئے آئے تھے جو یہ کہہ کر لوگوں کو باور کروا رہے ہیں کہ اقتدار ان کی کمزوری ہو سکتی ہے ہماری نہیں موصوف پارٹی کو تقسیم کر کے اپنے سیاہ کردار کے سیاہی کے عیوض آج شیروانی کے مستحق ٹھہرے اژدھا بن کر بلوچ مفادات کا تحفظ کرنے کی گیدڑ بھبگیوں سے بلوچوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنا ممکن نہیں اکیسویں صدی میں بلوچ باشعور و سیاسی پختگی رکھتے ہیں انہیں اب مزید دھوکہ دینا ممکن ہے کیونکہ آج بلوچ عوام اس پارٹی کے کردار و عمل سے بخوبی واقف ہیں کہ انہوں نے کس طرح میر صاحب کے سیاسی وارث ہونے کا دعوی کر کے میر غوث بخش بزنجو کے پیروکاروں کو کس قدر مایوس کیا ہر دور میں شیروانی کی آس میں اسلام آباد یاترا کر کے آمرانہ دور میں مشرف سے ہاتھ ملایا اور مشرف کے ریفرنڈم میں اہم کردار ادا کیا جمہوریت کے دعویدار مشرف کے غیر آئینی ریفرنڈم کو بھی معیوب نہیں سمجھابلکہ اس کو بھی اپنے لئے اعزاز سمجھتے رہے آمر حکمران ہوں یا سول ڈکٹیٹرہر دور میں اپنی سیاسی ساکھ کو برقرار رکھنے کیلئے بلوچ دشمنی پر مبنی پالیسیوں کو دوام دینے سے گریز نہیں کیا بلوچستان کی تاریخ گواہ ہے کہ پارٹی کے اصولی موقف کی پاداش میں شہید حبیب جالب ، شہید نور الدین مینگل سمیت سینکڑوں رہنماؤں و کارکنوں کو شہید کیا ان قربانیوں کے باوجود پارٹی نے غیر متزلزل جدوجہد کی بلوچستان کے ہر طبقہ فکر اس بات سے بخوبی آگاہ ہے کہ اس مفاد پرست ٹولے نے کس طرح کہاں کہاں بلوچ مفادات کا سودا کیا اور راتوں رات ضمیر کا سوداکرتے رہے یہ ڈھکی چھپی نہیں ترجمان نے کہا کہ سی پیک اور مردم شماری کو موت و ذیست کا مسئلہ قرار دینے والے شاید یہ بھول گئے ہیں ڈاکٹر مالک بلوچ ہی تھے کہ جنہوں نے چینی یاترا میں بطور گواہ معاہدوں پردستخط کئے اور آقاؤں کے سامنے لب کشائی تک نہیں کی اگر اس وقت یہ جسارت کرتے تو آج یہ بلوچوں عوام کو اپنی بھڑکوں سے بہلا سکتے تھے بلوچستان کے گلی کوچوں میں اپنایا جانے والا لب و لہجہ اسلام آباد کے آقاؤں کے سامنے اپنایا جاتا تو آج جلسوں کی ناکامی کا غصہ بی این پی پر نہ نکالتے اس طرح حوس باختگی کا شکار نہ ہوتے سیاسی اخلاقیات کا تقاضا یہی تھا کہ جب چین میں معاہدوں پر دستخط کئے جا رہے تھے توڈاکٹر مالک گواہ دوئم کی بجائے بلوچستان کے مالک کی حیثیت سے معاہدے پر دستخط کرتے لیکن حکمرانوں کی ناراضگی مول لینے کی جرات کہاں سے لاتے وزارت اعلی کی کرسی چھن جانے اور اقتدار آخری ایا م میں انہیں اژدھا اور آجوج ماجوج یاد آ رہے ہیں مردم شماری پر نیشنل پارٹی کافی پریشانی دکھائی دے رہی ہے شاید یہ بھول گئے کہ اب بھی صوبائی حکومت میں شامل ہیں جس میں ان کی ایک اتحادی جماعت چالیس لاکھ افغان مہاجرین کی اندراج کو یقینی بنانے کیلئے تگ و دود کرتی آ رہی ہے جب لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین شناختی کارڈز اور پاسپورٹ بلاک تھے تو نیشنل پارٹی نے ہی صوبائی اسمبلی میں بلاک شناختی کارڈز کے اجراء کیلئے اتحادی جماعت سے مل کر قراردادمنظور کرائی ان میں تو اتنی اخلاقی جرات نہیں ہے کہ مہاجرین کو افغان مہاجرین کہیں تارکین وطن کہہ کر کام چلایا جا رہا ہے افغان مہاجرین کے بلاک شدہ شناختی کارڈز کے اجراء کیلئے اسمبلی سے قرارداد منظورکروانے والے آج افغان مہاجرین کو مردم شماری میں شامل کرنے کا رونا رو رہے ہیں افغان مہاجرین سے متعلق بی این پی کا موقف واضح رہا ہے اور کئی سالوں سے مسلسل غیر متزلزل جدوجہد کرتی آ رہی ہے مردم شماری کے خدشات و تحفظات کو دور کرنے کے حوالے سے پارٹی نے ہر پلیٹ فارم پر آواز بلند کی اور عدالت عظمی اور عدالت عالیہ میں آئینی درخواستیں دائر کیں جس میں بلوچستان ہائی کورٹ سے پارٹی کو کامیابی ملی کہ بلوچستان میں افغان مہاجرین کو مردم شماری سے دور اور بلوچ آئی ڈی پیز کو شامل کیا جائے پارٹی جدوجہد کی بدولت عدالت فیصلے کی روح سے حکمران اور انتظامیہ اس بات کے پابند ہیں کہ مردم شماری میں بلوچ آئی ڈی پیز کو شامل اور افغان مہاجرین کو دور رکھیں پارٹی لفاظتی نہیں عملی جدوجہد پر یقین رکھتی ہے آدھے بلوچستان میں مردم شماری کا عمل مکمل ہو چکا لیکن موصوف کی پارٹی کی جانب سے مردم شماری سے متعلق کیس کی اب تک سماعت نہ ہو سکی صرف بیانات میں مردم شماری پر تحفظات سے کچھ ہونے والا نہیں اور اب بھی اقتدار کے آخری ایام میں ان کے اتحادی افغان مہاجرین کیلئے بلوچستان حکومت کی مشینری کو استعمال میں لا رہے ہیں نیشنل پارٹی کیا مردم شماری میں بلوچ دشمن اقدامات کا حصہ نہیں بن رہی؟ مگر مچھ کے آنسو بہانے سے عوامی پذیرائی حاصل نہیں کی جا سکتی چار سالہ دور اقتدار میں بلوچ اجتماعی مفادات کو ٹھیس پہنچایا گیا اب لفاظی باتوں سے کام بننا ممکن نہیں بلوچ عوام سادہ لوح ضرور ہیں مگر اتنے بھی نہیں کہ شیر کی کال میں گیڈر کو نہ پہچانیں ریکوڈ ک کا تحفظ کا دعوی کرنے والے ریکوڈک کو بیچ کر کیس ہار گئے فرانس کا جا کر مخالف کمپنی مالکان سے سودا لگا کر اس بات کی یقین دہانی کرائی گئی ہم انٹرنیشنل کورٹ میں لب کشائی نہیں کریں گے جس کے بدلے میں مالی فوائد حاصل کئے گئے جس کی بناء پر عدالتی فیصلے میں بلوچستان کو نقصان پہنچا اقتدار جانے کے بعد پتہ چلے گا کہ موجودہ حکمرانوں کے دور میں بلوچستان کواور کتنا نقصان پہنچایا گیاسردار اختر جان مینگل کے کردار عمل جدوجہد سے بلوچ عوام بخوبی آگاہ ہیں لفاظی اور جھوٹ پر مبنی باتوں سے عوام کو ورغلایا جا سکتا ہے نہ پارٹی پذیرائی کم ہو سکتی ہے ان کے اپنے چہروں پر جو سیاہ سیاہی لگی ہے اس کو مٹانا ممکن نہیں انہی کے دور میں بلوچستان بلکہ پاکستان کی تاریخ میں کرپشن کا بڑا سیکنڈل سامنے آیا ٹینکی لیکس کی لیک اتنی بڑی تھی کہ گھروں اور بیکروں سے بلوچستان کے عوام کی دولت برآمد ہوئی موصوف کی جانب سے یہ کہنا کہ ایک روپے کی کرپشن کوئی ثابت کرے انہوں نے خوب کہا کہ واقعی موجودہ دور حکومت میں ایک روپے کی نہیں کھربوں کی کرپشن ہوئی چار سالہ دور حکومت میں مختلف محکموں سے اربوں روپے غائب ہوئے جن کی چھان بین آج بھی جاری ہے ترجمان نے کہا کہ بی این پی کی سیاست کا محور و مقصد بلوچستان کی ترقی و خوشحالی اتحاد ویکجہتی بلوچ مفادات کا تحفظ ہے اور رہے گا ترجمان نے کہا کہ ہم ان کی ذہنی کیفیت کو سمجھتے ہیں بی این پی نے خاران ، نوشکی ، پنجگور ، تربت ، گوادر ، نصیر آباد ، خضدار ، قلات ، کوئٹہ ، لسبیلہ حب ، بسیمہ ، مستونگ میں تاریخی جلسے منعقد کروائے بلوچوں کی بڑھتی ہوئی پذیرائی شاید اس پارٹی کو ہضم نہیں ہو رہی ہے اس لئے حوس باختہ ہو کر بلوچوں کے مسئلے کو حل کرنے کی بجائے سیاسی بوکھلاہٹ کا شکار ہیں اتنے جذباتی ہونے کے بجائے بلوچستان کے مسائل کو حل کئے جائیں اقتدار کے اب بھی شراکت دار ہیں اب بھی وقت ہے کہ بلوچوں کے جملہ مسائل حل کی جانب توجہ دیں تاکہ مستقبل میں مزید پریشانی اوربوکھلاہٹ کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔