2013ء کے انتخابات میں بلوچستان میں قوم پرستوں نے عجیب فسوں کاری دکھائی وہ قوم پرست جو پچھلے چالیس سال سے لبرل ازم ‘ ترقی پسندی ‘ اصلاح پسندی کا نعرہ بلند کرتے تھکتے نہیں تھے اچانک بلوچستان کے طول و عرض میں اہلسنت والجماعت ‘جمعیت علماء اور جماعت اسلامی سمیت ڈرگز مافیا اور ڈیتھ اسکواڈ کے کارندوں سے انصرام و انضباط کرنے سے نہیں چونکے اور اپنی دفاع میں سات آسمان ایک کیے ہوئے ہیں ۔
سیاسی انٹیلی جنشیا اسے اس طرح تاریخ کا جبر گردانتی ہے کہ جب انسان وقت کا سفر کرکے تاریخ کے اس موڑ پر آجائے کہ جہاں اسے اپنے بیانیے کی نفی کرنی پڑے اور انکا کردار ان کے ماضی کے گفتار کے برعکس منعکس ہو جائے تو وقت کا یہ موڑ سخت تکلیف دہ بن جاتا ہے کیونکہ زندگی کے یوٹرن کے بعد آ پ کے پاس وہ با اعتماد لوگ موجود نہیں ہوتے جو گزشتہ موقع پر دستیاب رہے ہوں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ تاریخ بھی ان کے ساتھ جبر کرتی آرہی ہے۔
اینٹی سردار بی ایس او بنانے کے بعد 1988ء میں نواب اکبر خان بگٹی کے ساتھ حکومت بنائی اور پورے بلوچستان میں یہ کلامیہ مشہور کرایا ہے کہ نواب بگٹی نے 22ہزار بلوچوں کی قتل عام کے لئے معافی مانگی ہے‘ کوئی بتائے کہ ہم بتلائیں کے مصداق نواب بگٹی نے کب اور کن کے سامنے یہ بات تسلیم کی ہے کہ انہوں نے بائیس ہزار بلوچوں کو قتل کروایا تھا ۔
پھر اختر مینگل کے ساتھ اتحاد رکھی اور جم کر سرداری نظام کے خلاف جدوجہد کی اختر مینگل کے ساتھ دو ہاتھ کرنے کے بعد دوبارہ یوٹرن لے لی اور 1988ء کے رجعتی ‘ منافق‘ سامراج دشمن پارٹی بی این پی ڈی سے اتحاد کرکے این پی کی تشکیل کردی ۔
1988ء میں جو نعرہ رجعتی ‘ رد انقلابی ‘ سامراجی اور بورژوا طبقے کا تھا 2013ء کے انتخابات میں غوث بخش بزنجو کا فلسفہ بن کر ان کے سیاسی تحریک کا نظریہ بن گیا ایک طرف یہ نعرہ ہے کہ اب دنیا میں نظریات ہی ختم ہوگئے ہیں صرف ایک نظریہ ’’ذاتی فائدے کا نظریہ‘‘ زندہ ہے جبکہ دوسری جانب حاصل خان کو پارٹی کا صدر منتخب کرکے عام سیاسی کارندوں کویہ تاثر دیتے ہیں کہ این پی فکر میر صاحب اور فلسفہ میر غوث بخش پر کار بند ہے اب سیاسی کارندے سوال کر سکتے ہیں کہ میر غوث بخش بزنجو کا سیاسی فلسفہ اور فکر’’ ذاتی فائدہ یا چند ٹھیکوں‘‘ کا تھا ۔
اگر 1970ء سے لے کر موجودہ عہد تک ان سیاسی منافقین کے گفتار اور کردار کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وقت ہر پانچ سال بعد تاریخ کے نئے موڑ پر اور زمانے کے زاویے میں ان سے ان کی منافقت کا انتقام لیتا رہا ہے 2013ء کے انتخابات میں اس سے زیادہ ذلت کا مقام کیا ہوسکتاہے کہ انہوں نے پارٹی پالیسی یہ بنائی کہ پارٹی کی کوئی پالیسی ہی نہیں بنائی ۔
بلوچستان کے تمام انتخابی حلقوں میں مقامی قائدین کو یہ کہا گیا کہ انتخابی امیدوار اپنے ذاتی مفادات اور ووٹروں کی رائے کے مطابق اتحادات تشکیل دیں اوراس تناظر میں غضب کیا مقامی پارٹی قائدین نے کہ تمام علاقوں اور حلقوں میں عدم پارٹی پالیسی کو پالیسی کے طورپر قبول کیا اور سیاسی رہنماؤں کی سیاسی ادائیں یہ رہیں ایک ہفتے میں کیچ کے ایک جلسے میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں ترقی کے پہیے کو سرداروں نے روک رکھا ہے اس لیے این پی کی پالیسی سرداروں کے خلاف اور درمیانے طبقے کی ترقی ہے ۔
اور اسی ہفتے کے آخر میں مستونگ کے ایک جلسے میں ایک نواب کی شمولیت کے دوران خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ جہد میں سرداروں کی قربانیوں کو کسی طرح فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ ( یہ بیانات 2013کے اخبارات میں موجود ہیں ۔)
اس دوران خضدار میں جمعیت کے جلسے میں بی این پی مینگل کے خلاف خطاب کرتے ہوئے کہا گیا کہ ہماری جدوجہد رجعتی اور سامراجی قوتوں کے خلاف ہے اور نصیر آباد میں بی این پی مینگل کے اتحادی امیدوار کے جلسے میں ن لیگ اور جمعیت کے خلاف یہی الفاظ اور جملے استعمال کیے گئے اور جب 700اور 300ووٹوں کی کامیابی کے بعد جب حکومت مل گئی تو اعلان کیا گیاکہ مشرف کے باقیات ( ق لیگ )سے اوررجعتی قوتیں (جمعیت )بلوچ عوام کے قاتل ہیں۔
اس لیے ان کے لئے بلوچستان اسمبلی کو تنگ کردیں گے لیکن لوگوں نے دیکھا کہ ق لیگ کے امیدوارکو اپنا امیدوار بنا کر اسپیکر بلوچستان اسمبلی بنادیا جو بعد میں گورنر بلوچستان بھی بن گیا
اب وہ موجودہ بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن پارٹی جمعیت کو بلوچستان میں حالات کوخراب کرنے کے ذمہ دار ٹھہراتے رہے ہیں اور جمعیت پچھلے چار سالوں سے بلوچستان کی تمام خرابیوں کا جڑ قوم پرستوں کو ٹھہراتی رہی ہے حالانکہ وفاق میں دونوں ن لیگ کے اتحادی ہیں ۔
اب نیشنل پارٹی کے صدر نے کوئٹہ پریس کلب کے پروگرام حال احوال میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں قوم پرست ماضی میں بھی جمعیت علماء اسلام کے ساتھ اتحاد و تشکیل دیتے رہے ہیں حالانکہ ماضی میں کوئی ایسی مثال موجود نہیں جبکہ نیپ کے دور میں جمعیت حکومت میں شامل تھی نیپ نے جمعیت کے ساتھ انتخابی اتحاد نہیں کیا تھا اور ریکارڈ کی درستگی کے لئے یہ بھی معلوم ہو کہ اس اتحاد میں تقریباً جماعت اسلامی اور اہلسنت و الجماعت شامل تو نہیں تھے ۔