کوئٹہ: حکومت بلوچستان کے نمائندوں نے علیحدگی پسند بلوچ رہنماء نواب خیر بخش مری مرحوم کے صاحبزادے اور کالعدم مسلح تنظیم بی ایل اے کے مبینہ سربراہ حیربیار مری کے بھائی گزین مری کی وطن واپسی کے اعلان پر اپنا رد عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ گزین مری کی واپسی حکومت سے کسی مذاکراتی عمل کا نتیجہ نہیں۔
پندرہ سالوں سے دشمن ہمسائیہ ملک کے ساتھ ملکر ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث عناصر کو اگر اپنے سابقہ اعمال پر پچھتاوا ہے تو انہیں خوش آمدید کہا جائیگا ورنہ ان کیلئے پاکستانی معاشرے میں کوئی جگہ نہیں ۔
یہ باتیں منگل کو وزیرداخلہ بلوچستان میر سرفراز بگٹی اور حکومت بلوچستان کے ترجمان انوار الحق کاکڑ نے ایک نیوز کانفرنس کے دوران صحافیوں کی جانب سے گزین مری کی واپسی سے متعلق پوچھے گئے سوالات کے جواب میں کہیں۔
سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ ’’یہ لوگ پندرہ بیس سال تک ملک کو توڑنے کی باتیں اور ساش کرتے ہیں ،دہشتگردی کرتے ہیں پھر ان کو خیال آتا ہے کہ یہ ملک تو ٹوٹ نہیں رہا اور نہ کبھی ٹوٹے گا ، ملک مزید مضبوط اور بلوچستان ترقی کی جانب جارہا ہے پھر یہ قومی دھارے کی طرف آتے ہیں ۔
جو بھی فراری ہے اور یقیناًیہ (گزین مری)فراری ہی ہے اگر یہ سرنڈر کرنا چاہتے ہیں ان کیلئے ہماری پرامن بلوچستان پالیسی ہے وہ آئیں سرنڈر کریں ہم انہیں پرامن بلوچستان پالیسی کے تحت ری ہیبلی ٹیشن (بحالی ) کا پلان اور دیگر سہولیات بھی فراہم کریں گے لیکن یہ بات واضح ہے کہ ان کی واپسی حکومت بلوچستان کے ساتھ کسی مذاکراتی عمل کا نتیجہ نہیں‘‘۔
جب سوال کیا گیا کہ تو کیا آپ گزین مری کو خوش آمدید نہیں کہتے تو وزیرداخلہ بلوچستان کا کہنا تھا کہ ’’اور بھی لوگ پرامن بلوچستان پالیسی کے تحت سرنڈر کررہے ہیں ، ریاست کی رٹ کے اندر جو بھی آنا چاہتا ہے ہم انہیں خوش آمدید کہیں گے۔
اس موقع پر ترجمان حکومت بلوچستان انوار الحق کاکڑ نے اپنے رد عمل میں کہا کہ تمام لوگ بشمول مذکورہ شخص (گزین مری )یا ان سے جڑے ہوئے لوگ جو مختلف ممالک میں بیٹھ کر اچھی طرح سمجھتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو ’’را ‘‘اور ہندوستان کے پندرہ سال تک ساتھی رہے ۔
اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم سرنڈر کرنے کے بعد عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکیں گے اورپاکستان یا حکومتی ادارے کو کسی دھوکے میں مبتلا کرینگے ،کنفوژن پیدا کردینگے ،یہ تمام کے تمام یورپ میں یا دبئی میں بیٹھے ہوئے لوگ حکومت کی نگاہ میں ایک ہی ہے ۔
یہ بات بڑی واضح ہے کہ ریاست نے اگر کسی کو کہا ہے کہ وہ لوٹ کر آئیں تو اِس نکتہ نظر سے نہیں کہا کہ ریاست غلط تھی یا ریاست نے غلطی تسلیم کرکے ان سے معافی مانگ کر انہیں خوش کرکے لائے گی ، یہ ان کی غلط فہمی ہے ،ریاست کسی کو مجبوری میں نہیں بلارہی ۔
ایسی سوچ رکھنے والے عناصر چاہے وہ مذہبی ہو یا قوم پرستی کے نام پر دہشتگردی کرنے والے ،ان کیلئے پاکستانی معاشرے میں کوئی جگہ نہیں۔
ریاست کی دلچسپی صرف ان لوگوں کی واپسی میں ہے جن کے سوچ اور نظریے میں تبدیلی آئی ہے اور جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہندوستان کے کہنے پر یا ہندوستان کے پیسوں پر انہوں نے قتل و غارت گری کا جو بازار گرم کیا ہوا تھا انہیں اس پر پچھتاوا ہے ،انہیں ہم خوش آمدید کہیں گے۔
یہ ایک فرد کا مسئلہ نہیں، یہ ایک پالیسی کا مسئلہ ہے۔ ہم اپنی پالیسی کی بات کرتے ہیں کہ پاکستان آگے کیسے بڑھے گا۔ کیا وہ لوگ جو ہزاروں لوگوں کو ماردینگے اور ہم بیٹھے بٹھائیں کہہ دینگے کہ ٹھیک ہے آپ آجائیں ۔
کسی کے بھائی یا بیٹے کے قتل کرنے والوں کو کیا ریاست اپنے طور پر معاف کرسکتی ہے ، ہمیں کسی کو معاف کرنے کا حق نہیں۔
یہ ایک اخلاقی اور قانونی سوال ہے جس کا پاکستان کے معاشرے ، ریاست اور انٹیلی جنسیا نے جواب دینا ہوگا ۔
یہ سوال کسی کو خوش آمدید کہنے یا نا کہنے کا نہیں ۔جو بھی کچھ ہوگا ایک طریقہ کار کے مطابق ہوگا۔ چاہے جو بھی شخص واپس آئے پہلا سوال یہی ہوگا کہ انہیں اس بات کا احساس ہے کہ وہ غلطی پر تھا ۔
توبہ کا پہلا اصول یہی ہے کہ انسان اپنی غلطی تسلیم کرے،اس کے بعد باقی باتیں ہوتی ہیں۔