|

وقتِ اشاعت :   May 16 – 2017

 
 
 
جزیرے بہت خوبصورت ہوتے ہیں،اوراگرجزیرے میں کوئی گھر مل جائے، تووہ گھر کِتنا حسین ہوگا! جزیرہ اُس وقت بیحد دلکش لگتا ہے جب وہاں مدّتوں بعد کوئی کشتی لوٹ آتی ہے، یوں لگتا ہے جزیرے پہ آسمان کا کوئی تارا ٹوٹاہو۔
 

یہ جزیرہ زیادہ بڑا نہیں ہے، دل جتنا چھوٹا ہے،لیکن اِس دل جیسے جزیرے میں پوری کائنات اپنا گھر بنا سکتی ہے۔ جزیروں کی خوبصورتی کا راز کیا ہے؟ 

جزیرے خوبصورت اِس لیے  ہیں، کیونکہ وہاں آدمی نہیں رہتے، جہاں بھی آدمی رہتا ہے۔ 
 
وہاں گندگی اور بُرائی پھیلتی ہے۔مانبر پیشکان کے ساحل پرسمندر کے اندر ایک چھوٹا سا پہاڑ ہے، سمندر کے بیچ موتی جیسا خشک زمین کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا،جسے دیکھ کر ہر ڈوبتے شخص کو موجوں سے لڑنے کا حوصلہ ملتا ہے۔
 
مانبردُور سے ساحل پہ غوطے کھاتی ایک ڈولفن مچھلی کی طرح دِکھتی ہے۔ایسا لگتا ہے ابھی وہ ہماری کشتی کواپنی ناک سے ٹکّر مار ے گی۔ مانبراُس بچے کا گھرونداہے،جسے بنانے میں وہ روز کنارے پہ گھنٹوں لگاتا ہے،اور ذرا دیر میں موجیں اُسے بہا لے جاتی ہیں۔
 
اِس چھوٹے سے پہاڑ کو کئی طوفانوں کا سامنا رہا،یہ نہ کبھی ٹوٹا اور نہ ہی ڈوب گیا۔ایک شام ایسی ہَوا چلی، کشتیوں کے بادبان سارے کُھل گئے،اور مکانوں کے سب چراغ بُجھ گئے۔آج سے پہلے اِس پہاڑ کو اِتنی شہرت اور بدنامی کبھی نہیں ملی۔
 
بس سرکار نے اپنے کام کے ساتھ اِس کا نام جوڑ دیا، یوں پیشکان ہاؤسنگ اسکیم کے چہرے پر مانبر کا تِل سج گیا۔خوبصورت بچوں کو کسی اور کی نہیں ، ماں کی اپنی نظر لگ جاتی ہے۔اِس گھونسلے کو بھی کسی گِدھ کی نہیں، چڑیا کی اپنی نظر کھا گئی۔
 
12جنوری 2017ء کوڈپٹی کمشنر گوادر نے مانبر ہاؤ سنگ پیشکان کی قرعہ اندازی کی۔یعنی پلاٹس ملنے والے خوش نصیبوں کی فہرست جاری کی گئی۔700کمرشل اور 3721رہائشی پلاٹوں کے خوش قسمت ناموں کا اعلان ہُوا۔
 
ٹوٹل 4421پلاٹس کی منظوری عمل میں آئی۔اِس نئی ہاؤسنگ اسکیم کیلئے کُل 10721درخواستیں موصول ہوئیں۔ مانبر ہاؤسنگ کی ٹوٹل اراضی ایک ہزار ایکڑ پر مشتمل ہے۔
 
اسکیم کی مجموعی آمدنی کادس فیصدتعلیم پر خرچ کی جائیگا، جبکہ اِس کی ڈیمارکیشن کیلئے پانچ کروڑروپے لاگت آئے گی۔یہ اچھی بات ہے کہ کسی کونسلر یاناظم کے ہاتھوں بالٹی سے ناموں کی پرچھیاں نہیں نکالی گئیں۔
 
اِس اسکیم کی قرعہ اندازی ایک سوفٹ ویئر کی مددسے کی گئی۔ البتہ بعد میں کمپیوٹر آپریٹرز نے اپنے خاندان کے ناموں کے اندراج کیلئے اِس سوفٹ و یئرکو چھیڑا ضرور۔مانبر کو میں نے دو اور ٹائٹل بھی دئیے ہیں، بے گھروں کی آخری اُمید! اورایک بچے کی پہلی غلطی! ہمارے ہاں تقسیم کا عمل خیرات سے پہلے ثواب کو ضائع کر دیتا ہے۔
 
مانبر ہاؤسنگ اسکیم کوتقسیم سے پہلے اگربہتر ترتیب دیا جاتا، اور کچھ چیزوں کا خیال رکھا جاتاتواِس اسکیم کے شاندار نتائج سامنے آسکتے تھے۔ایک بینک کی بجائے تین چار جگہوں پر پلاٹوں کی تعداد کے مطابق فارمز رکھے جاتے۔
 
ہر شخص کو صرف ایک فارم خریدنے کا پابند کیا جاتا۔اوردوسال تک کے لیے پلاٹ کی خریدوفروخت پر پابندی لگائی جاتی۔ پلاٹوں کے رقبہ میں کمی کر کے دس ہزار لوگوں کو الاٹمنٹ ممکن ہوسکتی تھی۔ جن کے پاس فارم خریدنے کے پانچ سَو روپے نہ ہَوں وہ لاکھوں روپے فیس کیسے بھر سکتے ہیں؟
 
فیس کم ہوتی تولوگ اپنی زمین ٹین کے دام ہرگز نہ بیچتے۔ سڑک پر گھنٹوں لمبی قطار میں کھڑے لوگوں کی عزّتِ نفس مجروح ہورہی ہے،بوڑھے بزرگ اور بیمار خواتین دُھوپ میں کھڑی ہیں۔
 
فہرست مرتب کرنے والے کمپیوٹر آپریٹرزپر سو فیصد بھروسے نے اِس اسکیم کو وائرس زدہ کر دیا۔انسان مشین سے اِس لیے ہار جاتا ہے،انسان اور مشین میں صرف لالچ کا فرق ہے۔
ڈپٹی کمشنر گوادر نے مانبر ہاؤسنگ اسکیم کومشین بن کرڈیزائن کیا ہے۔مگرانسانوں کی لالچ نے پلاٹوں کی تعداد سے زیادہ ہزاروں اضافی فارمز بینک میں سے جاری کیئے، اور یوں ایک مسیحا کو بند گلی میں پہلا دھکّا لگ گیا۔یوسی پیشکان کو گوادر سٹی کے برابر پلاٹس کی تقسیم سے اِس اسکیم کی صحت پرکوئی اثرنہیں پڑا۔
 
مگرپیشکان یونین کونسل کویونین کونسل کے مطابق اپنا حصہ ملتاتو بہترتھا۔گوادر اور پیشکان کے بیشترلوگوں نے اپنے پلاٹ کے ووچرز بینک میں جمع کرنے سے پہلے فروخت کر دیئے، پھر ہجوم میں ہنگامہ ہو گیا،اور بازار کایہ شورسمندر کے موجوں کی طرح درودیوار پر ٹوٹ گیا۔
 
مانبر یہ سب تماشا دیکھ کر کنارے پہ کھیلنے والے بچوں کے بکھرے مستقبل پر رورہا تھا۔مانبر اُس نے بھی بیچ دیا ،جس کاکوئی گھرنہیں تھا۔یہ غم اِتنابڑا تھا، جیسے کسی جزیرے پر ایک پُرانا جہاز ٹوٹ گیا ہو۔ جو چیز بازار میں بِک جاتی ہے،ایسی خیرات قبولیت کے درجے تک کبھی نہیں پہنچتی۔
 
اور اگر خیرات کو بھیڑ میں پھینک دوگے تو حقدار کو اُس کا حق نہیں ملے گا۔جو طاقتور ہوگا، وہ کمزور پر حاوی ہوجائیگا، اور سب کچھ حاصل کر لیگا۔ مانبر جیسے جزیرے پر بھی کالے بکرے کی بھلی چڑھ گئی،اور ابابیلوں کا آسمان گِدھوں سے بھر گیا۔ اِس اسکیم کی تقسیم کے بعد اب ہر شخص کوروٹی ،چاول دال،گوشت کے ساتھ زمین کی بھوک بھی لگتی ہے۔
 
ہماری ضلعی حکومت نے کچھ لوگوں کے علاج کیلئے سارے شہر کو بیمار کر دیا۔مگریہ اپنی نوعیت کا پہلا ہاؤسنگ اسکیم ہے جس میں کسی شخصیت اور نمائندے کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ماضی میں جتنے بھی ہاؤسنگ اسکیموں پر کام ہُوا، وہ سیاسی جماعتوں میں بانٹ دی گئیں۔یہاں کسی بھینس کی لاٹھی نہیں چلی۔
 
دُکھ یہ ہے مجھے مرہم توملا،پرمیرے زخم کا دوا نہ ہُوا۔ لمبے سفر پر نکلے قافلے میں شامل ہر مسافر کی آنکھیں سایہ تلاش کرتی ہیں ۔ اِس جزیرے کے نام پرکچھ لوگوں کوکچھ پیسے تومل گئے، پر گھر جیسا سایہ نہ ملا۔ہم جب بھی گھر کے ہوگئے، گھر نہ جانے کہاں کھو گیا۔
دنیا میں کہیں بھی ایسانہیں ہوتا، کہ آپکو بیچنے کیلئے زمین دی جائے ، زمین اُسے دی جاتی ہے جس کے پاس رہنے کو گھر نہیں ، جو کرائے کے گھر میں رہتا ہے، یا مسجد کے حُجرے میں سوتا ہے۔ہر بار میرے شہر کے لوگوں کو کچھ ملتا نہیں ۔
 
وہ صرف اپنی زمین جوّے میں ہار جاتے ہیں۔مانبر ہاؤسنگ اسکیم کا گلاب جامن لوگ جلیبی کی طرح کھا گئے۔ ایسے شخص کو پلاٹ دینے کا کیا فائدہ؟جس کی زمین دو گھنٹے میں فروخت ہو جاتی ہے۔اِس نیک کام میں شامل اُن لوگوں کو اُس وقت بہت ٹھیس پہنچا۔
 
جب لوگ اُن کے سامنے مانبرکے ٹکڑوں کو گھر کے پُرانے برتن کی طرح کباڑی میں بیچ رہے تھے۔ چیزیں اِس لیے ہمارے ہاتھوں سے نکل جاتی ہیں، ہم اُنہیں اپنا سمجھتے ہی نہیں،ہم سب کچھ سرکار پہ چھوڑ دیتے ہیں۔ اور مجھے سرکار کی یہ بات عجیب لگتی ہے، سرکار ہماری زمین خریدتاہے اورہم سرکار کی زمین بیچتے ہیں۔
 
مانبر گوادر کی چادر ہے، اور اِس چادر کی گانٹھوں میں دادی کی کہانیاں بستی ہیں،پریوں کی وہ کہانیاں جوپرستان میں بھی کسی نے نہیں سُنیں۔پلکوں کوشیشوں سے لگاکر جھانکوتومانبر شہد اور عِطرجیسا سُندھر دکھتا ہے۔
 
نہ جانے کیوں مجھے مانبر کی بستی بسنے سے پہلے ہرگھرکے آنگن میں زیتون اور انار کی خوشبو محسوس ہورہی ہے،اورمیں خودکومانبر کی چمکیلی ریت پرتُلسی کے پودے جیسا اُگتا دیکھ رہا ہُوں۔ خوابوں کے اِس جزیرے میں خوابوں کے سِوا کچھ بھی نہیں،اِس جزیرے پہ خواب شیشے کے پرندے ہوتے ہیں،جواُڑتے بھی ہیں۔
 
کھنکتے بھی ہیں اورٹوٹتے بھی نہیں۔خوابوں کا یہ جزیرہ اُسی کاہے،جس کے پاس مانبر کی زمین ہے۔ مانبر ایک ایسی سوچ کی تخلیق ہے، اُسے معلوم ہے گوادر سے جب حضرت نوحؑ کی کشتی نکلے گی،تووہ پیشکان کارُخ کرے گی،اور مانبرہی وہ واحد جگہ ہے جہاں مچھیرے اپنی زندگی سکون سے گزارسکتے ہیں۔
 
لیکن یہاں کے مچھیرے تو اپنی کشتی کے باہرکی دنیا کے متعلق سوچتے تک نہیں۔سمندردن بہ دن جال کی طرح اُن کی کشتیوں کے نیچے اُلجھتا جارہاہے۔ یہ خوشی ہمیں ایک دن خود کشی پہ مجبور نہ کردے، ہم کیسے لوگ ہیں؟ ہم اپنے نقصان کاجشن مناتے ہیں۔
 
جس کنارے نے ہماری جان بچائی،ہم نے اُس کا سودا کردیا۔اب سُناہے چاندنی راتوں میں کبوتر، نیل کنٹھ اور چکوروں کے ساتھ اُس جزیرے پر کوّے بھی دِکھتے ہیں۔ مانبر کا نتیجہ جوبھی آئے، کسی کو گھر، سایہ، گھونسلہ کچھ نہ ملے، لیکن ماسی شربانو مانبر کے جزیرے پر بہت خوش ہے۔
 
وہ ڈپٹی کمشنر گوادر طفیل بلوچ کو ڈھیروں دُعائیں دیتی ہے، سردیوں کی راتوں میں ہمارے لوگ تواپنی بڑی گاڑیوں میں گھومتے رہے، بیکری کے ٹھنڈے فرش پر بیٹھی ماسی شربانو کے زخموں پرمانبر نے مرہم رکھ دیا۔