بلوچستان میں موجودہ مخلوط حکومت نے ناراض بلوچ رہنماؤں سے مذاکرات کو پہلی ترجیح دیتے ہوئے دسمبر میں اے پی سی کی تیاریاں شروع کردی ہیں ۔اس ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس میں بلوچستان اسمبلی کے اندر اور باہر تمام قوم پرست جماعتوں کو شرکت کی دعوت دی جائے گی ۔ اے پی سی کے انعقاد سے قبل وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ تمام جماعتوں کے سربراہوں سے الگ الگ ملاقاتیں کریں گے۔ اور ان سربراہان کو کل جماعتی کانفرنس کے ایجنڈے اور اس کی اہمیت کے حوالے سے اعتماد میں لیں گے۔ ذرائع کے مطابق اس مرتبہ ہونے والی اے پی سی ماضی میں ہونے والی آل پارٹیز کانفرنسز سے یکسر مختلف ہوگی ۔ اس کانفرنس میں ناراض بلوچ رہنماؤں سے مذاکرات سمیت دیگر تمام پہلوؤں پر تفصیلی غور وخوض کیاجائے گااورمذاکرات کے لئے سینئر بلوچ رہنماؤں پر مشتمل ایک جرگہ بھی تشکیل دیا جائے گاجس کو مرکزی اور صوبائی حکومت کی ہر طرح سے بھرپور مینڈیٹ حاصل ہوگا تاہم اگر مذاکرات میں مطلوبہ کامیابی حاصل نہ ہوئی تو تمام جماعتوں کی رضا مندی سے صوبے میں شر پسند عناصر کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن کا آپشن بھی موجود رہے گا۔ نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر مالک بلوچ کو وزارت اعلیٰ کی ذمہ داری دے کر سب سے پہلے وفاق کی جانب سے جو فریضہ سونپا گیا وہ ناراض بلوچوں کوقومی دھارے میں لانے کا ہے ۔ اسی مقصد کے لئے آئے روز وزیراعلیٰ کی جانب سے ناراض بلوچ رہنماؤں سے کبھی اپیل کی جاتی ہے تو کبھی انہیں مذاکرات کی میز پر آنے کی دعوت دی جاتی ہے ۔ گزشتہ دنوں بھی وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے اس امر کی نشاندہی کی تھی کہ ناراض بلوچ رہنماؤں سے مذاکرات ہماری پہلی ترجیح ہے لیکن اگر مذاکرات کامیاب نہ ہوئے تو پھر ان سے سختی سے نمٹا جائے گا۔ یہ الگ بات ہے کہ بلوچوں کے خلاف پہلے سے کارروائیاں جاری ہیں ۔ سرچ آپریشنز اور ٹارگٹڈ آپریشن ‘ اغواء اور ماورائے آئین وقانون گرفتاریاں ‘ مسخ شدہ لاشوں کے ملنے کا سلسلہ کوئی نیا نہیں ۔ بلوچوں کو ایک عرصے سے ان کا تجربہ ہے ۔جہاں تک اے پی سی کا تعلق ہے تو معامالات کے سدھار کے حوالے سے حکومت بلوچستان کی نیت پر شک کی گنجائش نہیں لیکن ان قوتوں کا کیا کیا جائے کہ معاملات کو کسی مثبت نکتے پر پہنچنے سے پہلے بگاڑ دیتے ہیں اور پھر مذاکرات اور اس کے نتیجے میں ملنے والی کامیابی ناکامی بن جاتی ہے اور یوں اس سفر کا آغاز ایک بار پھر نئے سرے سے کرنا پڑتا ہے ۔ اے پی سی کو حکومت کی جانب سے مشروط یوں بھی نہیں کرنا چائیے کہ اگر مذاکرات کامیاب ہی نہیں ہوئے تو پھر ٹارگٹڈ آپریشن کیا جائے گا ،اس سے تو یہی لگتا ہے کہ آپ کے ذہن میں ایک بات واضح ہے کہ مذاکرات ناکام ہونگے اور پھر آپریشن کا جواز اپنے آپ ہی بن جائے گا۔ یاد رکھئے کہ ساٹھ سال کی تلخیاں صرف ایک بار کی مذاکرات میں تو ختم نہیں ہوسکتیں۔ خلوص نیت سے آپریشن کا خیال بالکل الگ کرکے رکھئے اور مذاکرات اور بار بار مذاکرات کی سبیل ڈھونڈئیے اور کسی بھی مرحلے پریہ تاثر نہیں ملنا چائیے کہ میں طاقتور ہوں ، تمہیں ختم کر سکتا ہوں۔ چند مخصوص اوقات کو چھوڑ کر گزشتہ چھ دہائیوں سے تو ریاست بلوچوں کے خلاف یہی کررہا ہے اور نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ ہم ان کالموں کے ذریعے بار ہا حکومت کو یہ تجویز دے چکے ہیں کہ بلوچوں کو مذاکرات کی میز پر لانے کیلئے پہلے حکومت کو پہل کرتے ہوئے مذاکرات کے لئے راہ ہموار کرنی چائیے ۔ حکومت کوانتہائی وسعت قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بلوچوں کے دلوں میں موجود نفرت کا درجہ حرارت کم کرنے کے لئے کچھ ایسے دیر پا اقدامات کرنے ہونگے جس سے ظاہر ہو کہ حکومت واقعی مذاکرات میں مخلص ہے ۔