|

وقتِ اشاعت :   May 24 – 2017

کو ئٹہ : پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین مجید خان اچکزئی نے کہا ہے کہ موجودہ مخلوط حکومت پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے ساتھ تعاون نہیں کررہی ، بجٹ سے قبل گھوسٹ ملازمین اورکرپشن کا سراغ لگانیوالے افسران کا تبادلہ کرکے انہیں ایمانداری کا سزا دی جارہی ہے ۔

جن افسران کو ایمانداری کی سزا دی جارہی ہے وہ ہمارے ساتھ رابطہ کریں ، اگر انصاف نہ ہوا تو پبلک اکانٹس کمیٹی کی چیئرمین کے عہدے سے استعفی دینگے، 45ہزارملازمین کے شناختی کارڈ مشکوک ہونے کا انکشاف حیرتناک ہے ، سرکاری ملازمین کو بائیومیٹرک نظام کے ذریعے تنخواہیں دی جائیں تو لاکھوں گھوسٹ ملازمین کا سراغ لگ جائے گا، عید کے بعد بڑے انکشافات متوقع ہے ۔

تمام ڈی ڈی او ز پاور ڈپٹی کمشنر کو دیا جائے تاکہ صاف وشفاف نظام رائج ہو ۔ ان خیالات کا اظہا رانہوں نے”آن لائن” سے خصوصی بات چیت کر تے ہوئے کیا انہوں نے کہا ہے کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی سفارش پر گھوسٹ ملازمین اور سرکاری ادائیگیوں میں بے ضابطگیوں کیلئے نو اضلاع میں مانیٹرنگ کمیٹیوں نے اپنا کام مکمل کرلیا ہے ۔

نادرا رپورٹ میں پینتالیس ہزار ملازمین کے شناختی کارڈ مشکوک ہونے سے متعلق انکشاف حیرتناک ہے۔ ان پینتالیس ہزار میں اکثریت نے اس لئے شناختی کارڈ نمبر کا غلط اندراج کروایا ہے کیونکہ وہ دو یا دو سے زائد جگہ سرکاری ملازمتیں کررہے ہیں۔

اگر باقی ماندہ محکموں میں چانچ پڑتال کی جائے توگھوسٹ ملازمین ڈیڑھ لاکھ سے تجاوز کرجائے گی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے پہلے ہی حکومت کو بتایا کہ بائیو میٹرک سسٹم لگایا جائے اور ان کے ذریعے تمام ملازمین کو تنخواہیں دی جائے تو ڈیڑھ لاکھ سے زائد گھوسٹ ملازمین محکموں میں نکل جائینگے جو بے روزگار نوجوان ہے ان کو میرٹ کی بنیاد پر نوکریاں مل جائے گی یہاں پر لوگوں کو سچ کی سزا مل رہی ہے چیف سیکرٹری کو خط لکھا کہ صحیح معنوں میں تمام محکموں کو ٹھیک کیا جائے ۔

انہوں نے کہا ہے کہ ہم مخلوط کا حصہ ہے لیکن ہمارے ساتھ تعاون نہیں کیا جا رہا وزیراتعلیم نے ایوان میں کہا ہے کہ 25 ہزار گھوسٹ ملازمین ہے لیکن اب تک گھوسٹ ملازمین کے خلاف کیوں کا رروائی نہیں کی گئی دال میں کچھ کالا ہے میرٹ کو پامال کیا گیا اگر میرٹ کی بنیاد پر بھرتیاں کی جائے تا سب کو ان کا حق مل جائیگا ۔

این ٹی ایس کا نظام بھی ناکام رہا ٹیسٹ کسی اور نے دیا اور ملازمت کسی اور کومل گئی موجودہ حکومت اور سابقہ حکومتوں کے پاس میکنزم نہیں ہے اور حیرت کی بات ہے کہ ایسے ایسے سرکاری ملازمین ہیں کہ جو 9,9 نوکریاں بیک وقت کر رہے ہیں سسٹم کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو مضبوط کیا جائے تو تمام تر صورتحال بہتر ہو جائے گی بجٹ قریب آرہا ہے تو محکمہ خزانہ میں ایماندار آفیسروں کے تبادلے کئے جا رہے ہیں ۔

مانیٹرنگ کرنیوالے افسران کو بھی تبدیل کیا جارہا ہے یہ غیر قانونی ہے اور اس کی کسی بھی صورت اجازت نہیں دینگے چالس سال بعد محکمہ خزانہ کا آڈٹ کیا جا رہا ہے اور ایسا معلوم ہو رہا ہے جو45 ہزار ملازمین سے متعلق انکشاف ہوا ہے ان کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہے اور اربوں روپے ان کے تنخواہوں کی مد میں جا رہے ہیں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے تمام اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کو خطوط لکھے لیکن حکومت کی جانب سے کمشنر اور ڈپٹی کمشنر پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے ساتھ تعاون نہ کیا جائے ۔

انہوں نے کہا ہے کہ اگر ایماندار آفیسر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے ساتھ تعاون کرے اگر ان کو کچھ ہوا میں خود پبلک اکاؤنٹس کمیٹی سے استعفی دونگا ۔ انہوں نے کہا کہ عید کے بڑے انکشافات متوقع ہے ۔

عبدالمجید خان اچکزئی نے کہا کہ گوادر میں جس طرح ایک آفیسر نے لاکھوں ایکڑ زمین کی الاٹمنٹ کی ہے محکمہ ریونیو کو لیٹر لکھ دیا گیا اگر میرٹ پر نہ ہوا تو محکمہ ریونیو کے آفیسران کے خلاف بھر پور ایکشن لیا جائیگا انہوں نے کہا ہے کہ افسوس ہے کہ محکمہ خوراک میں صوبے کے زمینداروں سے گندم نہیں خریدی گئی بلکہ سندھ سے خریدی گئی ہے جن کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے اور محکمہ خوراک کو بھی اس بارے لیٹر لکھ دیا اور ہدایت کی کہ جن زمینداروں سے گندم خریدی گئی ہے ان کی زمین کی فرد لگائی جائے ۔