نوشکی : بلوچستان نیشنل پارٹی کے ضلعی سیکرٹریٹ سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ بلوچستان کی مری بھور بنی مخلوط صوبائی حکومت اقتدار میں آتے ہی زندگی کے باقی شعبوں کے ساتھ محکمہ صحت میں انقلاب برپا کرنے کے بلند و بانگ دعوے اور وعدے کیے، جبکہ اس کے بر عکس پاکستان کے آدھے سے زیادہ رقبہ پر مشتمل صوبہ بلوچستان کے اس اہم محکمے کو نام نہاد متوسط طبقے کی سیاست کرنے والی نیشنل پارٹی (حاصل گروپ ) سے تعلق رکھنے والے ایک معمولی سے ڈسپنسر کو سونپا گیا۔ موصوف نے خود تحریری لکھ کے دیا تھا کہ11 مئی 2013کو متعلقہ حلقے میں کوئی ووٹ کاسٹ نہیں ہوا تھا مگر بعد میں موصوف کامیاب قرار دئیے گئے اور وزارت صحت کا قلمدان بھی سنبھالنے کی ذمہ داری دی گئی۔ جب ان متوسط طبقے کی سیاست کرنے والوں کو ڈیل کے تحت حکومت دی گئی تو ان حضرات نے عجلت میں اس حد تک بلند و بانگ دعوے کیے جو آج تک ان کی گلے کی ہڈی بن گئی ہے۔ کیونکہ ان کے پاس محکمہ صحت میں اصلاحات لانے، عوام کوصحت کی سہولت و ریلیف دینے کی کوئی پالیسی، پروگرام اور وژن نہیں تھا۔ محکمہ صحت میں اصلاحات در کنار بلوچستان میں سفارش کلچر، اقراباء پروری، کمیشن خوری اور کرپشن کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا جو ہنوز جاری ہے جن سے سابقہ کرپٹ حکومت بھی ششدر رہ گئے۔ اس کی واضع مثال بلوچستان میں سلسلہ وار رونما ہونے والے دہشت گردی و مذہبی انتہا پسندی کے واقعات ہیں جب سول ہسپتال میں دھماکہ ہوا تو بلوچستان کے سب سے بڑے سول سنڈیمن ہسپتال کی یہ حالت تھی کہ دھماکے سے متاثرہ زخمی وکلا ء کو ہسپتال کے اندر سے نکال کر دوسرے ہسپتالوں میں علاج کے غرض سے لے جایا گیا اس دوران بلیڈنگ، ٹریفک جام، افراتفری و ایمبولینس کی کمی کی وجہ سے بہت سے زخمی راستے میں ہی زندگی کی بازی ہار گئے،اور جب پولیس ٹرئننگ سینٹر کا دلخراش و انسانیت سوز واقعہ رونما ہوا تو لواحقین شہید وں کے میتوں کوویگن اور بسوں کے چھتوں اور پک اپ گاڑیوں میں بوریوں کی طرح باندھ کر بلوچستان کے دور افتادہ علاقوں میں لے جایا گیا۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت ایک ہسپتال کو بھی ٹھیک نہیں کر سکی پورے بلوچستان میں ہیلتھ اصلاحات محض جھوٹ کا پلندہ ہے۔ سونے پہ سہاگہ یہ ہے کہ موجود وزیر صحت نے کمیشن کے لیے چند ایسی دواساز کمپنیاں رجسٹرڈ کرائی ہے جوبلوچستان میں غیر معیاری دوائی بنا کر سپلائی کرتے ہیں۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ نوشکی میں محکمہ صحت کی یہ حالت ہے کہ پیرامیڈکس کے 134 اور ہیلتھ ورکرز کے 17 پوسٹ گزشتہ آٹھ سالوں سے خالی پڑے ہیں۔ نوشکی سول ہسپتال کے کل 21 میں سے 14 ڈاکٹروں کے پوسٹ خالی ہیں ۔ ایم ایسDHQ ہسپتال نوشکی سمیت صرف 5 میل اور 2 فیمیل ڈاکٹرز تعینات ہیں حالانکہ نیشنل اور انٹرنیشنل اصولوں کے مطابق ہر 1000 مریضوں پر ایک ڈاکٹر کا ہونا لازمی ہے۔ نوشکی کے2 آر ایچ سی ، 11 بنیادی مراکز صحت،10 سول اور 5 عارضی ڈسپنسریوں میں کوئی بھی ڈاکٹر تعینات نہیں ہے۔ جبکہ کلی تاج محمد ،ایم پی اے نوشکی کے اپنے گاؤں کلی بادینی، ڈیڈار، یوسی کیشنگی اور یوسی مل کے ایک ایک ڈسپنسری تاحال بند ہیں۔ کلی ہزار جفت اور زنگی ناوڑ کے دونوں ڈسپنسری ایک ہی ڈسپنسر چلا رہا ہے۔ یونیسیف اور ڈبلیو ایچ او ماں اور بچے کی صحت پر پاکستان سمیت مختلف ممالک میں ارابوں روپے خرچ کر رہے ہیں جبکہ نوشکی میں گزشتہ چھ مہینوں سے ویکسی نیشن کے لیے دی گئی دو موبائل گاڑیوں میں سے ایک گاڑی حکمران جماعت نیشنل پارٹی (حاصل خان گرو) کے ایک ورکر جبکہ دوسری گاڑی ڈی ایچ او کے نجی استعمال میں ہیں۔ ملک کے دیگر شہروں میں ایکسرے کے جدید اور ڈجیٹل مشین استعمال ہو رہے ہیں جبکہ نوشکی میں پانی سے کام کرنے والی ڈولپر سسٹم استعمال کیا جا رہا ہے۔ جسکی وجہ سے چھوٹی سی فارن باڈی کے لیے ہزاروں روپے خرچ کر کے مریضوں کو کوئٹہ لے جا یا جا تا ہیں۔ ایم این سی ایچ میں ایک ہی LHV کے ریٹائرمنٹ کے بعد سے سینٹر مکمل غیر فعال ہے۔