بلوچستان کے دور افتادہ اور پسماندہ ضلع آ واران میں آ ئے ہوئے زلزلے کو اب ایک ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے، متاثرین کو امداد کی فراہمی میں وفاقی حکومت اور نام نہاد پاکستانی قوم کی سنجیدگی کا اندازہ طبی امداد فراہم کرنے والی بین الاقوامی رضا کار تنظیم ڈاکٹرز ودھ آ ؤ ٹ بارڈرز کی اس اپیل سے لگایا جاسکتا ہے کہ حکومت تنظیم کو متاثرین زلزلہ کی طبی امداد کے لیے متاثرہ علاقے تک رسا ئی کی اجازت فراہم کرے۔تنظیم کے مطابق وہ چوبیس ستمبر سے مسلسل حکومت پاکستان سے اجازت طلب کررہے ہیں جو انہیں تاحال فراہم نہیں کی گئی
ہم نے مانا کے تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہوجائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک
حکومتی کی جانب سے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق زلزلے کے نتیجے میں لقمہ اجل بن جانے والوں کی تعداد تقریباً چار سو ، کچھ رپورٹس کے مطابق یہ تعداد ایک ہزار سے قریب ہے، ،سیکڑوں افراد زخمی جبکہ متاثرین کی تعداد تین لاکھ بتا ئی جاتی ہے۔اطلاعات کے مطابق بلوچستان کے اس دور افتادہ ضلع میں تاحال کئی علاقے ایسے ہیں جہاں متاثرین آج بھی حکومتی امداد کی راہ تک رہے ہیں،
عینی شاہدین اور میڈیا کی اطلاعات کے مطابق ریسکیو کا عمل اوزاروں کے بغیر ہاتھوں سے اپنی مدد آپ کے تحت انجام دینے کے بعد بعض متاثرین آج بھی بے یارو مدد گار کھلے اسمان تلے بغیر چادر و چہار دیواری کے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں،ان اطلاعات اور رپورٹس کے پیش نظر ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا بلوچستان بالخصوص آواران، مشکے یا زلزلے سے متاثرہ دیگر علاقے پاکستان کا حصہ نہیں ہیں؟ کیا زلزلے کے نتیجے میں انسان متاثر نہیں ہوئے ؟ کیا بلوچستان کے دور افتادہ اور پسماندہ علاقوں کا کو ئی والی وارث نہیں؟ حد تو یہ ہے کہ میڈیا کی ٹیموں کو بھی کوریج سے روکنے کے لیے انہیں ڈرایا اور دھمکایا گیا، اور اگر کسی نے زبردستی آگے جانے کی ٹھانی تو اسے کہا گیا کہ آگے اپنے رسک پر جاؤ۔ ایک اور بات کی گردان بھی سمجھ سے بالاتر ہے کہ امدادی سامان صرف اور صرف فوج ہی تقسیم کرے گی۔تو یہ سوال کرنے والے بھی حق بجانب ہوں گے کہ وہ کون سی مجبوری ہے کہ کسی فلاحی تنظیم یا ادارے کو امدادی سامان تقسیم نہیں کرنے دیا جارہا ؟اس طرح کی صورتحال کا سامنا تو دوہزار پانچ کو کشمیراور موجودہ خیبر پختونخواہ میں آنے والے زلزلے کے دوران بھی دیکھنے کو نہیں ملا جہاں دنیا بھر کی تنظیموں کو لائن آف کنٹرول تک جانے کی اجازت تک دی گئی۔ علاقے کی سماجی اور سیاسی تنظیمیں اس خدشے کا بھی اظہارکر رہی ہیں کہ کہیں ایسا تو نہیں پاک فوج بلوچستان کے اس شورش زدہ علاقے میں لوگوں کوآپس میں دست و گریباں تو نہیں کرانا چاہتی ، ایسی اطلاعات بھی سننے کو ملی ہیں کہ پاکستانی افواج کے اہلکار امدادی سامان دینے کے ساتھ لوگوں کو اپنی مدد پر آمادہ کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں، جس سے لوگوں کے ذہنوں میں پہلے سے موجود اس تاثر کو مزید تقویت ملتی ہے کہ پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے ادارے امداد کی آڑ میں ایک نیا کھیل کھیلنا چاہ رہے ہیں۔ یوں تو بلوچستان بھر میں علیحدگی کی تحریک زوروں پرچل رہی ہے مگر زلزلہ سے متاثرہ مشکے اس تحریک کے سب سے اہم رہنما ڈاکٹر اللہ نذر کا آبائی علاقہ بھی ہے۔اور کچھ لوگ دبے الفاظ میں اس خدشے کا اظہار کررہے ہیں کہ آواران اور خصوصا مشکے کے عوام کو علیحدگی پسند رہنما کا ہمسایہ ہونے کی سزا دی جارہی ہے۔دوسری جانب بلوچستان نیشنل موومنٹ کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر منان بلوچ نے اس ضمن میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون کو ایک مراسلہ بھی تحریر کیا ہے کہ اقوام متحدہ بلوچستان کے متاثرین زلزلہ کی مدد کے لیے آگے آ ئے ۔انہوں نے الزام عائد کیا کہ وفاقی اور صوبا ئی حکومتیں متاثرین کی مدد نہیں کررہیں اور نہ کسی دوسرے کو مدد فراہم کرنے کی اجازت د ے رہی ہیں،
دوسری جانب متاثرین زلزلہ سے صرف وفاقی اور صوبا ئی حکومتیں ہی نہیں عوام بھی لاتعلق نظر آ تے ہیں، جس کا ثبوت یہ ہے کہ ملک بھر سے زلزلہ متاثرین کی مدد کے لیے نہ وہ جوش و ولولہ دیکھنے میں آیا جو دو ہزار پانچ کو کشمیر اور خیبر پختونخواہ اور دوہزار نو زیارت میں آنے والے زلزلے کے دوران نظر آیا تھا ، دوسری جانب میڈیا کی پھرتیاں بھی اب پہلے جیسی نہیں رہیں۔ با الفاظ دیگر بلوچستان کے زلزلہ متاثرین کی مدد کا نہیں جوش و جذبہ ، ان اطلاعات کے باوجود کہ زلزلہ متاثرین تاحال امداد سے محروم ہیں یا یہ کہ ان کا سب کچھ تباہ ہوچکا ہے، کہیں سے نظر نہیں آ رہا۔دوسری جانب بلوچستان کے مسائل کے ذکر پر مگر مچھ کے آنسو بہانے والے وزیر اعظم میاں نواز شریف کے پاس دو بار امریکہ اور برطانیہ یاترا کے لیے بہت وقت ہے مگر جب اسی پسماندہ بلوچستان کے زلزلہ متاثرین کی امداد کا وقت آتا ہے تو وہ متاثرہ علاقے تو درکنار کوئٹہ تک کا بھی راستہ بھول جاتے ہیں،
میر بھی کیاسادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں۔
قارئین کے لیے یہ اطلاع بھی ضروری ہے کہ آ واران ضلع میں بیشتر علاقے اکیسویں صدی میں بھی بجلی جیسی سہولت سے محروم ہیں اور یہاں کے رہا ئشی ہائی ٹیک اور فور جی ٹیکنالوجی میں بھی واٹر سپلائی اور صحت عامہ جیسی سہولتوں سے نا آشنا ہیں، زلزلے سے متاثرہ علاقے میں لوگ سولہویں یا سترہویں صدی کے لوگوں کی طرح کچے مکانات میں رہتے ہیں اور بارش کے دنوں میں قدرتی طور پر ملنے والے پانی کے سہارے کھیتی باڑی کرکے زندگی گزارتے ہیں ،سات اعشاریہ سات درجے کے اس زلزلے نے ان کی زندگی کی تمام جمع پونجی اور کل کائنات کو چند لمحوں میں خاک میں ملادیا۔
قدرتی وسائل سے مالا مال بلوچستان کے شہریوں کو مجرمانہ حد تک بنیادی سہولتوں سے محروم رکھنے کے ذمہ داروں کا تعین تو تاریخ کرے گا مگر مشکل کی اس گھڑی میں متاثرین زلزلہ کے زخموں پر مرہم نہ رکھنے کے ذمہ داروں میں کہیں ہم بھی تو شامل نہیں؟