وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے بالآخر زلزلہ متاثرین کی بحالی کیلئے عالمی برادری سے اپیل کرہی دی۔ورنہ یہاں تو زلزلے سے ہونے والی نقصانات کا اندازہ لگائے بغیر این ڈی ایم اے کے سابق فوجی سربراہ نے زلزلہ کے دوسرے روز ہی عالمی امداد لینے سے انکار کیا تھا۔ وزیراعلیٰ کے بیرون ملک دورے کے وقت صوبائی حکومت کے ترجمان نے بھی اعلان کیا تھا کہ حکومت کے پاس زلزلہ متاثرین کی امداد و بحالی کیلئے وسائل بہت ہیں لیکن شاید انہیں بھی صحیح صورتحال کا علم نہیں تھا۔ بہرحال وزیراعلیٰ بلوچستان کے اس اقدام پر یہی کہاجاسکتا ہے کہ’’ دیر آید درست آید‘‘۔وزیراعلیٰ نے گزشتہ روز آواران کے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے کے بعد صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ مشکے کو آفت زدہ علاقہ قرار دے دیا گیا ہے۔25 ہزار خاندانوں کی بحالی کیلئے عالمی برادری تعاون کرے۔ متاثرین کی امدادی اشیاء بازار میں فروخت ہوئیں تو ملوث افراد کے خلاف دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمات درج کیے جائیں گے۔ متاثرہ علاقوں میں گزشتہ دس سال میں حکومت کا نام نہیں تھا۔ حالیہ زلزلہ کشمیر کے زلزلے سے زیادہ خطرناک تھا۔ آواران، مشکے اور کیچ میں زلزلے سے 402 ہلاکتیں ہوئیں۔ پنجاب حکومت نے ایک ہیلی کاپٹر دیا ہے جس کے ذریعے متاثرہ علاقوں میں سامان کی ترسیل کا کام جاری ہے۔ مزاحمت کاروں سے براہ راست کوئی رابطہ نہیں ہوا، کارکنوں سے حال احوال ہواہے۔حکومتی اعلانات اور اقدامات سے بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ زلزلہ متاثرہ افراد اور علاقوں میں بڑی ہی تندہی سے ریلیف کی کارروائیاں جاری ہیں جبکہ میڈیا ذرائع کے مطابق تمام تر ریلیف فوٹو سیشن تک محدود ہے۔ وزیراعلیٰ نے عالمی امداد کی اپیل کرکے مثبت قدم اٹھایا کیونکہ زلزلہ متاثرین کی بحالی و امداد کیلئے عالمی امداد ناگزیر ہے ۔ریلیف کے سامان کی ممکنہ خریدوفروخت کیلئے سخت اقدامات کااعلان یقیناً خوش آئند ہے ورنہ اس سے قبل کشمیر اور زیارت میں آنے والے زلزلوں کے بعد امدادی سامان کاعام مارکیٹ میں خریدوفروخت کا دھندا چلتا رہا۔ صرف یہی نہیں بلکہ ان زلزلوں میں حکومتی نمائندوں نے اپنی جیبیں بھی خوب گرم کیں۔ زلزلہ متاثرین کو اگر کچھ ملا تو وہ بھی چھینا جھپٹی میں’’ حصہ بقدر جثہ‘‘ کے مصداق جس نے جتنی تگ ودو کی اس کو اتنا ہی ملا۔ ورنہ کمزور و ناتواں لوگ تو قسمت ہی پر اکتفا کیے بیٹھے رہے ۔وزیراعلیٰ بلوچستان کو امدادی اشیاء کی ممکنہ فروخت کے ساتھ عالمی امداد کی ممکنہ خوردبرد کا بھی تدارک کرنا چاہیے تاکہ متاثرین کے نام پر آنے والی امداد وزراء یا حکومتی اہلکاروں کے گھروں کی زینت بننے کی بجائے حقیقی متاثرین کو پہنچ جائے اور انکی ہر ممکن داد رسی ہوسکے ۔سردست زلزلہ زدہ علاقوں میں غیر سیاسی بنیادوں پر متاثرین کاریکارڈ مرتب کیا جائے اور اس ریکارڈ کے مطابق ہر متاثرہ خاندان کو اس کے دروازے پر امداد پہنچائی جائے اور کسی کو ہیلی کاپٹروں کے نیچے یا امدادی ٹرکوں کے پیچھے بھاگنا نہ پڑے ۔سردی شروع ہونے سے قبل ان متاثرہ خاندانوں کیلئے شیلٹر مہیا کیے جائیں اور سردی سے بچاؤ کیلئے مناسب لباس و کمبل کے ساتھ تیار راشن کی فراہمی کا انتظام کیا جائے۔