کوئٹہ: محکمہ خزانہ بلوچستان کی مانیٹرنگ کمیٹیوں نے صوبے کے9اضلاع میں ریکارڈ کی جانچ پڑتال کے بعد اپنی رپورٹس میں اربوں روپے کی بے ضابطگیوں اوراور35ہزار سرکاری ملازمین کا ریکارڈ غائب ہونے کا انکشاف کیا ہے۔رپورٹس میں 5ہزار سے زائد سرکاری ملازمین کو مشتبہ قرار دیتے ہوئے اعلیٰ اختیارات کی حامل کمیٹی کے ذریعے تحقیقات کرانے کی سفارش کی گئی ہے ۔
507ملازمین پر دوہری ملازمتوں کے حامل ہونے کا شبہ ظاہر کیاگیا ہے۔335ملازمین نے اپنی تاریخ پیدائش میں تبدیلیاں کرکے اپنی ملازمت کے دورانیہ میں غیر قانونی طور پر اضافے سمیت دیگر فوائد حاصل کئے ۔360 ملازمین نے اپنی ملازمت غیرقانونی طور پر دوسروں کے نام پر منتقل کی۔ چھ اضلاع کے1276ملازمین منظورہ شدہ آسامیوں سے زائد پائے گئے۔
سات اضلاع میں چالیس کروڑ روپے سے زائد کے بقایا جات اور دیگر ادائیگیاں مجاز حکام کی منظوری کے بغیر کی گئیں۔سابق چیف سیکریٹری بلوچستان سیف اللہ چٹھہ نے 2016ء میں صوبائی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی سفارشات اور میڈیا کی رپورٹس کے بعد صوبے بھر میں مالی بے ضابطگیوں اور گھوسٹ اورجعلی ملازمین کا پتہ لگانے کیلئے تین کمیٹیاں تشکیل دی تھیں۔
صوبائی سیکریٹری محکمہ خزانہ کی سربراہی میں اعلیٰ اختیارتی کمیٹی کے ماتحت ڈی جی خزانہ اینڈ اکاؤنٹس کمیٹی کی سربراہی میں مانیٹرنگ کمیٹی بھی بنائی گئی جس نے اضلاع میں ڈپٹی کمشنر کی سربراہی میں بنائی گئی کمیٹیوں کے ساتھ ملکر ضلعی خزانہ دفاتر اور سرکاری ملازمین کے دستاویزات کی جانچ پڑتال کا کام کرنا تھا۔
خاران، کچھی، سبی، لورالائی، صحبت پور، جعفرآباد، نصیرآباد، نوشکی اور پنجگور میں کام مکمل کرنے کے بعد ڈی جی خزانہ اینڈ اکاؤنٹس بلوچستان نے اپنی رپورٹس متعلقہ حکام کو پیش کردی ہیں۔ روزنامہ آزادی کو موصول ہونے والی رپورٹس کی نقول کے مطابق9اضلاع کے 5751ملازمین کو مروجہ طریقہ کار اور تقاضوں کے بغیر بھرتی کیا گیااور ان سے متعلق دستاویزات اور تفصیلات مانیٹرنگ کمیٹیوں کو فراہم نہیں کئے گئے ۔
ان میں محکمہ صحت کے 683، محکمہ تعلیم کے1782، پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کے175، بی اینڈ آر کے1099، محکمہ آبپاشی کے542، محکمہ زراعت کے296ملازمین شامل ہیں ۔جبکہ پنجگور اور کچھی کے180ملازمین پر بھوگس ہونے کا شبہ ظاہر کیا گیا ان میں محکمہ تعلیم کے148اوربی اینڈ آر کے32ملازمین شامل ہیں ۔
پنجگور، نوشکی، نصیرآباد، جعفرآباد، صحبت پور اور خاران کے1276ملازمین کو غیر منظور شدہ آسامیوں پر بھرتی کیا گیا۔مانیٹرنگ کمیٹی نے پوسٹوں پر ایڈجسٹمنٹ تک ان ملازمین کی تنخواہیں روکنے کی سفارش کی ہے۔ لورالائی کے533ملازمین کے پرسنل (ایمپلائمنٹ )نمبر بھوگس ہونے کا انکشاف ہواہے۔
8اضلاع کے62ہزر914میں سے35ہزار807ملازمین کے تقرر ناموں سمیت اصل ریکارڈ یعنی ایچ آر فارمز ہی غائب ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ان میں نصیرآباد کے 5843، جعفرآباد کے 12120، صحبت پور کے1600، سبی کے9305، کچھی کے6939ملازمین کے شامل ہیں ۔جبکہ خاران اور نوشکی کے 10ہزار79ملازمین کے ایچ آر فارمز نامکمل پائے گئے ۔
ان پر ڈسٹرکٹ اکاؤنٹس آفیسر کے دستخط ہی موجود نہیں تھے جو ضروری ہے۔ لورالائی کے9271ملازمین کے ایچ آر فارمز دو غیر مجاز جبکہ کچھی کے بھی بیشتر ایچ آر فارمز بھی ایک غیر مجاز شخص کی تحویل میں ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ رپورٹس کے مطابق پنجگور، نوشکی، نصیرآباد، جعفرآباد، لورالائی، سبی ، کچھی اور خاران کے507ملازمین کے پاس ڈبل پرسنل ہیں اور ان کی تنخواہیں ایک ہی بینک اکاؤنٹ میں جارہی ہیں ۔
اس لئے مانیٹرنگ کمیٹی نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ ان ملازمین کے پاس دوہری سرکاری ملازمتیں ہیں۔ کمیٹی نے ان ملازمین کے خلاف انکوائری کی سفارش کی ہے۔ پنجگور کے ایک خاکروب سے متعلق انکشاف ہوا ہے کہ وہ بیک وقت محکمہ صحت اور ڈپٹی کمشنر آفس میں ملازم ہے اور دونوں دفاتر سے وصول تنخواہ کی مد میں 35سالہ ملازمت میں ایک کروڑ روپے سے زائد وصول کرچکا ہے۔
اس کے علاوہ سات اضلاع کے335ملازمین نے اپنی تاریخ پیدائش میں تبدیلیاں کرکے اپنی ملازمت کے دورانیہ میں غیر قانونی طور پر اضافے سمیت دیگر فوائد حاصل کئے ۔صرف ضلع کچھی میں99ملازمین نے اپنی تاریخ پیدائش میں تبدیلی کرکے قومی خزانے کو25کروڑ روپے نقصان پہنچایا۔
مانیٹرنگ کمیٹیوں نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ پنجگور، نوشکی، نصیرآباد، جعفرآباد، کچھی اور خاران کے 360 ملازمین نے اپنی ملازمت غیرقانونی طور پر دوسروں کے نام پر منتقل کی۔ ضلع کچھی کے 1982میں بھرتی ہونیوالے ایک ملازم نے اپنا پرسنل نمبر(ایمپلائمنٹ نمبر)2015ء میں ایک خاتون کے نام پر ٹرانسفر کیا اور اس پرسنل نمبر سے خاتون کو تنخواہ کی ادائیگی کا سلسلہ شروع ہوا۔
اس کے علاوہ پنجگور، نوشکی، جعفرآباد، سبی، کچھی اور خاران کے208نان گذٹڈ ملازمین غیرقانونی طور پر 15فیصد میڈیکل الاؤنس وصول کررہے ہیں جو صرف گذٹڈ آفیسران کا استحقاق ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ پنجگور ، نوشکی اور خاران کے 2058 سرکاری اساتذہ کی تنخواہوں سے چھٹیوں کے دوران کنونس الاؤنس کی کٹوتی نہیں کی گئی۔
اس مد میں صرف خاران میں693اساتذہ نے قومی خزانے کو55لاکھ روپے کا نقصان پہنچایا۔ کمیٹی نے ان تمام اساتذہ سے کنونس الاؤنس کی مد میں وصول کی گئی رقم واپس لینے کی سفارش کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق چھ اضلاع کے2404ملازمین کو قانونی طور پر مروجہ طریقہ کے مطابق اکاؤنٹس میں تنخواہ دینے کی بجائے ڈرائنگ اینڈ ڈسپرنگ آفیسرز (ڈی ڈی اوز) یعنی ادارے کے مالی اختیارات کے سربراہ کی جانب سے تنخواہیں ادا کی جارہی ہیں ۔
کمیٹی نے رولز کی اس خلاف ورزی کی روک تھام کی بھی سفارش کی ہے۔ ان میں پنجگور کے2118، نوشکی کے4، لورالائی کے167، سبی 14، کچھی کے49، خاران کے56ملازمین شامل ہیں ۔ رپورٹس میں انکشاف ہوا ہے کہ 8اضلاع کے پے رول لسٹ میں مختلف محکموں کے 2847ملازمین وتھ ڈراؤن (withdrawn) کی بھی نشاندہی کی ہے جن کا اب یہ تو کسی دوسرے ضلع یا صوبہ تبادلہ ہوگیا ہے ، وہ تنخواہ کے بغیر چھٹیوں پر ہیں یا پھر کسی دوسری وجہ کی بناء پر اب وہ تنخواہ وصول نہیں کررہے۔
کمیٹی کو شبہ ہے کہ ان میں گھوسٹ ملازمین بھی شامل ہوسکتے ہیں جن کی تنخواہوں کی مد میں رقوم نکالی گئی ہوں کیونکہ مانیٹرنگ کمیٹیوں کو ان ملازمین سے متعلق مطلوبہ دستاویزات فراہم نہیں کئے گئے۔ کمیٹی نے سفارش کی ہے کہ ان تمام ملازمین کی ان کے اصل محکموں سے تصدیق کرائی جائے ۔
مانیٹرنگ کمیٹیوں کی رپورٹس میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ نصیرآباد، جعفرآباد ،سبی اور خاران میں2011سے2016ء تک 3ارب روپے سے زائد کی رقم کمپیوٹرائزڈ نظام کے باوجود خلاف ضابطہ مینوئل طریقے سے ادا کئے گئے ۔کمیٹیوں کو ان ادائیگیوں کے بل فراہم نہیں کئے گئے جس پر کمیٹی نے اس معاملے کی ہائی پاورڈ کمیٹی سے تحقیقات کرانے کی سفارش کی ہے۔
اسی طرح نوشکی، نصیرآباد، ، جعفرآباد، صحبت پور، سبی ، کچھی اور خاران میں چالیس کروڑ روپے سے زائد کے بقایا جات اور دیگر ادائیگیاں مجاز حکام کی منظوری کے بغیر کی گئیں۔ نصیرآباد، جعفرآباد، صحبت پور، لورالائی ، سبی اور کچھی کے2125ملازمین کے شناختی کارڈ کی نادرا سے جانچ پڑتال کرائی گئی تو ان کی تصدیق نہ ہوسکی۔ پنجگور، نوشکی، جعفرآباد، صحبت پور، سبی، کچھی اور خاران کے 307ملازمین کے ایچ آر فارمز میں جبکہ سبی کے 3068ملازمین کے پے رول میں غیر مجاز افراد کی جانب سے تبدیلیاں کی گئیں۔
مانیٹرنگ کمیٹیوں نے ڈائریکٹر ایم آئی ایس عبدالخالق اور فنانس اکاؤنٹنگ اینڈ بجٹنگ سسٹم (FABS) کے ایف آئی کنسلٹنٹ عرفان نور پر قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ریکارڈ میں تبدیلیوں کا مرتکب قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف کارروائی کی سفارش کی ہے۔
سبی کے22ملازمین کے پاس شناختی کارڈ ہی نہ ہونے اور چھ ملازمین کے پاس وفاق اور صوبے دونوں کی بیک وقت ملازمتیں ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ کمیٹیوں نے سابق ڈی جی خزانہ اینڈ اکاؤنٹس ہمایوں خان کی سربراہی میں کام کیا ۔ان کے ممبران میں عبدالقدیر مگسی، عید محمد، محمد ثاقب، محمد عمیر ، محمد فتح ، زاہد اقبال اوروکیل احمدرہے۔حال ہی میں ڈی جی خزانہ اینڈ اکاؤنٹس سمیت مانیٹرنگ کمیٹی کے کئی ممبران کے تبادلے کے بعد صوبے کے دیگر اضلاع میں مانیٹرنگ کا کام متاثر ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔
مانیٹرنگ کمیٹیوں کی ضلع وار تفصیل: لورالائی: مانیٹرنگ کمیٹی نے سب سے پہلے لورالائی کا دورہ کیاجہاں 10دن تک کام کیا۔ 18اکتوبر 2016ء کو ڈپٹی کمشنر آفس میں اجلاس میں135میں سے51ڈی ڈی اوز نے شرکت کی۔ 60ڈی ڈی اوز کی جانب سے ملازمین کی نا مکمل فہرستیں فراہم کی گئیں۔
ضلع کے11337میں سے2066ملازمین کے ہیومن ریسورس فارمز موجود ہیں جبکہ باقی9271فارمز ڈائریکٹر ایم آئی ایس عبدالخالق اور فنانس اکاؤنٹنگ اینڈ بجٹنگ سسٹم (FABS) کے ایف آئی کنسلٹنٹ عرفان نورکی تحویل میں ہیں ۔ضلع میں 435ایسے مشتبہ ملازمین پائے گئے جو کمپیوٹرائزڈ نظام سے قبل تنخواہیں لے رہے تھے۔
203ملازمین کے درج کرائے گئے شناختی کارڈ نمبر غلط یا پھر پرانے ہیں ۔106ملازمین ڈبل پرسنل (ایمپلائمنٹ )نمبر کے حامل ہیںیعنی ان پر دوہری ملازمت کا شبہ ہے۔533ملازمین کے پرسنل نمبر بھوگس ہیں ۔اس سلسلے میں کمیٹی نے تجویز کیا ہے کہ ایم آئی ایس ڈائریکٹر عبدالخالق اور عرفان نور سے وضاحت طلب کی جائے۔
ضلع میں محکمہ تعلیم کے92، صحت کے130، بی اینڈ آر کے56 اور دیگر مختلف محکموں کے323ملازمین مشتبہ قرار دیئے گئے جن سے متعلق تحقیقات ہائی پاورڈ کمیٹی سے کرانے کی سفارش کی گئی ہے۔ رپورٹ میں 63ملازمین کی جانب سے مینوئل اور کمپیوٹرائزڈ طریقے سے دو دو تنخواہیں وصول کرنے کا انکشاف ہوا ہے۔ کمیٹی نے سفارش کی ہے کہ متعلقہ ملازمین یا ڈی ڈی اوز سے یہ رقم واپس وصول کی جائے۔
رپورٹ کے مطابق ضلع میں 167ملازمین کو بینک اکاؤنٹس کی بجائے ڈی ڈی اوز کے ذریعے خلاف ضابطہ طریقے سے تنخواہیں دی جارہی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عملے کی کمی کی وجہ سے ضلعی خزانہ آفس لورالائی کو مشکلات کا سامنا ہے۔ اپنی رپورٹ میں کمیٹی نے انکشاف کیا ہے کہ ضلع کے پے رول میں11ہزار337ملازمین کا اندراج ہے جبکہ ستمبر2016ء کے پے رول میں صرف8500ملازمین کا ریکارڈ ظاہر ہوا۔
ڈسٹرکٹ پے رول میں اتنے بڑے فرق پر بھی سوال اٹھائے گئے ہیں ۔کمیٹی نے عبدالخالق اور عرفان نور کے خلاف بیڈ ایکٹ کے تحت کارروائی کی سفارش بھی کی ہے۔ ***خاران ***کی مانیٹرنگ رپورٹ میں معلوم ہوا ہے کہ ضلع میں5835میں صرف1050ملازمین کے ایچ آر فارمز مکمل ہیں جبکہ باقی4785ایچ آر فارمز نا مکمل اور مطلوبہ دستاویزات کے بغیر ہیں ۔
ان پر ضلعی خزانہ آفیسر کے دستخط نہیں جو ضروری ہے۔ 371ملازمین منظور شدہ اسامیوں سے متجاوز ہیںیعنی بجٹ میں آسامیوں کی منظوری کے بغیر انہیں بھرتی کیاگیا۔20ملازمین کے پاس ڈبل پرسنل نمبر ہیں۔19ملازمین نے اپنی تاریخ پیدائش میں خلاف ضابطہ تبدیلی کی۔ ناموں کی تبدیلی اور ملازمت کی منتقلی کے48کیس رپورٹ ہوئے۔
کمیٹی نے بی اینڈ آر میں460،محکمہ تعلیم میں290 ملازمین کو مشتبہ قرار دیا ہے ۔اساتذہ سے چھٹیوں کے دوران کنونس الاؤنس کی میں پچپن لاکھ روپے کی کٹوتی نہیں کی گئی۔ ضلع میں 56ملازمین ڈی ڈی اوز سے تنخواہ لے رہے ہیں ۔ضلع کی پے رول فہرست میں145ملازمین وتھ ڈراؤن ہیں جن سے متعلق ریکارڈ پیش نہیں کیاگیا۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ضلعی خزانہ دفتر نے ایچ آر ایڈجسٹمنٹ کی مد میں7کروڑ23لاکھ روپے اکاؤنٹنٹ جنرل بلوچستان اور سیکریٹری خزانہ کی منظوری کے بغیر جاری کئے گئے جوایف ٹی آر رولز کی خلاف ورزی ہے کیونکہ ضلعی خزانہ آفس چھ ماہ سے زائد کے بقایا جات ادا کرنے کا مجاز نہیں۔
مانیٹرنگ کمیٹی نے بلز، رجسٹراور چینجز فارمز پیش کرنے کا مطالبہ کیا لیکن چند بلوں کے علاوہ مطلوبہ بلز اور چینج فارمز فراہم نہیں کئے گئے۔ کمیٹی نے رپورٹ کیا ہے کہ فنانس اکاؤنٹنگ اینڈ بجٹنگ سسٹم (FABS) کے ایف آئی کنسلٹنٹ عرفان نور نے ڈسٹرکٹ پے رول خاران میں دو تبدیلیاں کیں جبکہ کنٹرولر جنرل اکاؤنٹس کے مراسلے کے مطابق کوئی کنسلٹنٹ ملازمین کے ریکارڈ سے متعلق بنائے گئے سافٹ ویئر سسٹم ایپلیکشنز پراڈکٹس(SAP) میں تبدیلی کرنے کا مجاز نہیں۔
کمیٹی نے مذکورہ آفیسر کے خلاف کارروائی کی سفارش کی ہے۔نوشکی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ضلع کے5844ملازمین میں سے 550کے ایچ آر فارمز مکمل پائے گئے جبکہ5294ایچ آر فارمز نامکمل اور ضلعی خزانہ آفس کے دستخط کے بغیر ہے۔ ضلع میں 325ملازمین غیر منظور شدہ آسامیوں پر بھرتی کئے گئے ۔ 68ملازمین کو ڈبل پرسنل نمبر جاری کئے گئے۔
19ملازمین نے تاریخ پیدائش میں خلاف ضابطہ تبدیلیاں کیں۔ 39افراد نے نام تبدیل یا پھر ملازمت دوسروں کے نام پر منتقل کی۔ بی اینڈ آر میں75ملازمین مشتبہ پائے گئے۔ ضلع کے پے رول میں332وتھ ڈران ملازمین شامل ہیں ۔اس کے علاوہ2کروڑ52لاکھ روپے کے بقایا جات مجاز حکام کی منظوری کے بغیر جاری کئے گئے۔
ایف آئی کنلسٹنٹ عرفان نور کی جانب سے ملازمین کے ریکارڈ میں 38خلاف ضابطہ تبدیلیاں کی گئیں ۔ضلع کے1302اساتذہ نے چھٹیوں کے دوران بھی کنونس الاؤنس وصول کیا۔ جبکہ77نان گذٹڈ آفیسران نے 15فیصد میڈیکل الاؤنس وصول کیا۔
پنجگور : مانیٹرنگ کمیٹی نے 29دسمبرسے8جنوری تک پنجگورکا دورہ کیا۔کمیٹی نے ملازمین کے ایچ آر ریکارڈ مناسب دیکھ بھال سے محفوظ رکھنے پر ضلعی خزانہ آفس کے سب اکاؤنٹنٹ عبدالمجید کو سراہا ہے۔ ضلع کے 101میں 65ڈی ڈی اوز نے 4جنوری کو ڈپٹی کمشنر کی سربراہی میں ڈسٹرکٹ کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کی ۔
رپورٹ کے مطابق پنجگور میں 247ملازمین سیکشنڈ سٹرینتھ سے متجاوز ہیں یعنی بجٹ بک میں ان کی منظوری نہیں دی گئی۔ 22ملازمین ڈبل پرسنل نمبرکے حامل ہیں۔13ملازمین کے تاریخ پیدائش میں جعلی یا پھر مشتبہ تبدیلیاں پائی گئیں۔ 35افراد نے ناموں میں تبدیلیاں کرکے غیر قانونی طریقے سے ملازمت دوسروں کو منتقل کی۔
بی اینڈ آر میں225،محکمہ صحت میں501، محکمہ تعلیم میں483 ، آبپاشی میں34،پی ایچ ای میں30ملازمین مشتبہ پائے گئے۔جبکہ محکمہ تعلیم کے71ملازمین پر بھوگس ہونے کا شبہ ظاہر کرتے ہوئے تحقیقات کی سفارش کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ضلعی خزانہ آفس سے میڈیکل کی مد میں بلوں کے بغیر4کروڑ 22لاکھ روپے جاری کئے گئے ۔
ضلع میں 2118ملازمین ڈی ڈی اوز کے ذریعے تنخواہیں وصول کررہے ہیں۔ ضلع کے پے رول میں 82ملازمین وتھ ڈراؤن ہیں۔ پنجگور کے ایک خاکروب سے متعلق انکشاف ہوا ہے کہ وہ بیک وقت محکمہ صحت اور ڈپٹی کمشنر آفس میں ملازم ہے اور دونوں دفاتر سے وصول تنخواہ کی مد میں 35سالہ ملازمت میں ایک کروڑ روپے سے زائد وصول کرچکا ہے۔
نصیرآباد کی 12صفحات پر مشتمل مانیٹرنگ کمیٹی کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ کمیٹی نے 22جنوری سے 2فروری2017ء تک نصیرآباد کا دورہ کیا جس کے دوران بیشتر ڈی ڈی اوز کی جانب سے تعاون نہیں کیاگیا۔ انسپکشن ٹیم اور ڈپٹی کمشنر کی سربراہی میں ڈسٹرکٹ کمیٹی کے اجلاس میں 101ڈی ڈی اوز میں صرف65ڈی ڈی اوز نے شرکت کی۔ ضلع میں کل 7098ملازمین میں سے صرف 1155ملازمین کے ہیومن ریسورس فارمز موجود تھے جبکہ 5843فارمز ڈسٹرکٹ اکاؤٹس آفس سے غائب ہیں۔
رپورٹ میں اس کی ذمہ داری ڈی اے او نصیرآباد اور دیگر عملے پر عائد کی گئی ہے۔ ضلع میں123ملازمین کو بجٹ میں منظوری کے بغیر بھرتی کیا گیا ۔ 50ملازمین ڈبل پرسنل نمبر کے حامل ہیں۔105ملازمین نے اپنے تاریخ پیدائش میں قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تبدیلی کی۔کمیٹی نے ان ملازمین کی تصدیق ہائی پاورڈ کمیٹی سے کرانے کی سفارش کی ہے۔
ناموں کی تبدیلی اور ملازمت منتقلی کے86کیسز سامنے آئے۔دس دن کے قیام کے باوجود ڈسٹرکٹ اکاؤنٹس آفس(ڈی اے او) کی جانب سے چینجز فارمز اور دیگر شواہد فراہم نہیں کئے گئے۔ ضلع میں محکمہ آبپاشی میں255، پبلک ہیلتھ انجینئرنگ میں55، بی اینڈ آر میں113، ایگزیکٹیو انجینئرنگ نصیرآباد ڈویژن میں52، محکمہ تعلیم میں 385، زراعت میں149ملازمین مشتبہ پائے گئے۔
651ملازمین کے شناختی کارڈ نمبر کی نادرا ریکارڈ سے تصدیق نہیں ہوسکی۔405وتھ ڈراؤن ملازمین ڈسٹرکٹ پے رول میں شامل ہیں جبکہ ان سے متعلق ریکارڈ فراہم نہیں کیاگیا۔مانیٹرنگ کمیٹی کے مشاہدے میں 55لاکھ روپے کی مشکوک ادائیگی بھی مشاہدے میں آئی جس سے متعلق ڈسٹرکٹ اکاؤنٹس آفس کی جانب سے مکمل بلز فراہم نہیں کئے گئے۔
کمیٹی نے سفارش کی ہے کہ ہائی پاور کمیٹی بلوں کے مصدقہ ہونے کی جانچ کرائے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ ڈسٹرکٹ اکاؤنٹس آفیسر نصیرآباد نے ایچ آر ایڈجسٹمنٹ کی مد میں 7کروڑ96لاکھ روپے 2012ء میں بلوں کے بغیر ادا کئے ۔اس سلسلے میں کمیٹی کو بلز اور شواہد فراہم نہیں کئے گئے ۔ کمیٹی نے متعلقہ آفیسران اور عملے کے خلاف کارروائی کی سفارش کی ہے۔
کمیٹی نے گزشتہ چند سالوں کے دوران نصیرآباد میں55کروڑ35لاکھ روپے کی مینوئل ادائیگی ، بلوں کے ڈی اے او آفس سے غائب اور چوری ہونے پر بھی سوالات اٹھائے ہیں اور اس کی جانچ بھی ہائی پاورڈ کمیٹی سے کرانے کی سفارش کی ہے۔ کمیٹی نے ڈسٹرکٹ اکاؤنٹس آفس کے عملے کے عدم تعاون کی شکایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ کمیٹی کو مکمل ریکارڈ فراہم نہیں کیا گیا۔
سفارشات میں تجویز کیا گیا ہے کہ تکنیکی ماہرین پر مشتمل ٹیم کو بھیج کر بے ضابطگیوں کی تحقیقات کرائی جائیں۔***ضلع کچھی ***کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ضلع میں 7784میں صرف845ملازمین کے ہیومن ریسورس فارمز ضلعی خزانہ آفس میں موجود اور باقی 6939فارمز غائب ہیں۔
اکثریت فارمز کوئٹہ ضلعی خزانہ آفس کی بجائے اے سی او کے کوئٹہ میں واقع گھر میں رکھے گئے ہیں ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عملے کی کمی کی وجہ سے ضلعی خزانہ آفس کو مشکلات کا سامنا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ضلع کے 142ملازمین کے ریکارڈ میں جعلی یا پھر پرانے شناختی کارڈ نمبر درج کئے گئے ہیں ۔45ملازمین ڈبل پرسنل نمبرکے حامل ہیں۔
49ملازمین ڈی ڈی اوز کے ذڑیعے تنخواہیں وصول کررہے ہیں۔SAPسسٹم میں فنانس اکاؤنٹنگ اینڈ بجٹنگ سسٹم (FABS) کے ایف آئی کنسلٹنٹ کی جانب سے 225خلاف ضابطہ تبدیلیاں کی گئیں۔ ضلع کے پے رول میں528وتھ ڈراؤن ملازمین شامل ہیں۔
16نان گذٹڈ ملازمین 15فیصد کنونس الاؤنس وصول کررہے ہیں جسے غفلت قرار دیا گیا۔ ضلع میں محکمہ تعلیم اور بی اینڈ آر میں 109ملازمین کو بھوگس اور گھوسٹ قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف تحقیقات کی سفارش کی گئی ہے۔ مختلف محکموں میں 349ملازمین مشتبہ پائے گئے جنہیں قواعد و ضوابط کے برخلاف بھرتی کیا گیا۔ ایچ آر ایڈجسٹمنٹ کی مد میں95لاکھ روپے کی بے ضابطگیوں کو بھی رپورٹ کیا گیا ہے ۔
یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ ضلع کے 99ملازمین نے اپنی تاریخ پیدائش میں تبدیلیاں کرکے قومی خزانے کو 2کروڑ32لاکھ روپے نقصان پہنچایا۔85ملازمین نے ناموں میں تبدیلیاں یا پھر اپنی ملازمت دوسروں کے نام منتقل کی۔
جعفرآبادکی مانیٹرنگ کمیٹی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ضلع کے 12986میں سے صرف866ملازمین کے ایچ آر فارم دستیاب جبکہ باقی 12120ملازمین کے ایچ آر فارم ضلعی خزانہ اافس سے غائب ہیں۔ ضلع کے63ملازمین کو غیر منظور شدہ آسامیوں پر بھرتی کیا گیا۔90ملازمین کو ڈبل پرسنل نمبر الاٹ کئے گئے۔78ملازمین کے ریکارڈ میں تاریخ پیدائش میں غیرقانونی تبدیلیاں پائی گئیں۔
ناموں اور ملازمت کی منتقلی کے67کیس مشاہدے میں آئے۔محکمہ تعلیم میں306، بی اینڈ آر میں 65، پی ایچ ای میں84،محکمہ آبپاشی میں283 ،ڈگری کالج اوستہ محمد میں 15ملازمین اور محکمہ زراعت میں98ملازمین مشتبہ پائے گئے۔ ضلع کے 866ملازمین کی جانب سے ریکارڈ میں درج کرائے گئے شناختی نمبر کی نادرا سے تصدیق نہیں ہوسکی۔ 706وتھ ڈراؤن ملازمین ضلع کے پے رول میں شامل ہیں ۔
کمیٹی کو معلوم ہوا کہ تنخواہوں کی مد میں89لاکھ روپے دو بارہ ادا کئے گئے۔کمیٹی نے متعلقہ آفیسران اور فائدہ اٹھانے والے ملازمین کے خلاف کارروائی اور رقم وصول کرنے کی سفارش کی ہے ۔ ملازمین کے سافٹ ویئر پروگرام میں ڈسٹرکٹ جعفرآباد کے پے رول میں ایف آئی کنسلٹنٹ عرفان نور کی جانب سے دو غیر مجاز تبدیلیاں کی گئیں۔
رپورٹ کے مطابق ضلعی خزانہ دفتر جعفرآباد کی جانب سے9کروڑ27لاکھ روپے کی رقم بلوں کے بغیر ایچ آر ایڈجسٹمنٹ کی مد میں ادا کئے گئے۔ 16دنوں کے قیام کے دوران کمیٹی کو بل اور دیگر شواہد فراہم نہیں کئے گئے جس پر کمیٹی نے معاملہ ہائی پاورڈ کمیٹی کے سپرد کرنے اور تحقیقات کی سفارش کی ہے۔
کمیٹی نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ ضلع میں 90کروڑ 54لاکھ روپے خلاف ضابطہ مینوئل طریقے سے ادا کئے گئے اور اب بل بھی غائب ہیں ۔ مانیٹرنگ کمیٹی نے اس معاملے کی بھی ہائی پاورڈ کمیٹی سے تحقیقات کرانے کی سفارش کی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مانیٹرنگ کمیٹی کے مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ 2012ء کے سیلاب کے بعد ضلع کے گریڈ ایک سے15کے ملازمین سروس بکس کی مینٹینس نہیں رکھی گئی۔ کمیٹی نے سفارش کی ہے کہ تمام ڈی ڈی اوز کو پابند کیا جائے کہ وہ ہنگامی بنیادوں پر تمام ملازمین کی سروس بکس کو مینٹین کریں ۔
رپورٹ کے مطابق بی اینڈ آر ایکسئن آفس کے ایک ملازم نے اپنی تاریخ پیدائش میں پانچ سال کم کرکے 1960کی اور31دسمبر2014ء کو ریٹائرڈمنٹ کے بعد بھی 6لاکھ61ہزار روپے سے زائد وصول کئے ۔ کمیٹی نے متعلقہ ملازم اور ڈی ڈی او کے خلاف کارروائی اور مطلوبہ رقم ریکور کرنے کی سفارش کی ہے ۔ کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں ڈپٹی کمشنر جعفرآباد کی جانب سے عد م تعاون کی شکایت کی ہے اور سفارش کی ہے ضلع میں مالی بے ضابطیگوں کی تحقیقات کیلئے تیکنیکی ماہرین بھیجے جائیں۔
صحبت پورکی مانیٹرنگ کمیٹی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ضلع کے1710میں سے1600ملازمین کے ایچ آر فارمز غائب اور صرف110ملازمین کا ریکارڈ دستیاب ہے۔ ضلعی خزانہ آفس جعفرآباد کی جانب سے ضلعی خزانہ آفس کو ریکارڈ فراہم نہیں کیا گیا۔ ضلع کے147ملازمین اوور سٹرینتھ پائے گئے۔دو ملازمین نے تاریخ پیدائش میں تبدیلیاں کیں۔
32لاکھ روپے کی مشتبہ ادائیگی سے متعلق ضلعی خزانہ آفس نے کوئی شواہد اور ریکارڈ مانیٹرنگ کمیٹی کو فراہم نہیں کیاجس پر کمیٹی نے اس کی ہائی پاور کمیٹی سے تحقیقات کی سفارش کی ہے۔ صحبت پور میں بی اینڈ آر کے4، پی ایچ ای کے6 اور محکمہ تعلیم کے226ملازمین مشتبہ پائے گئے ۔ 64ملازمین کے شناختی کارڈ کی نادرا سے تصدیق نہیں ہوسکی جبکہ 33وتھ ڈران ملازمین ضلع کے پے رول میں شامل ہیں ۔
کمیٹی نے ان ملازمین کا ان کے اصل محکمے سے تصدیق کرانے کی سفارش کی ہے ۔سبی کی مانیٹرنگ رپورٹ کے مطابق 10320ملازمین میں1015ملازمین کے ایچ آرم فارم موجود جبکہ9305ملازمین کا ریکارڈ ضلعی خزانہ آفس سے غائب ہے۔ کمیٹی نے رپورٹس میں یہ بھی لکھا ہے کہ کس طرح انہیں بعض ملازمین کی جانبسے دھمکیاں گیا اور انسپکشن میں تعاون نہیں کیا گیا۔
کمیٹی کی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ ضلع کے435ملازمین کمپیوٹرائزڈ نظام سے قبل تنخواہیں وصول کررہے تھے جس پر کمیٹی کو شبہ ہے کہ وہ گھوسٹ ہے۔ کمیٹی کو اس سلسلے میں مطلوبہ ریکارڈ فراہم نہیں کیاگیا۔ رپورٹ کے مطابق ضلع کے199ملازمین کے درج کرائے گئے شناختی کارڈ نمبر غیر مصدیقہ یا پرانے ہیں ۔106ملازمین کو ڈبل پرسنل نمبر الاٹ کئے گئے۔
کمیٹی نے انکشاف کیا ہے کہ سبی میں بلوچستان کانسٹیبلری کے 22ملازمین کے پاس شناختی کارڈ ہی نہیں ۔کمیٹی نے کہا ہے کہ شناختی کارڈ نمبر ایک منفرد شناخت کی حیثیت سے ملازمین کے ریکارڈ سے متعلق سافٹ ویئر SAPسسٹم میں درج ہوتا ہے جس سے دوہری سرکاری ملازمتوں کے حامل افراد کا پتہ لگایا جاسکتا ہے۔
کمیٹی نے قرار دیا ہے کہ شناختی کارڈ کے بغیر بھرتی یا پھر تنخواہوں کی ادائیگی ایک جرم ہے ۔ محکمہ صحت کے42، زراعت کے 49، بی اینڈ آر کے49، ملازمین کو مشتبہ قرار دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ ضلعی خزانہ آفس کی جانب سے متعلقہ ریکارڈ فراہم نہیں کیا گیا۔کمیٹی نے ان ملازمین سے متعلق تحقیقات کرانے کی سفارش کی ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ سبی میں فیڈرل لیویز کے 6ملازمین بلوچستان حکومت کے مختلف محکموں میں بھی ملازمت رکھتے ہیں ۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 14ملازمین بینک اکاؤنٹس کی بجائے ڈی ڈی او کے ذریعے تنخواہیں وصول کررہے ہیں ۔ ڈپٹی کمشنر سبی گذٹڈ آفیسر ہونے کے باوجود بھی ڈی ڈی او سے تنخواہ وصول کررہے ہیں۔
کمیٹی کے مشاہدے میں یہ بات بھی آئی ہے کہ ڈسٹرکٹ سبی کے پے رول میں3068تبدیلیاں کی گئیں ۔رپورٹ کے مطابق کمیٹی نے ضلع کے پے رول میں مختلف محکموں کے 616وتھ ڈران ملازمین کا پتہ لگایا جن کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ۔
مانیٹرنگ کمیٹی نے 1ارب53کروڑ روپے کی ادائیگیوں میں بے ضابطگی کی بھی نشاندہی کی ہے ۔جبکہ 14کروڑ36لاکھ روپے کے بقایا جات اے جی بلوچستان اور سیکریٹری خزانہ کی منظوری کے بغیر ادا کئے گئے ۔ کمیٹی نے اس معاملے کی جانچ کی سفارش کی ہے۔
کمیٹی نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ سابق ضلعی خزانہ آفس کئی عرصے تک کنونس الاؤنس اور گھر کا کرایہ بیک وقت سرکاری خزانے سے وصول کرتے رہے ۔ اس مد میں 3لاکھ47ہزار 720روپے وصول کئے گئے۔ کمیٹی کی رپورٹ میں سیکورٹی ڈیپازٹ کی مد میں بھی ایک کروڑ50لاکھ روپے کی بے ضابطگی کا انکشاف ہوا ہے۔ یاد رہے کہ بجٹ قریب آنے کے باعث مانیٹرنگ کمیٹیوں نے دیگر اضلاع کے دورے ملتوی کردیئے ۔
بلوچستان،9اضلاع میں 35ہزار ملازمین کا ریکارڈ غائب،5ہزار ملازمین کی تقرری مشتبہ قرار
وقتِ اشاعت : May 31 – 2017