اوتھل+حب : ہندونوجوان کی جانب سے سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد شیئر کرنے پر حب کی عوام سراپا احتجاج بن گئی، شہریوں، کاروباری حلقوں اور مذہبی تنظیموں کی اپیل پر حب میں مکمل ہڑتال ،مشتعل مظاہرین ،پولیس اور انتظامیہ کے درمیان مذاکرات ناکام ہونے پر ہجوم مشتعل ہوگیا ،مظاہرین کے پتھراؤ سے دو پولیس اہلکاروں سمیت لسبیلہ کے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر اور ڈی ایس پی حب زخمی ہوگئے، پولیس کی ہوائی فائرنگ سے مبینہ طور پر ایک 13سالہ بچہ بھی جاں بحق ہوگیا، پولیس نے مظاہرین کو منتشر اور حالات کو کنٹرول کرنے کے لئے ایف سی کو طلب کرلیا،ہنگامہ آرائی کے الزام میں دو درجن سے زائد افراد کو بھی حراست میں لے لیا گیا ہے ،تفصیلات کے مطابق ایک شہری سلیم سولنگی کی شکایت پر سوشل میڈیا پرہندو نوجوان پرکاش کمار کی جانب سے مبینہ توہین آمیزمواد موبائل ٹیلی فون کے ذریعے اپنے واٹس ایپ گروپ میں شیئر کرنے پرشہری ،مذہبی ،کاروباری اور تجارتی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی جس کے بعد شہریوں اورتجارتی برادری نے اپنے کاروباری اور تجارتی ادارے بند کردئیے اور اس واقعہ پر شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال کرنے کے بعد شہریوں کی ایک بہت بڑی تعداد حب تھانے پہنچ گئی اس دوران شہر کے مختلف علاقوں میں مشتعل افراد نے کراچی کوئٹہ شاہراہ کو احتجاجا ٹریفک کے لئے بند کردیا اور بلوچستان کو سڑک کے ذریعے کراچی سے ملانے والے حب ندی کے پل کو بھی ہر قسم کی ٹریفک کے لئے بلاک کردیاجس کے باعث بلوچستا ن کا زمینی رابطہ کراچی سے منقطہ ہوکر رہ گیا جبکہ مشتعل ہجوم نے حب شہر سے کوئٹہ کی سمت جانے والی آرسی ڈی شاہراہ کو بھی روکاوٹیں کھڑ ی کرکے دارو ہوٹل کے مقام پر بند کردیا حب شہر میں کشیدہ صورتحال کے باعث لسبیلہ کے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر طارق جاوید مینگل اور ایف سی بلوچستان کے کرنل اظہر محمود،سی آئی اے لسبیلہ کے ایس پی حاجی ملک عبدالستار رونجھو،ہائیٹ پولیس تھانہ کے ایس ایچ او عبدالجبار رونجھو،ساکران پولیس تھانہ کے ایس ایچ او حاجی گل حسن محمد حسنی اور میونسپل کارپوریشن حب کے چئیرمین رجب علی رند اور دیگر سرکردہ شخصیات حب تھانہ پہنچیں جہاں وہ مظاہرین کے نمائندوں سے مذاکرات کرہی رہے تھے کہ اس دوران مشتعل ہجوم نے پولیس پر پتھراؤ کیا جس کے نتیجے میں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر لسبیلہ طارق جاوید مینگل اور حب پولیس کے ڈی ایس پی محمد جان کھوسوسمیت پولیس کے دو اہلکار بھی زخمی ہوگئے جبکہ عینی شاہدین کے مطابق پولیس کی ہوائی فائرنگ سے ایک 13سالہ نامعلوم بچہ بھی موقع ہی پر جاں بحق ہوگیا جسکی لاش ایدھی ایمبولینس کے ذریعے جام غلام قادر گورنمنٹ ہسپتال پہنچائی گئی تاہم جاں بحق ہونے والے بچے کی شناخت نہیں ہوسکی ہے اس موقع پر موجود پولیس اہلکاروں نے مشتعل مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے آنسو گیس استعمال کی اور ہوائی فائرنگ بھی کی جبکہ زخمی افسران کو حب کے جام غلام قادر گورنمنٹ ہسپتال پہنچایا جہاں کے ایم ایس ڈاکٹر عباس لاسی نے زخمی افسران اور اہلکاروں کو طبی امداد کی فراہمی کے بعد مزید علاج کے لئے کراچی کے ایک ہسپتال روانہ کردیا دوسری طرف حب شہر میں توہین مذہب کے خلاف شٹرڈاؤن اورپہیہ جام ہڑتال جاری رہی اور مشتعل ہجوم نے شہر کے درمیان سے گزرنے والی آرسی ڈی شاہراہ اور موندرہ چوک پر ٹائروں کو نذر آتش کرنے کے بعد پولیس پر پتھراؤ بھی کیا اس دوران کراچی کوئٹہ کے درمیان ہر قسم کی ٹریفک معطل رہی اور بلوچستان سے کراچی جانے والی گاڑیاں حب کے ٹریفک جام میں پھنسی رہی جبکہ کراچی سے بھی بلوچستان میں کوئی گاڑی داخل نہیں ہوسکی جس سے سینکڑوں گاڑیوں کی قطاریں لگ گئیں حب میں کشیدگی کا یہ سلسلہ کئی گھنٹے تک جاری رہا پولیس نے حالات کو کنڑول کرنے کے لئے ایف سی کی مدد طلب کرلی اور شہر میں پولیس اور ایف سی کے گشت میں اضافہ کردیا گیا جبکہ جمعرات کی شام کو ایس ایس پی لسبیلہ ضیاء مندوخیل کی ہدایت پر حب میں امن وامان کی فضاء برقرار رکھنے کے لئے ضلع لسبیلہ کے دیگر علاقوں سے پولیس کی بھاری نفری بھی طلب کرلی گئی ہے جبکہ صورتحال کے باعث بلوچستان کے صنعتی علاقوں حب اور گڈانی شپ بریکنگ یارڈسمیت علاقے میں صنعتوں کا پہیہ مکمل طور پر جام ہو کر رہ گیا جس سے سینکڑوں مسافروں سمیت شہریوں کو شدید پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا دوسری جانب ایس ایس پی لسبیلہ ضیاء مندوخیل نے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ توہین مذہب کا ارتقاب کرنے کے الزام میں گزشتہ روز حب پولیس نے ایک 35سالہ ہندو نوجوان پرکاش کمار ولد پریم چند کو گرفتار کرکے توہین مذہب کے لئے استعمال کیا گیا موبائل فون اور مواد بھی ضبط کرلیا ہے اور ملزم کے خلاف مقدمہ درج کرکے اسے سینٹرل جیل منتقل کردیا گیا ہے آخری خبروں کے مطابق حب پولیس نے ہنگامہ آرائی اور ٹائر جلانے کے الزام میں دودرجن سے زائد افراد کو حراست میں لے لیا ہے۔