|

وقتِ اشاعت :   May 24 – 2017

کو ئٹہ : بلوچستان نیشنل پارٹی کے ترجمان نے کہا گیا ہے کہ مردم شماری سے متعلق نیشنل پارٹی کا دعوی کھسیانی بلی کھمبا نوچنے کے مترادف ہے بلوچستان کا ہر باشعور بلوچ بخوبی جانتا ہے کہ چالیس لاکھ افغان مہاجرین اور مردم شماری سے متعلق بی این پی کی پالیسی کیا رہی جو کھلی کتاب کی مانند ہے ۔

حکمران جماعت افغان مہاجرین کومہاجر کہنے کے بجائے تارکین وطن کہتی رہی بی این پی مسلسل کئی سالوں سے مردم شماری اور افغان مہاجرین کے مسئلے پر آواز بلندکرتی ہے اور صف اول میں رہ کر بیانات ، تقاریر ، تحریر ، خیالات و افکار حتی کے عدالت عظمی ، محکمہ شماریات اور بالآخر عدالت عالیہ سے رجوع کیا اور پٹیشن فائل کی جس میں پارٹی کو کامیابی حاصل ہوئی اور معزز عدالت نے فیصلہ دیا کہ افغان مہاجرین کو مردم شماری سے اور بلوچ آئی ڈی پیز کو شامل کیا جائے ۔

مردم شماری سے متعلق عدالت کے فیصلے کو تاریخی گردانا جائے تو بے جا نہ ہو گا پارٹی قائد سردار اختر جان مینگل اور پارٹی قیادت نے تاریخی جلسوں میں واضح موقف اختیار کیا کہ مردم شماری ہمارے لئے موت و ذیست کا مسئلہ ہے ۔

افغان مہاجرین کے انخلاء یقینی بنایا جائے بی این پی تنگ نظری پارٹی نہیں قومی مسئلہ پر کبھی مصلحت پسندی کا شکار نہیں ہوئے بلکہ افغان مہاجرکو مہاجر کہا تارکین وطن نہیں مذکورہ جماعت جو الیکشن نہیں سلیکشن کے ذریعے اقتدار پر براجمان ہوئے تو اتحادیوں کی خوشنودی کی خاطر مہاجرین کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے بلاک شدہ شناختی کارڈز کی بحالی کیلئے اسمبلی سے قرارداد پاس کرائی اس وقت بلوچ مفادات کو دیوار سے لگا کر اقتدار کو طول دینا چاہا آج جب اقتدار سے فارغ ہیں انہیں ۔

بلوچستان کی پسماندگی افغان مہاجرین کا مسئلہ نظر آرہا ہے 2015 ؁ء میں کہتے تھے کہ بلوچستان کو سب کچھ مل گیا ہے اور 2015 ؁ء کے ستمبر کے بعد یہ کونسا طوفان آگیا کونسی سونامی اور زلزلہ آگیا کہ اب لوگ کہتے پھر رہے ہیں کہ بلوچستان کے حقوق نہیں دیئے جارہے جب اقتدار میں تھے تو سب کچھ اچھا ہے کی باتیں کرتے رہے اب جب اقتدار چلا گیا تو افغان مہاجرین بھی یاد آگئے اسوقت تو افغان مہاجرین آپ کی بغل میں تھے اب جبکہ مردم شماری کا عمل ختم ہونے کو ہے تو کھسیانی بلی کھمبا نوچنے کے مترادف دوسروں پارٹیوں پر تنقید کرنے اور مردم شماری کا کریڈٹ اپنی دینا درست اقدام نہیں کیونکہ یہ اکیسویں صدی ہے ۔

ہر بلوچ باشعور ہے ہر پارٹی کے کردار و عمل سے بخوبی واقفیت رکھتے ہیں بیانات سے نہیں عملی اقدامات سے عوام کے دل جیتے جا سکتے ہیں جو کہ حکمران جماعت نہ کر سکی بیان میں کہا گیا ہے کہ مردم شماری کے مراحل میں پارٹی نے جو عملی کردار ادا کیا وہ کوئی پارٹی ادا نہ کر سکی پارٹی نے بلوچستان بھر میں عوامی رابطے مہم اور گھر گھر جا کر مردم شماری اور خانہ شماری سے متعلق آگاہی فراہم کی ۔

کوئٹہ میں بے شمار ایسے پروگرام کئے جس میں بلوچوں کو مردم شماری کی اہمیت و افادیت سے آگاہی دیبلوچستان کے ہر طبقہ فکر ہمارے جدوجہد کا عملی ثبوت فراہم کر سکتے ؒ لفاظی باتوں سے مردم شماری کا کریڈٹ کوئی نہیں لے جا سکتا بی این پی نے سی پیک ہو یا مردم شماری ، افغان مہاجرین کا مسئلہ تینوں پر پارٹی نے آواز بلند کی جو پارٹی کے کونسل سیشن کے فیصلے تھے ۔

جس پر من و عن عمل کر کے عملی جامعہ پہنایاگوادر میں بلوچ کے اہم مسائل پر سیمینار اور آل پارٹیز کانفرنس منعقد کرایا اور ملکی سطح پر تمام طبقہ فکر کو گوادر کے بلوچوں کے تحفظات سے آگاہ کیا انہیں آگاہی دی کہ بلوچستان کا مسئلہ مغربی روٹ نہیں بلکہ پورٹ کے اختیار اور بلوچ قوم کو اقلیت میں تبدیل ہونے سے بچانا ہے جس کیلئے قانونی سازی کی ضرورت ہے ۔

اسی طریقے سے بلوچستان کے تمام قومی اجتماعی مفادات کے حوالے سے پارٹی قائد ین کے اصولی موقف اور پارٹی کی جدوجہد ڈھکی چھپی نہیں اسی پاداش میں پارٹی کے سینکڑوں رہنماؤں و کارکنوں کو شہید کیا گیا لیکن اس کے باوجود پارٹی اجتماعی بلوچ قومی مفادات کے حصول سے پیچھے نہیں ہٹی اب جب اقتدار کے آخری ایام ہیں تو ایک بار پھر حکمران جماعت بلوچ قوم یاد آ رہی ہے ۔

2013ء کے سلیکشن کے بعد آج بلوچستان کے معاشی تنگ دستی ، بے روزگاری ، غربت کا شکار ہو چکے ہیں کرپشن کا دور دورہ ہے آئے روز کرپشن کے نئے سکینڈل سامنے آ رہے ہیں اور اربوں روپے سے کم ہوتے ہی نہیں اسی طرح پیرا میڈیکس ، طلباء و طالبات سراپا احتجاج ہیں صحت اور تعلیم کے مسائل سے بے اختیار حکمران حل نہ کر سکے دعوؤں کے بجائے عملی اقدامات کی ضرورت ہے ۔

معاشی طور پر عالم یہ ہے کہ جامعات سے فارغ التحصیل طلباء و طالبات ڈگریاں لئے روزگار کے حصول کیلئے سرگرداں ہیں مختلف محکموں کی جو چند آسامیاں مشتہر کی گئیں ان کو بھی لاکھوں روپوں میں فروخت یا ہمدردو میں بانٹھ کر میرٹ پامال کیا گیا اب حکمران کیسے یہ دعوے کرتے ہیں کہ عوام کی زندگیوں میں تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں بلوچستان کے جملہ مسائل حل کرنا تو درکنار اب تو کوئٹہ کے ہر سڑک پر احتجاجی کیمپ لگے ہوئے ہیں ۔

کوئی ایسا طبقہ نہیں جو ان کے خلاف احتجاج کرے حیرت کی بات ہے کہ انہی کی حکومت ہے اور احتجاجی کیمپوں میں بھی خود بیٹھ کر مسائل حل کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں یہ دوغلا معیار نہیں تو اور کیا ہے حکمران بلوچستان کے عوام کو باتیں کہ وہ چند وزارتوں کے ساتھ اقتدار میں ہیں یا حزب اختلاف میں بیان میں کہا گیا ہے ۔

بی این پی پارٹی قیادت اور پالیسیوں پر ہم برملا کہنا چاہتے ہیں کہ ہمیں فخر ہے کہ ہم نے بلوچستان کے اجتماعی مفادات کے حصول کو اپنا نصب العین بنایا شہداء کے قربانیاں ہمیں وارثے میں ملیں قیدوبند کی صعوبتیں آج تک برداشت کر رہے ہیں لیکن عملی طور پر عوام کو کبھی تنہا نہیں چھوڑا بلکہ ہر اہم مسئلے پر پارٹی نے اول دستے کا کردار ادا کیااور ثابت کیا کہ ہماری جدوجہد عوام کے حقیقی ترقی و خوشحالی ، تاریخ ،تہذیب ، زبان و ثقافت کے بقاء کا حصول ہے ۔

افغان مہاجرین ہو ، مردم شماری یا گوادر کا مسئلہ تمام مسائل پر عملی جدوجہد کرتے ہوئے اپنے خدشات و تحفظات پر آواز بلند کی ہم ترقی و خوشحالی کے مخالف نہیں لیکن بلوچ وسیع تر مفادات کے حصول ہمیں زیادہ عزیز ہے اس حوالے سے قومی جمہوری جدوجہد کو تیز کرتے ہوئے آواز بلند کرنے کو ترجیح دی ہے ان حقائق کو جھٹلایا نہیں جا سکتا ۔