کوئٹہ: بلوچستان ہائی کورٹ نے نمونہ نمبر پلیٹ نہ لگانے والی وزراء اور ارکان اسمبلی کی گاڑیوں کے خلاف کارروائی کا حکم دیدیا۔ صوبائی اسمبلی، سول اور وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ میں داخلے پر بھی پابندی لگانے کے احکامات جاری کردیئے۔ یہ احکامات جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس نذیر لانگو پر مشتمل بلوچستان ہائی کورٹ کے دو رکنی بنچ نے صوبائی سیکریٹری ہائیر ایجوکیشن عبداللہ جان کے اغواء سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران دیئے۔ سماعت کے دوران ڈی آئی جی کوئٹہ پولیس عبدالرزاق چیمہ، اے آئی جی لیگل ، ایس ایس پی انویسٹی گیشن اور دیگر پولیس حکام عدالت میں پیش ہوئے۔ عدالت نے سیکریٹری کی عدم بازیابی پر برہمی کا اظہار کیا ڈی آئی جی کوئٹہ عبدالرزاق چیمہ کو مخاطب کرتے ہوئے عدالت کا کہنا تھا کہ پولیس اور ایجنسیوں کی موجودگی میں عدالت سے بازیابی کی درخواست آپ پر عدم اعتماد کا اظہار ہے۔ اگر عدالت بھی درخواست گزارکو ریلیف نہ دیں تو وہ کہاں جائیں۔ ڈی آئی جی کوئٹہ عبدالرزاق نے عدالت کو بتایا کہ کیس میں اہم بریک تھرو نہیں ہوا تاہم پولیس دیگر سیکورٹی اداروں کے ساتھ ملکر کام کررہی ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ50 روز میں یہ نہیں بتاسکیکہ مغوی کہاں ہے تو مزید کیا کرینگے۔ ڈی آئی جی پولیس نے جواب دیا کہ ہمیں اندازہ ہے کہ مغوی کہاں ہے لیکن ہم عدالت میں کنفرم بات کرینگے۔ بنچ نے ریمارکس دیئے کہ یہ کیسا صوبہ ہے کہ جہاں ادارے اندازوں پر کام کر رہے ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ جرائم کو ہونے سے پہلے ہی کیوں نہیں روکتے۔ ہرواقعہ کے بعد تدارک اورملوث عناصر کی گرفتاری کا دعویٰ کرتے ہیں۔ جس پر ڈی آئی جی پولیس نے بتایاکہ پولیس نے متعدد کیسز میں ملوث ملزمان کو نہ صرف ٹریس کیاہے بلکہ ملزمان کی گرفتاری بھی عمل میں لائی جاچکی ہے ، پولیس دیگر اداروں کے ساتھ مل کر سیکرٹری ہائیرایجوکیشن کمیشن کی بازیابی کیلئے کوشش کررہی ہے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ آپ لیویز ایریا میں کارروائیاں نہیں کرتے وہ بھی مسئلہ ہوگا۔ عبدالرزاق چیمہ نے نفی میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ ایسا نہیں ہے۔ ہم دیگر اداروں کے ساتھ ملکر بلا تفریق کام کرتے ہیں۔ عدالت نے استفسار کیا کہ پولیس کے پاس اپنی کتنی ایجنسیاں ہیں اور انہوں نے کیا کام کیا ہے ؟ جس پر ڈی آئی جی کوئٹہ پولیس نے بتایا کہ پولیس کی سی آئی اے،سی ٹی ڈی،اسپیشل برانچ،ڈی آئی بی اور کرائم برانچ سمیت دیگر ادارے کام کر رہے ہیں۔ ان اداروں نے کافی کام کرکے کئی تخریبی اور دہشتگردی کی کاروائیوں کو ناکام بنایا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے مغوی کے گھر والوں سے پوچھا۔ انہیں آپ کی ناکام کی گئی کارروائیاں سے کوئی سروکار نہیں۔ پولیس وی آئی پی کے ساتھ ساتھ عوام کو تحفظ کیوں نہیں فراہم کرتی۔ صرف یہی رہ گیا ہے کہ اپنے افسر کے نام پر روڈ بلاک کردیں۔ عدالت نے شہر میں غیرنمونہ نمبر پلیٹس والی گاڑیوں کے خلاف کارروائی کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ یہ گاڑیاں جرائم پیشہ عناصربھی استعمال کرسکتے ہیں۔ نمونہ نمبر پلیٹ کی بجائے منسٹر،ایم اپی اے یا ایم این اے کی نمبر پلیٹ لگانے والی گاڑیوں کے خلاف بھی کارروائی کی جائے اور انہیں اسمبلی،سول اور وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ سمیت سرکاری عمارتوں میں داخلے کی اجازت نہ دی جائے۔ ڈی آئی جی پولیس نے عدالت سے درخواست کی کہ اس سلسلے میں عدالت تحریری ہدایات جاری کریں اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ہم خود بھی سیکرٹری ایس این جی اینڈ ڈی کوعدالت کے ریمارکس سے آگاہ کرینگے۔ سماعت کے دوران عدالت نے پولیس حکام سے استفسار کیا کہ آپ کو شہر کی سیکورٹی کیلئے ایف سی کیا مدد ملی ہے؟۔ اس موقع پر عدالت میں موجود طلعت وحید ایڈووکیٹ نے الزام لگایا کہ کسی بھی واقعہ کے بعد پولیس موقع سے بھاگ جاتی ہے صرف ایف سی رہ جاتی ہے۔ ڈی آئی جی کوئٹہ پولیس عبدالرزاق چیمہ نے اس موقع پر کہا کہ عدالت اس الزام کی تحقیقات کروائے، وہ خود کو پیش کرتے ہیں۔ اس موقع پر عدالت نے طلعت وحید ایڈووکیٹ سے استفسار کیا کہ کیا آپ ایف سے کے وکیل ہے۔ طلعت وحید ایڈووکیٹ نے کہا کہ وہ ایف سی کے وکیل نہیں لیکن بحیثیت وکیل یہ بات کہی۔ جسٹس جمال مندوخیل نے اس موع پر ریمارکس دیئے کہ آپ ایسی باتیں نہ کریں ،پولیس کی قربانیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، یہ فرنٹ لائن فورس ہے۔ ایف سی کودیئے گئے وسائل کے آدھے بھی پولیس کودیئے جائیں تو حالات بہتر ہوجائینگے۔ مقصد پولیس کا مورال گرانا نہیں،اسکی کارکردگی کو بہتر بنانا ہے۔ جسٹس جمال نے کہا کہ وہ اس دن کے انتظار میں ہیں کہ جب پولیس یہ کہے کہ وہ خود معاملات سنبھال سکتی ہے۔ عدالت نے بعد ازاں کیس کی سماعت آٹھ مئی تک ملتوی کردی۔