کوئٹہ میں ایف سی کی پچاس فیصد چیک پوسٹیں ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا ہے کہ کوئٹہ میں امن وامان کی صورت حال بہتر ہے ۔ اس لئے شہر سے ایف سی کی نصف کے قریب غیر ضروری چیک پوسٹیں ختم کردی ہیں تاہم ہزارہ ٹاؤن سمیت حساس مقامات پر ایف سی کی چیک پوسٹیں موجود ہیں ۔ کوئٹہ میں ایف سی کو ایک ماہ کے لئے پولیس اختیارات دینے کے بارے میں وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ ایف سی کو کوئٹہ میں امن وامان کو مزید بہتر بنانے کے لئے پولیس کے اختیارات دئیے گئے ہیں ۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ پولیس ‘ لیویز اور بی سی کے نوجوانوں کو بہتر تربیت فراہم کی جائے ۔ ان کی استعداد کار بڑھانے کے ساتھ انہیں جدید اسلحہ اور دیگر وسائل فراہم کرنے کے لئے اقدامات کیے جارہے ہیں تاکہ ہمیں ایف سی کی ضرورت نہ پڑے ۔ صوبائی حکومت کا ایف سی کی پوسٹیں کم کرنے کا اعلان انتہائی خوش آئند ہے مگر یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر یہ چیک پوسٹیں غیر ضروری تھیں تو اتنا عرصہ کوئٹہ کے شہریوں کو کیوں ان غیر ضروری چیک پوسٹوں کے ذریعے ذلیل و خوار کیا جاتا رہا ۔ گزشتہ سات سال سے ایف سی کوئٹہ میں تعینات ہے جبکہ دہشت گردی کی جتنی بھی بڑی وارداتیں صوبائی دارالحکومت میں واقع ہوئیں وہ انہی سات سالوں کے دوران ہوئی ہیں ۔ بہت سے ایسے واقعات بھی ہوئے کہ ایف سی کی چیک پوسٹوں پر تعینات اہلکار اگر چاہتے تو ان سے ذرا ہی فاصلے پر ہونے والے نا خوشگوار واقع میں ملوث عناصر کو گرفتار بھی کیاجانا ممکن تھا ۔ مگر چونکہ انہیں ‘’ لکیر کے فقیر ‘‘ کے مصداق اپنی چیک پوسٹ سے نہ ہلنے کا فرمان جو جاری کیا گیا تھا اس لئے انہوں نے ان احکامات کی بجا آوری میں مگن میں رہتے ہوئے اپنی جگہ سے ہلنے کی جسارت ہی نہیں کی ۔ صوبائی دارالحکومت میں انسانی قتل عام کے ریکارڈ واقعات رونما ہوئے ۔ حکومت کو چائیے تھا کہ اسی وقت ایف سی کی ناکامی کا اعلان کرکے ان کی تمام چیک پوسٹوں کو غیر ضروری قرار دے کر انہیں واپس کردیتی اور ایف سی پراٹھنے والے اخراجات پولیس اور لیویز کی بہتری کے لئے خرچ کرتی تو بہتر نتائج سامنے آسکتے تھے۔ کوئٹہ میں ایف سی کی چیک پوسٹیں ہزارہ نشین علاقوں کے علاوہ بلوچ علاقوں میں کثرت سے قائم ہیں اور ان چیک پوسٹوں پر متعین جوان جب جی چاہے ٹریفک جام کردیں اور عوام کی جی کھول کر تذلیل کردیں۔ یہ جوان کسی بھی وقت کسی اہم شاہراہ پر کھڑے ہوکر اور عجیب و غریب انداز میں آنے جانے والوں کی تلاشی لینے کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں ۔ انہیں شاید یہ گمان ہو کہ کوئی بھی دہشت گرد ان کی چیک پوسٹ پر آکر ان کے سوالات کا ان کی منشا کے مطابق تسلی بخش جواب دے گا اور اس طرح نا خوشگوار واقعہ رونما ہونے سے رہ جائے گا ۔ اللہ کرے کہ ہماری فورسز کا یہ گمان یقین میں بدل جائے اور چیک پوسٹوں سے گزرنے والا خودکش حملہ آور ان کے سوال ’’ کدھر جارہے ہو ‘‘ کا صحیح صحیح جواب دے کر ممکنہ خودکش حملے کو روکنے کی تدابیر کرے تاکہ وطن عزیز میں دہشت گردی کی پے درپے وارداتوں کا قلع قمع ممکن ہو سکے ۔ دہشت گردی کی جاری لہر سے نمٹنے کیلئے ہر چوک چوراہے پر سنگین بردار اہلکار کی تعیناتی کے بجائے انٹیلی جنس کے نظام کوفعال بنانا ہوگا اور موثر حکمت عملی مرتب کرتے ہوئے ان کے نیٹ ورک کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ چیک پوسٹوں کے قیام سے دہشت گردی کی وارداتیں کم ہونے کی بجائے بڑھتی جائیں گی کیونکہ واردات کی نیت سے جانے والا چیک پوسٹ سے گزرنے کی نت نئی تدبیر سوچ کر اپنے ٹارگٹ پر پہنچنے میں کامیاب ہوجائے گا جبکہ اس کے تدارک کا اسباب کرنے والوں کی توجہ چیک پوسٹوں پر مبذول رہے گی ۔ لہذا صوبائی حکومت کو دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کوئٹہ میں قائم ایف سی کی تمام چیک پوسٹوں کا خاتمہ کرکے سول انتظامیہ کو تمام تر کنٹرول دینا چائیے اور ایف سی پر اٹھنے والے اخراجات سے پولیس کو مستفید ہونے کا موقع فراہم کیاجائے پھر اس سے امن وامان کی بہتری کی ذمہ داری پوری کرنے کی توقع رکھی جائے ۔