کوئٹہ: بلوچستان ہائی کورٹ نے نواب اکبر بگٹی قتل کیس میں سابق صدر پرویز مشرف، سابق وفاقی وزیرداخلہ آفتاب احمد شیر پاؤ اور دیگر ملزمان کی بریت کے خلاف دائر کی گئی آئینی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔ درخواست کی سماعت بلوچستان ہائی کورٹ کے جسٹس جناب جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس جناب جسٹس نذیر احمد لانگو پر مشتمل بنچ نے کی۔ سابق صدرپرویزمشرف کے وکیل سید اختر شاہ ایڈووکیٹ ،قومی وطن پارٹی کے سربراہ سابق وفاقی وزیر داخلہ آفتاب احمد خان شیر پاؤ کی جانب سے ان کے وکیل ذیشان چیمہ ایڈووکیٹ ،سابق صوبائی وزیر داخلہ شعیب احمد نوشیروانی کی جانب سے شاہد جاوید ایڈووکیٹ اور درخواست گزارنواب اکبر بگٹی کے بیٹے نوابزادہ جمیل اکبر بگٹی کی جانب سے سہیل احمد راجپوت ایڈووکیٹ پیش ہوئے ۔سماعت شروع ہوئی تو بنچ نے ایک مرتبہ پھر سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی عدم پیشی پر برہمی کااظہار کیا ۔عدالت کا کہنا تھا کہ مسلسل غیر حاضری پر ملزم کو قید کی سزا ہو سکتی ہے۔عدالت نے اس موقع پر پرویز مشرف کے وکیل کو انسداد دہشتگردی ایکٹ کی دفعہ21-Lکو پڑھ کر تشریح کرنے کا کہا ۔ اختر شاہ ایڈووکیٹ نے اس دفعہ کی تشریح کرتے ہوئے بتایا کہ 21ایل کے تحت کسی انکوائری، تفتیش یا عدالت کے سامنے پیش نہ ہونے یا فرار کی صورت میں ملزم کو پانچ سال تک کی سزا ہوسکتی ہے۔ تاہم ان کا مزید کاکہنا تھا کہ پرویز مشرف اس کیس میں ملز م نہیں بلکہ مدعی علیہ ہے۔ ٹرائل کورٹ نے انہیں بری کیا ہے ۔ وہ اس ہائی کورٹ اور نہ ہی ٹرائل کورٹ سے فرار ہوئے تھے بلکہ انہوں نے پہلے بھی عدالت کے ساتھ ہر ممکن تعاون کیا ہے اور ا ب بھی وہ ہر ممکن تعاون کیلئے تیار ہیں اور وہ اشتہاری یا مفرور نہیں بلکہ عدالت میں پیش ہونا چاہتے ہیں۔ وزارت دفاع انہیں سیکورٹی دیں تو وہ ضرور پیش ہوں گے۔ جس پر معزز عدالت نے ہدایت کی کہ سابق صدر کی سیکورٹی سے متعلق وزارت دفاع سے رجوع کیاجائے ۔سماعت کے دوران درخواست گزار کے وکیل سہیل راجپوٹ ایڈووکیٹ نے اپنے دلائل میں کہا کہ پرویز مشرف کی بریت کے حوالے سے ٹرائل کورٹ کا فیصلہ غیر شفاف تھا ۔مدعی اور گواہان کے بیانات ریکارڈ نہیں ہوئے۔نواب اکبر بگٹی کی قبر کشائی ، میت کا ڈی این اے،جائے قتل اور تدفین کی ویڈیو کو منظر عام پر لایا جائے تو حقیقت واضح ہو جائے گی ۔سابق صدر پرویز مشرف،سابق وزیر اعظم شوکت عزیز، سابق گورنربلوچستان اویس احمد غنی ، سابق وزیراعلیٰ بلوچستان جام محمد یوسف ، سابق وفاقی وزیر داخلہ آفتاب احمد شیر پاؤ اور سابق صوبائی وزیر داخلہ شعیب نوشیروانی نواب اکبر بگٹی کے قاتل ہیں ۔ مقدمے میں ان کی بریت سے متعلق ٹرائل کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔تاہم وکلاء صفائی نے مدعی کے الزامات کو مسترد کیا۔ دونوں فریقین کی جانب سے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے فیصلہ کافیصلہ محفوظ کرلیا۔سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سابق صدر پرویز مشرف کے وکیل اختر شاہ ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ ہم عدالت کا احترام کرتے ہیں ۔ ہم نے عدالت میں ایک درخواست دی تھی کہ پرویز مشرف آنے چاہتے ہیں۔ وہ اشتہاری یا مفرور نہیں ہے۔ وزارت دفاع ان کو سیکورٹی دے دیں تو وہ ضرور آئیں گے۔ انہوں نے کہا کہ عدالت نے انہیں انسداد دہشتگردی ایکٹ کی دفعہ21ایل کی تشریح کرنے کا کہا جس پر میں نے کہا کہ یہ دفعہ مفرور ملزم کی سزا سے متعلق جبکہ پرویز مشرف اس کیس میں مفرور نہیں بلکہ رسپانٹنڈنٹ (مدعی علیہ) ہے ۔ہم نے عدالت میں بتایا کہ پرویز مشرف کو ٹرائل کورٹ نے مستقل استثنیٰ دیا تھا۔ وہ اُس عدالت سے اور نہ ہی اِس عدالت سے فرار ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم جلد ہی وزارت دفاع سے بھی رجوع کریں گے کہ وہ ان کے مؤکل کو سیکورٹی دیں۔ کیونکہ پرویز مشرف بلوچستان ہائی کورٹ سمیت سمیت ہر اس عدالت میں پیش ہونا چاہتے ہیں جہاں ان پر الزامات لگائے گئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف کو اکبر بگٹی کے خلاف کسی آپریشن کا کوئی علم نہیں تھا ۔ ان سے کسی نے کوئی صلاح و مشورہ کیا اور نہ ہی انہوں نے کوئی آپریشن کا حکم دیا بلکہ میں اسے آپریشن نہیں ایک واقعہ کہوں گا ۔ کیونکہ ہم نے پڑھا ہے کہ غار بیٹھنے سے اکبر بگٹی کی موت ہوئی۔ پاک فوج کا اس آپریشن میں کوئی کردار نہیں تھا ۔چونکہ پرویز مشرف سے کوئی صلاح و مشورہ کیا گیا اور نہ ہی انہوں نے کسی آپریشن کا حکم دیا اس لئے ان پر مقدمہ میں عائد کی گئی تعزیرات پاکستان کی دفعہ 34یعنی جرم میں معاونت کی دفعہ بنتی ہی نہیں اور جب قتل میں معاونت کا الزام ہی غلط ہے تو 302یعنی قتل کا دفعہ بھی نہیں لگ سکتا۔ انہوں نے کہا کہ لال مسجد میں بھی فوج کو وزارت داخلہ نے بلایا تھا ۔ اس لئے پرویز مشرف پر جتنے بھی مقدمات لگائے گئے ہیں وہ تمام جھوٹے ہیں۔ انہیں ملک کی خدمت کرنے سے دور کیا گیا۔ بلوچستان اور پاکستان کے لوگ ان سے محبت کرتے ہیں اور پرویز مشرف بھی بلوچستان کے لوگوں سے خاص طور پر محبت کرتے ہیں اور ان کی عزت کرتے ہیں۔ دریں اثناء درخواست گزار نوابزادہ جمیل اکبر بگٹی کے وکیل سہیل راجپوٹ ایڈووکیٹ نے کہا کہ نواب اکبر بگٹی کو2006ء میں شہید کیا گیااور 2009ء میں ایف آئی آر درج ہوئی۔2011ء میں جب مقدمے پر باقاعدہ تفتیش نہیں ہوئی تو ہم نے ہائیکورٹ سے رجوع کیا جس پر ہائی کورٹ نے کہا کہ کوئی قانون سے بالاتر نہیں اور تفتیشی اداروں کو صاف تفتیش کی ہدیات کی۔ بعد میں ہمارا چالان عدالت میں پیش کیا گیا جس کے کافی عرصہ بعد کیس شروع ہوا۔ ٹرائل کورٹ میں80کے قریب سماعتیں ہوئیں۔ سابق صدر پرویز مشرف ایک بھی سماعت میں عدالت پیش نہیں ہوئے۔ اسی طرح سابق وزیراعظم شوکت عزیز، سابق گورنر بلوچستان اویس احمد غنی، سابق ڈپٹی کمشنر عبدالصمد لاسی تاحال مفرور ہیں۔ جبکہ ایک ملزم جام یوسف کی موت ہوگئی۔ ٹرائل کورٹ یعنی انسداد دہشتگردی عدالت باقی ملزمان پرویز مشرف، آفتاب شیر پاؤاور شعیب نوشیروانی کو بری کردیا جس کے خلاف ہم نے ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی۔ ہم نے20سے22عینی شاہدین کی فہرست دی جن کے بیانات قلمبند نہیں کئے گئے۔ جائے قتل ، نماز جنازہ اور تدفین کی ویڈیوز بنی تھی ۔انہیں ٹرائل کورٹ نے کھولنے نہیں دیا۔ اورسب سے افسوسناک بات اور قانون کے ساتھ مذاق والی بات یہ ہے کہ شکایت کنندہ نوابزادہ جمیل بگٹی تک بیان تک قلمبند نہیں کیا گیا۔ ہم نے عدالت دائر کردہ اپیل میں اپنے مسائل ، رکاوٹیں اور پریشانیاں بتائیں اور بتایا کہ سرکار نے بے جاطاقت کا استعمال کرکے تفتیشی ٹیموں کو کام کرنے نہیں دیا۔ یقیناًہر کسی کی مجبوریاں ہوں گی لیکن قانون میں مجبوری نہیں دیکھی جاتی۔ عام آدمی ہو بڑا عدالت کے سامنے سب برابر ہیں سب کو انصاف دیا جاتا ہے۔ ہم پاکستان کے آئین کے حامی ہیں۔ ہم نے آئین و قانون کے تحت اپنی گزارشات رکھی ہیں۔ہم گزشتہ 9سالوں سے عدالتوں میں پیش ہورہے ہیں اور بتارہے ہیں کہ ایک آمر جس نے بے جا طاقت کا استعمال کیا اب بھی اپنی طاقت کے زور پر اپنے بیڈ روم میں تفتیش کراتے ہیں۔ ساری کارروائیاں کراتے ہیں انہیں عدالت میں لایا جائے تاکہ انہیں پتہ چلے یہ عدالتیں صرف عام آدمی کیلئے نہیں بلکہ سب کیلئے ہیں ۔ہمارا مؤقف ہے کہ ٹرائل کورٹ کا فیصلہ پری میچور فیصلہ ہے۔ یہ موقع دیا جائے کہ شواہد پیش کئے جکائیں شکایت کنندہ، عینی شاہدین کے بیانات قلمبند کئے جائیں۔ لیکن ٹرائل کورٹ نے ہمارے ہاتھ باندھ رکھے۔ اب ہماری نظریں عدالت عالیہ پر مرکوز ہیں جس سے ہم ہم انصاف کے توقع رکھتے ہیں۔ ہم راہ عدالتوں سے فرار اختیار کرنیوالے اور عدالتوں کا احترام نہ کرنے والوں کو آئین و قانون کے تحت ریڈ وارنٹ کے ذریعے عدالتی کٹہرے میں کھڑا کرکے رہیں گے ۔