کوئٹہ: کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل عامر ریاض نے کہا ہے کہ پاکستانی سرحد سے متعلق کوئی سمجھوتہ اور نہ ہی بحث ہوسکتی ہے۔پاکستانی سرحد میں گھس کر تنازع پیدا کرنے والوں کو وہی جواب ملے گا جو ہم نے دیا ، افغان فورسز کو بھاری نقصان پہنچانے پر خوشی نہیں ، مجبوری میں جوابی کارروائی کرنا پڑی، جب تک افغان حکومت کا رویہ نہیں بدلے گا پاک افغان چمن سرحد بند رہے گی۔ یہ بات انہوں نے اتوار کی دوپہر کو پاک افغان سرحدی شہر چمن کے سول اسپتال میں افغان فورسز کی گولہ باری سے زخمی ہونیوالے شہریوں کی عیادت کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ اس موقع پر ان کے ہمراہ آئی جی ایف سی بلوچستان میجر جنرل ندیم احمد انجم ، ڈپٹی کمشنر قلعہ عبداللہ، ایس ایس پی قلعہ عبداللہ اور دیگر اعلیٰ حکام بھی تھے۔ لیفٹیننٹ جنرل عامر ریاض نے زخمیوں کا حال پوچھا اور ان کی صحت یابی کیلئے دعا کی۔ انہوں نے زخمیوں کو بطور تحفہ تازہ پھل پیش کئے۔ اس موقع پر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل عامر ریاض کا کہنا تھا کہ افغانستان کی جانب سے دو دن قبل گولہ باری ایک نادان قسم کی شرارت تھی اورنادان شرارت وہ ہوتی ہے جس میں آپ اپنا اور اپنے ہی لوگوں کو زیادہ نقصان کراتے ہیں ، یہ افغانستان کے حق میں بالکل بھی ٹھیک نہیں ۔ امید ہے کہ افغانستان کی قیادت ان معاملات کا جائزہ بڑے اچھے طریقے لیں گے کیونکہ اس کا بہر حال بہت زیادہ نقصان افغان لوگوں کو ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ صورتحال پاکستان اور نہ ہی افغانستان کے حق میں ہے۔ کمانڈر سدرن کمانڈ نے کہا کہ مجھے اس بات کو بتاتے ہوئے کوئی خوشی نہیں کہ ہمیں افغان فورسز کی چار پانچ پوسٹیں تباہ کرنا پڑیں اوران کا نقصان کرنا پڑا کیونکہ انہوں نے پاکستان کے اندر آنے کی کوشش کی جو کسی بھی طرح سے قابل قبول نہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل عامر ریاض نے کہا کہ میں چمن کے عوام کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں کہ انہوں نے انتہائی بہادری سے حالات کا مقابلہ کیا ۔ چمن کے لوگ بہت بہادر لوگ ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ہمیں افغان عوام کا نقصان کرنا پڑا جس پر ہمیں خوشی نہیں۔ یہ ہماری مجبوری تھی کیونکہ جو پاکستان کے اندر داخل ہوگا ہمیں ایسا ہی جواب دینگے۔ افغانستان کی جانب سے سرحدی جارحیت میں بھارتی سازش کے امکانات سے متعلق سوال پر کمانڈر سدرن کمانڈ نے کہا کہ میں اس پر بات نہیں کروں گا ۔اسلام آباد اور باقی لوگ بیٹھے ہوئے ہیں جو اس پر بات کرینگے لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ جس نے بھی شرارت کی یہ ایک نادانی تھی اور اس کا دونوں ممالک کو کوئی فائدہ نہیں۔لیفٹیننٹ جنرل عامر ریاض نے کہا کہ پاک افغان سرحدی حکام کے درمیان فیلٹنگ میٹنگ کا نتیجہ ضرور نکلے گا لیکن ایک بات واضح ہے کہ پاکستان کی سرحد ناقابل بحث ہے ۔ جو پاکستان کے علاقے میں آکر تنازع کھڑا کرنا کی کوشش کرے گا اس کا پہلا جواب یہی ہوگا جو پرسوں ہم نے دیا ۔ میرا یہ خیال ہے کہ افغان لوگ جو بات چیت کرنے آئے ہیں ان کو بھی یہ ادرا ک ہوگا اور یہ سمجھ ہوگی کہ بلاوجہ کسی چیز کو تنازع بنانے کی کوشش نہیں ہونی چاہیے۔ کمانڈر سدرن کمانڈ نے کہاکہ جب تک افغانستان اپنے اس طریقے اور رویے کو درست نہیں کرتا پاک افغان چمن سرحد پر باب دوستی بند رہے گا۔دریں اثناء انسپکٹر جنرل فرنٹیئر کور بلوچستان میجر جنرل ندیم احمد انجم نے کہا ہے کہ افغانستان کی جانب سے بلاجوازجارحیت کا بھر پو جواب دیا گیا ، افغان فورسز کے 50سے زائد لوگ مارے گئے ،100سے زائد زخمی بھی کئے۔نقصان پہنچانے پر خوش نہیں ، وہ ہمارے مسلمان بھائی ہیں،شہری آبادی کو نقصان پہنچانے کے جواب میں کارروائی کی، پاکستان کی بین الاقوامی جغرافیائی سرحد پر کوئی بحث نہیں ہوسکتی ،اپنی علاقائی سالمیت پر کوئی سمجھوتہ نہیں ، سرحدی خلاف ورزی روکنے کیلئے جہاں تک جانا ہوا جائیں گے ،افغانستان میں موجود بھارت کے لوگ منفی مشورے دے رہے ہیں۔ یہ بات انہوں نے چمن کے ایف سی قلعہ میں کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل عامر ریاض کی زیر صدارت پاک افغان سرحدی صورتحال سے متعلق اعلیٰ سطح کے اجلاس اور سرحد پر تعینات جوانوں سے ملاقات کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی۔ اس موقع پر ایف سی کے مقامی کمانڈرز بھی موجود تھے۔ آئی جی ایف سی بلوچستان میجر جنرل ندیم احمد انجم نے کہا کہ پاک افغان کشیدہ صورتحال میں پاکستانی میڈیا کا کردار قابل تعریف ہے۔ اس پریس کانفرنس کا مقصد یہ ہے کہ قوم کے سامنے واقعہ سے پہلے اور واقعہ کے دوران کے حقائق سامنے رکھے جائیں۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت پاکستان نے پورے ملک میں مردم شماری کا فیصلہ کیا اس سلسلے میں ان علاقوں کی خانہ شماری اور مردم شماری بھی کرنی تھی پاکستان اور افغانستان کی بین الاقوامی سرحد پر موجود تھے لیکن اس تمام پراسیس کو احسن طریقے سے کرنے کیلئے ہم نے مردم شماری شروع ہونے سے قبل ایک ماہ قبل ہی افغانستان کی سرحدی پولیس اور فوج کے مقامی کمانڈروز سے افغان سرحدی شہر اسپین بولدک میں ملاقات کی اور انہیں بتایا کہ ہم نے مارچ کے مہینے میں پاکستان میں مردم شماری کرنی ہے جس میں سرحد پر ان علاقوں میں بھی یہ کام کیا جائیگا ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مردم شماری کیلئے ہمیں کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں تھی لیکن ہم نہیں چاہتے تھے کہ کوئی ناخوشگوار ہوا اس لئے ہم نے ہمسائیہ ملک کی مقامی سرحدی پولیس کو آگاہ کیا۔ مردم شماری سے قبل ہم نے سپین بولدک میں مقامی افغان پولیس اور ملٹری قیادت سے تین چار ملاقاتیں کیں اور انہوں نے ہمیں تعاون کا یقین دلایا۔ 25اپریل کو چمن اور قلعہ عبداللہ میں مردم شماری شروع ہوئی ۔ہم نے سرحد پر غیر منقسم دیہاتوں کے ان حصوں میں بھی مردم شماری شروع کی جو پاکستانی حدود میں آتے تھے۔ کلی لقمان اور کلی جہانگیر میں بھی چار دن مردم شماری ہوتی رہی البتہ 29اپریل کو جب مردم شماری کا عملہ پہنچا تو افغان بارڈر پولیس نے رخنہ ڈالنے کی کوشش کی ہم نے خود کو محدود رکھا حالانکہ جواب دینا ہمارا حق تھا لیکن ہم نہیں چاہتے تھے کہ مردم شماری کے دوران ناخوشگوار نہ ہوا۔ تیس اپریل کو ہم نے مقامی افغان فوجی قیادت سے ملاقات کی انہوں نے تین چار دن کی مہلت مانگی ۔ چار مئی کو ہم نے انہیں دوبارہ بتایا کہ ہم کل سے اپنے ان ان دو گاؤں جو پاکستانی سرحد کی حدود میں ہے میں مردم شماری کرینگے۔ ہماری اس مثبت سوچ کا انہوں نے ناجائز فائدہ اٹھایا اور چار مئی کو گاؤں کے اس حصے جو افغانستان میں ہے کو استعمال کرکے پاکستانی حصے میں آئے۔ لوگوں کے ساتھ زبردستی کی۔ ان کو انسانی ڈھال بناکر گھروں پر قبضے کئے اور اپنی پوزیشن سنبھالی ۔ جب ہمیں اطلاع ملی تو ہم نے افغان حکام سے رابطہ کیا کہ یہ چیز ہمارے نوٹس میں آئے لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ جب پاکستانی حدود میں ہماری پاکستانی غیور لوگوں نے افغان فورسز کے خلاف مزاحمت کی تو انہوں نے ایک نوجوان کو قتل کیا۔ اس کے بعد انہوں نے اپنی پوزیشن کو مستحکم کیا۔ چار مئی کی رات کو ایف سی ا ور پاک فوج نے آپریشن شروع کیا جو رات بھر چلتا رہا اور پانچ مئی کی صبح اپنا علاقہ واپس کیا اور انہیں پیچھے دھکیل دیا۔یہ بتانا ضروری سمجھتا ہے کہ زیادہ فوج استعمال کرکے ہم وقت سے بہت پہلے ان گاؤں کو خالی کراسکتے تھے لیکن ہمیں اندیشہ تھا کہ دونوں جانب پاکستان اور افغانستان کی سول آبادی ہے جس کا نقصان ہوسکتا ہے ۔ہم نے پاک فوج کے ضابطہ اخلاق کے مطابق سول آبادی کے تحفظ کو یقینی بنایا اس لئے ہمیں تھوڑا وقت لگا اور پانچ مئی کو اپنی پوزیشن مستحکم کی اور افغان فورسز کو باہر نکال دیا۔افغان فورسز نے جب اپنی یہ پوزیشن دیکھی تو انہوں بلااشتعال چمن میں پاکستان کی شہری آبادی نشانہ بنایاجس کے نتیجے میں دس سے زائد لوگ شہید ہوئے جس میں بچے بچیاں اور ایک حاملہ عورت بھی شامل تھی جس کے پیٹ میں موجود بچہ بھی گولہ لگنے سے شہید ہوا۔ چالیس سے زائد لوگ زخمی ہوئے۔ ہم نے جواباًافغانستان کی بارڈر فورس کی چیک پوسٹوں کو نشانہ بنایا جو پاکستانی شہری آبادی کو نشانہ بنارہے تھے ۔اس وقت یہ ہمارا حق تھا۔ پاکستان کی جغرافیائی حدود کے ایک ایک انچ کی حفاظت ہمارا فرض ہے ۔ ہم نے ان کی پانچ سے زائد چیک پوسٹوں کو تباہ کیا اور فورسز جو اندر آئی تھیں انہیں ہم نے باہر نکالا۔ میجرجنرل ندیم احمد انجم نے کہاکہ اس آپریشن میں ہمارے دو جوان شہید اور نو زخمی ہوئے۔ ہمیں یہ بتانے میں کوئی خوشی نہیں اور نہ ہی یہ باعث اطمینان کہ اس تمام آپریشن میں افغانستان کا بہت بھاری نقصان ہوا ، ان کے پچاس سے زائد لوگ مارے گئے ہیں۔ سو سے زائد زخمی ہوئے جو ان کے فوجی تھے اورافغان بارڈر پولیس کے اہلکار تھے۔ اس نقصان کے تمام تر ذمہ دار بارڈر پولیس کے لوکل کمانڈر اور اسپین بولدک میں موجود کمانڈر تھے کیونکہ ہم نے ہر لمحے ہر اسٹیج پر انہیں باخبر رکھا تاکہ مردم شماری اچھے طریقے سے ہو۔ انہوں نے اپنے تئے نادان شرارت کی اور یہ سمجھ لیا کہ پاکستان کی بین الاقوامی سرحد کو عبور کیا جاسکتا لیکن اس کی پاکستانی افواج اورایف سی بلوچستان ہر گز اجازت نہیں دے سکتی ۔ افغانستان کا اتنا بھاری نقصان کرنے پر ہمیں کوئی خوشی نہیں کیونکہ یہ ہمارے بھائی ہیں لیکن پاکستان کی جغرافیائی حدود کی حفاظت ہمارا اولین فرض ہے ،کسی نے ہماری سرزمین کے ایک انچ کی بھی خلاف ورزی کی ہم اس سے زیادہ بھاری اور دردناک جواب دینگے۔ اور یہ ہمارا حق بنتا ہے۔آئی جی ایف سی بلوچستان نے مزید بتایا کہ کہا کہ پانچ مئی کو جب یہ جنگ جاری تھی تو افغان حکومت نے پاکستان کی حکومت سے رابطہ کیا اور ان سے درخواست کی کہ ہم جنگ بندی کرنا چاہتے تھے ہم ظاہری بات ہے اس نقصان کے حق میں نہیں اور نہ جنگ کے حق میں ۔ اس لئے ہم نے جنگ بندی کی درخواست قبول کرتے ہوئے پانچ مئی کو دو بجکر بیس منٹ پر جنگ بندی کی اور مقامی سطح پر فلیگ میٹنگز ہوئی بات چیت ہوئی لیکن ہم نے واضح کیا کہ پاکستان کی بین الاقوامی سرحد ناقابل بحث ہے۔ اس پر قطعاًبحث نہیں ہوسکتی۔ ہم اپنی جغرافیائی حدود کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دے سکتے ۔ آئی جی ایف سی نے کہا کہ جی ایچ ایچ کیو اور افغان فوجی حکام کے درمیان جو بات چیت ہوئی ہے اس کے مد نظر افغانستان اور پاکستان کی سروے ٹیمیں آئیں گی اور کوشش کی جائے گی کہ متنازع بنائے جانیوالے علاقوں سروے مکمل کرکے اس مسئلے کو مستقل طور پر حل کریں ۔ ایک سوال کے جواب میں آئی جی ایف سی نے کہا کہ نقل مکانی کرنیوالے افراد کی امداد کیلئے ڈپٹی کمشنر اور سول انتظامیہ نے بہت اچھے انتظامات پہلے سے کئے ہیں۔ پی ڈی ایم اے نے چمن کیلئے اضافی خوراک اور دیگر امدادی سامان بجھوایا ہے۔ پہلے صورتحال کے پیش نظر آمدروفت بند تھی اب چمن شہر کی جانب آنیوالی ہر قسم کی آمدروفت کھلی ہے۔ ایک اور سوا ل کے جواب میں میجر جنرل ندیم انجم نے کہا کہ میرا تجزیہ ہے کہ افغانستان کی فورسز پیشہ ورانہ نہیں ہیں ۔افغانستان میں دشمن ملک بھارت کے لوگ موجود ہیں جو انہیں منفی تجاویز دیتے ہیں۔ یہ سب کو پتہ ہے کہ اس علاقے میں جنگ پاکستان اور افغانستان دونوں ملکوں کے مفاد میں نہیں ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ کابل اور قندھار میں بیٹھی افغان بارڈر پولیس اور افغان نیشنل آرمی کی قیادت اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ وہ پاکستان کے ساتھ قومی سطح پر ہونے والی بات چیت کا اثر ایک ایک سپاہی تک پہنچائیں گے تاکہ جو بات ہمارے آپس میں ہوتی ہے وہ نیچے والوں کو معلوم ہو کہ انہوں نے کیسے عملدرآمد کرنا ہے۔بھارت کی افغانستان میں سازش سے متعلق آئی جی ایف سی نے کہا کہ پاکستانی سیاسی قیادت نے اس سلسلے میں واضح بیان دیا ہے کہ یہ دہلی اور کابل کا گٹھ جوڑ ہے کیونکہ یہ بات سمجھنے والی ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان اتنی زیادہ بات چیت کے باوجود گاہے بگاہے ایسے مسائل کیوں کھڑے ہوتے ہیں اس کی وجہ یہی ہے۔ افغان فورسز کی جانب سے گولہ باری کے عمل میں بھارتی کمانڈوز کی مدد سے متعلق سوال پر آئی جی ایف سی نے کہا کہ میں صرف بات کروں گا جس کی ہمارے پاس مصدقہ اطلاعات ہو ں اور اس وقت ایسی اطلاعات نہیں ۔انہوں نے کہا کہ میں چمن کے تمام قبائل کا بے حد شکر گزار ہوں جنہوں نے اس مشکل وقت میں انتہائی ہمت جرأت جذبے کے ساتھ کام کیا نہ صرف جن لوگوں کا نقصان ہوا ان کی مدد کی بلکہ خون دینے کیلئے چمن کے سول اسپتال میں لائن لگ گئی۔ ایف سی اور پاک فوج کو بھی فون کرکے اپنی خدمات کو پیش کیا کہ ملک پر یہ مشکل وقت ہے اگر ہماری ضرورت ہے تو وہ حاضر ہیں۔ میں ان کے جذبات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔انوں نے اتحاد تنظیم اور جذبے کے ساتھ مسلح افواج کا ساتھ دیا ۔انہوں نے کہا کہ جب بھی افغانستان میں کوئی آفت آئی۔ سرحد بند ہونے کے باوجود ہم نے بیمار افراد ،بچوں اور خواتین کی مدد کی کیونکہ ہم افغانوں کو اپنا بھائی سمجھتے ہیں ۔تاریخ اٹھائیے ہم نے ہمیشہ ان کی بہت مدد کی ۔ جب افغانستان کی مقامی قیادت کا رویہ درست ہوگا اور حالات کی درستگی کے بارے میں سنجیدہ کوشش کرینگے تب باب دوستی گیٹ کھلے گا۔