|

وقتِ اشاعت :   April 26 – 2017

کوئٹہ : لاپتہ بلوچ اسیران وشہداء کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 2639 دن ہوگئے یکجہتی کرنے والوں میں دیدگ و فامر کرزی کونسل بی این خاران ساتھیوں سمیت وائس فار مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ زندگی کو ایک نعمت کہا جا تاہے میرے خیال میرں زندصفر یو ں ہی ہے زندہ رہنے کانام نہیں مگر اس آسائش پر ست دنیا میں خاص کو مقبوضہ بلوچستان میں ااج بھھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جن کے لئے زندگی صرف جینے کانام ہے ۔ بس زندہ رہنے کاانام ان کے لئے اصائشیوں کی جستجو میں ضمیر کا سور کرنے کانام زندگی ہے ۔ ماما نے کہاکہ ریاست کی بربریت دیکھ کر کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ کتنے بلوچ اسیران کی اب تک نا قابل شناخت مسخ شدہ لاشیں ریاست نے پھینکی ہیں مگر ہمت ہے ان لواحقین کی جو ہر ناقابل شناخت لاش کے باوجود احتجاج کو اپنا قومی فریضہ تصور کرتے آرہے ہیں بلوچ اسیران کے لئے احتجاج اب ایک فرد یا خانان کا احتجاج نہیں رہا بلکہ یہ ایک قومی فریضہ بن چکا ہے ماما نے مزید کہاکہ اگر ان کے پیاروں نے ایسا کوئی جرم کیا ہے تو انہیں عدالتوں میں پیش کیاجائے اور پھ جو بھی سزا مقرر ہے انہیں دی جائے چاہئے وہ موت کی سزاہی کیو نہ ہوں لیکن لواحقین کے اس مطالبے پر بھی عملدرآمد سے اجتناب پر تا جا رہاہے اگرچہ انسانی حقوق کی تنظیمیں اس ضمن میں کسی حدت تک آوا ز بلند کرتی آتی ہیں مگر وہ اس سلسلے میں باقاعدہ ادارے مسلسل پہلو تہی کر رہی ہیں جس سے ریاستی قوتوں کو مزید حوصلہ مل رہا ہے مامانے کہاکہ ہم چاہتے ہیں کہ مذہب دنیا کو یہ بات معلوم ہوکہ بلوچ ریاست کے ہاتھوں نسل کشی کا شکار ہیں کہ بین الاقوامی تنظیمیں اس بات کو سمجھیں اور اس کے مطابق عمل کریں۔ جب تک بلوچ قوم نو آبادیاتی تسلط سے نجات حاسل نہیں کرلیتی اور یہ نجات اجوئی منزل تک رسائی کے بغیر درست طورپر حاسل نہیں ہوسکے گی۔