|

وقتِ اشاعت :   October 29 – 2013

uncleڈگری ڈگری ہوتی ہے، چاہے اصلی ہو یا جعلی،،،،اس شعرہ آفاق جملہ کے خالق بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ نواب اسلم رئیسانی ہیں جوگذشتہ دور میں حکومتی کارکردگی کی بجا ئے میڈیا پر اپنے نپے تلے جملوں اور اسلام آباد یاتراؤں کی وجہ سے خاصے مقبول رہے ، نام تو رکن قومی اسمبلی جمشید دستی نے بھی خوب کمایا ، مگر ان کی وجہ شہرت ان کی جعلی ڈگری اور اپنے علاقے میں ان کے رابن ہڈ جیسے کردار کی وجہ سے رہی۔جعلی ڈگری کے الزامات یوں تو تقریبا تمام جماعتوں کے امیدواروں اور بڑے بڑے جگادریوں پر لگے مگر اپنے مد مقابل سیاستدانوں سے قدرے کمزورخاندانی پس منظر اور پتلی گردن کی وجہ سے جمشید دستی ہی میڈیا کی خبروں کی زینت بنتے رہے۔ بارہ اکتوبر انیس سو ننانوے کو موجودہ وزیر اعظم نواز شریف کی اس وقت کی بھاری اکثریت رکھنے والی حکومت کو بزور طاقت چلتا کرنے والے اسلام آباد کے مظافات میں واقع چک شہزاد کے اسیر کمانڈو جنرل( ر) پرویز مشرف کو اس کے مشیروں نے ایک اچھوتا مشورہ دیا۔مشورہ کیا تھا یوں سمجھ لیں کارگل جنگ کے خالق کو گویا روایتی سیاستدانوں نے جان چھڑانے کا ایک نسخہ ہاتھ آگیا، سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگانے والے پاک فوج کے سابق سربراہ کو اپنی مقبوضہ حکومت کو قانونی شکل دینے کے لیے مرضی کی قانون سازی کی ضرورت تھی۔اور وہ روایتی سیاستدانوں کی تعلیم سے دوری کے راز سے بھی واقف تھے لہذا بغیر کسی توقف کے انہوں نے عام انتخابات میں شرکت کے لیے امیدوار کے گریجویٹ ہونے والے شرط والے مشورے کو گلے لگا لیا۔ دور اندیشی کا ڈھنڈورا پیٹنے اور وردی کو اپنی کھال کہنے والے پاکستان کے سابق مرد اول کو جلد بازی میں یہ بات یاد نہ رہی کہ ان کا سامنا بھی اپنے ہی جیسے شاہکاروں کا تھا ، گریجویشن کی ڈگری سے محروم کچھ سیاستدانوں نے انتخابات میں شرکت سے قبل ہی ہاتھ اٹھا لیے اور لوگوں کی نام نہاد خدمت کا بوجھ اپنے اہل خانہ یعنی بیوی، بچوں اور بہو بیٹیوں کے سپرد کردیا۔ تاہم بعض سیاستدانوں نے کالج اور یونیورسٹی کا منہ تک نہ دیکھنے کا بھرت رکھنے کے باوجود ہمت نہیں ہاری اور تھوڑی سی تگ و دو کر کے نہ صرف عالم دین بن بیٹھے بلکہ نامعلوم ولایتی تعلیمی اداروں کی ڈگریوں کے تمغے بھی کندھوں پر سجالیے۔ حد تو یہ ہے کہ سورہ اخلاص کی درست تلاوت نہ کرسکنے والے ایک سابق وزیر ایم اے عربی ان انگلش کی سند لیے پانچ سال موج مناتے رہے، اپنے پیشروؤں کی طرح سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو اور نواب اکبر بگٹی قتل کیس کے ملزم نے بھی دو ہزار کے انتخابات کے نتیجے میں بننے والی اسمبلی سے اپنی مطلوبہ اور دیرینہ خواہشات ، اپنے تمام غیر آ ئینی اقدامات کو پارلیمنٹ کے ذریعے قانونی کور دے کر تکمیل تو کرالی مگر گریجویشن کی شرط نے پاکستان میں جعلی ڈگریوں کے حصول کی ایک ایسی دوڑ کا آغاز کردیا کہ اسمبلی کی دو ٹرم مکمل ہونے کے باوجود جعلی ڈگریوں کے کیسز آج بھی عدالتوں کی زینت بنے ہو ئے ہیں۔گذشتہ دس سالوں کے دوران درجنوں سیاستدان نااہل بھی قرار پا چکے ہیں ، اس اعلیٰ درجے کی جعل سازی اور اس کے نتیجے میں ہونے والی نا اہلی کے باوجود بھی لوگ دھڑلے سے اسی نشست پر نہ صرف دوبارہ انتخابات میں حصہ لیتے ہیں بلکہ کامیاب بھی ہوجاتے ہیں، سونے پہ سہاگہ کہ متعلقہ حلقے کے لوگ بھی اس اخلاقی پستی کے باوجود نہ جانے کس مجبوری کے تحت اسی جعلی ڈگری رکھنے والے شخص کو مسترد نہیں کرتے بلکہ بھاری اکثریت سے اپنا رہنماء بنا کر دوبارہ اسمبلی کی زینت بناتے ہیں، سیاستدانوں کی ڈگریوں پر الزامات تو مہذب دنیا میں بھی لگتے رہے ہیں مگر ان الزامات کی نوعیت قدرے مختلف رہی ہے، مثال کے طور پر رواں برس فروری میں جرمنی کے حزب اقتدار کی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین کی چانسلر انجیلا میرکل کی کابینہ میں وزیر تعلیم آنیٹے شاوان پر ان کی انیس سو اسی کی ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے لیے لکھے گئے مقالے،تھیسس،کے کچھ حصوں پر سرقے کا الزام لگا یا گیا، الزام کیا لگنا تھا کہ وزیر موصوفہ نے فوری طور پر وزارت سے علیحدگی اختیار کرلی، تحقیق کے بعد الزام درست ثابت ہوا اور ڈسلڈورف یونیورسٹی نے آینٹے شاوان کے تھیسس کو بعد ازاں منسوخ کر دیا۔ جس کے نتیجے میں جرمنی کی سابق وزیر تعلیم نے مکمل طور سیاست سے بھی کنارہ کشی اختیار کرلی۔سال دو ہزار گیارہ کو بھی جرمنی کے وزیر دفاع کارل تھیوڈور سو گٹن برگ نے بھی پی ایچ ڈی کے مقالے میں سرقے کے الزام کے تناظر میں وزارت دفاع کے منصب سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ ان کے ڈاکٹریٹ کے مقالے کو بھی متعلقہ یونیورسٹی نے بعد ازاں منسوخ کر دیا تھا۔اسی نوعیت کا ایک اور الزام جرمنی کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیئرسیاستدان فرانک والٹر شٹائن مائر پرلگایا گیا ہے تاہم انہوں نے ڈاکٹریٹ کے مقالے میں سرقے کے الزام کی تردید کی ہے اور اس سلسلے ہنوز تحقیقات جاری ہیں، سرقے کی زد میں امریکی سیاستدان بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے، انیس سو اسی کی دہائی میں ڈیموکریٹ پارٹی کے ایک رہنماء اور انیس سو اٹھاسی مکے امریکی صدارتی انتخابات کے نامزد امیدوار سابق سینیٹر جوزف با ئیڈن کو بھی سرقے کے الزام کی وجہ سے صدارتی امیدوار کی دوڑ سے ہاتھ دھونا پڑا، سینیٹر جوزف با ئیڈن پر انیس سو پینسٹھ میں ان کے قانون کی ڈگری کورس کے سال اول کے دوران سرقے کا سہارا لینے کا الزام تھا جس پر بعد ازاں انہوں نے باقاعدہ معذرت کرلی تھی۔ موجودہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن پر بھی اس کی اکنامکس کی ڈگری کے تھیسس پر سرقے کا الزام ہے تاہم وہ اس الزام کی تردید کرچکے ہیں۔ جنوری دو ہزار بارہ کو ہنگری کے صدر پال شمٹ پر بھی ان کے انیس سو بانوے کی ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے تھیسس پر بھی سرقے کا الزام لگایا گیا جبکہ۔ رومانیہ کی وزیر اعظم وکٹر پونٹا کی دوہزار تین کی ڈاکٹریٹ کی ڈگری کا تھیسس بھی سرقے کے الزام کی زد میں ہے۔ انتخابات میں کامیابی کے صرف ایک ماہ بعد ایرانی صدر حسن روحانی پر بھی ان کی گلاسگویونیورسٹی کی پی ایچ ڈی کے تھیسس کے ایک پیراگراف پر سرقے کا الزام عائد گیا ہے، الزام کے مطابق ایرانی صدر حسن روحانی نے محمد ہاشم کمالی کی کتاب کا ایک پورا پیراگراف اپنی تھیسس میں لفظ بہ لفظ شامل کیا ہے جو سرقے کے زمرے میں آتا ہے، پاکستان میں جنرل (ر) پرویز مشرف کی جانب سے عام انتخابات میں شرکت کے لیے گریجویشن کی ڈگری کی شرط کی وجہ سے جعلی ڈگریوں کا ایک لا متناہی سا سلسلہ چل نکلا ہے، مگر مغرب میں ڈگریوں کے حصول کے لیے سرقے کا سہارا لینے کے پیچھے منطق تلاش کرنے پر پتا چلا کہ ان ممالک میں کسی بھی شعبے سے تعلق رکھنے والے ماہرین اور اعلی تعلیم یافتہ افراد کا عرصہ دراز سے احترام کیا جاتا رہا ہے، اسی غرض سے سیاستدانوں میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے حصول کا شوق پیدا ہوا جس نے بعد ازاں مسابقت کی شکل اختیار کرلی۔اور پھر چند سیاستدانوں نے پی ایچ ڈی کے حصول کے لیے اپنے مقالوں میں سرقے کا سہارا لینا شروع کردیا۔اور پھر ان کا سیاسی کیرئیر اپے منطقی انجام کو پہنچ گیا۔ قصہ مختصر پاکستان ، جرمنی اور دنیا کے دیگر ممالک کے سیاستدانوں کی ڈگریوں پر لگنے والے الزامات کی نوعیت بالکل مختلف ہے، مگر غور طلب بات یہ ہے کہ جرمن سیاستدان الزامات پر مستعفی ہوتے ہیں اور امریکی سیاستدان کو صدارتی امیدوار کی دوڑ سے پیچھے ہٹنا پڑتا ہے ، جبکہ روسی صدر الزامات کو مسترد کرکے ان کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں، دوسری جانب ڈگری جعلی ثابت ہونے کے باوجود ہمارے سیاستدان دوبارہ اپنی نشستوں پر براجمان ہوکر اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں۔