این اے 260کے ضمنی انتخاب سے بلاشبہ یہ ثابت ہوچکا کہ بلوچستان نیشنل پارٹی صوبے کی واحد مقبول سیاسی جماعت ہے، سیاسی منظرنامے میں اس جماعت کاکوئی ثانی نہیں ہے جب بی این پی نے قومی اسمبلی کی نشست کیلئے اپنی نمائندگی کااعلان کیا تو پارٹی کے مخالفین کی صفوں ،حکومتی اور سیاسی اتحادیوں میں ایک واضح بے چینی پائی جانے لگی ۔
سوائے پشتونخوا میپ کے جس نے چند واضح وجوہات کی بناء پر دوسرے سیاسی ساتھیوں سے فاصلہ رکھنے کی سیاست اپنائی تھی ، بی این پی کو مرکزی اور صوبائی حکومت کے اتحادیوں کی طرف سے پارٹی امید وار کیخلاف کھڑے ایک مضبوط امیدوار کاسامنا کرنا پڑا ، یہ بی این پی کیلئے ایک اعزاز ہے کہ بی این پی کو عوامی سطح پر ہم خیال ساتھیوں کی حمایت حاصل تھی ۔
پشتونخوا میپ کیلئے یہ ایک پریشانی تھی پی کے میپ ضمنی انتخابات میں اپنی مقبولیت حاصل کرنے میں ناکام رہی ، جب نتائج کا اعلان ہواتو اس کی مقبولیت میں واضح کمی آئی اور پشتونخوا میپ اپنی نشست کادفاع نہ کر سکی۔
پشتونخوا میپ کو سیاسی وجوہات کی بناء پر صوبائی دارالحکومت میں قومی اسمبلی کی ایک اور صوبائی اسمبلی کی تین نشستیں تحفے میں ملی تھیں ورنہ 2013ء کے انتخابات سے پیشتر اور تاریخ کے کسی دوسرے دور میں اس کی مقبولیت خاصی کم رہی ہے، سیاسی تجزیہ نگار اس بات پر متفق ہیں کہ اس کی مقبولیت کو اس قدر ناجائز بڑھایا گیا کہ گزشتہ عام انتخابات میں چاغی کا حلقہ انتخاب پشتونخوا میپ کو تحفے میں دیاگیا تھا۔
اس حلقہ انتخاب سے منتخب شدہ رکن قومی اسمبلی نے کبھی اپنے حلقہ انتخاب کا دورہ اوررائے دہندگان سے ملنا تک گوارہ نہیں کیا، شروع دن سے ہی نیشنل پارٹی کی حکومت پر سیاسی منظر نامے میں بے چینی کا عنصر غالب رہا ہے اور یہ اپنے ازلی دشمن بی این پی کی مخالفت میں اکٹھے ہو جانے کی بے خوف کوشش کر رہی ہے۔
نیشنل پارٹی چاغی کے تاریخی علاقوں میں بی این پی کے اثر رسوخ کا سامنا نہیں کرسکتی ہے ،اس کا اثر محض طلباء حکومتی ملازمین اور زیادہ تر اسکول اساتذہ تک محدود ہے ضمنی انتخاب میں نیشنل پارٹی نے بی این پی کا براہ راست سامنا کرنے سے گریز کیا اور سیاسی لڑائی میں بی این پی کا سامنا کرنے کیلئے جمعیت کو بطور ڈھال استعمال کیا ۔
اکثر اوقات نیشنل پارٹی کے رہنماء اپنی تمام سیاسی زندگی میں سوشلزم اور کمیونزم کی تبلیغ کرتے پائے گئے ہیں مگر اچانک انہیں مزاحمتی رفیق جمعیت اور بی این پی کاسامنا کرتے دیکھا گیا ۔
جمعیت ایک قد امت پسند اور مذہبی جماعت ہے جو اندرون بلوچستان اور پاکستان میں مدارس چلاتی ہے ، جبکہ بی این پی ایک سادہ بلوچ قوم پرست اور سیکولر یا غیر مذہبی اور غیر فرقہ ورانہ جماعت ہے یہ بلوچ اوربلوچستان کے تمام لوگوں کی بلاتفریق جائز حقوق کادفاع کرنے والی ایک سادہ آزاد خیال اور جمہوری جماعت ہے۔
سردار اختر جان مینگل نہ تو سوشلسٹ ہیں اور نہ کمیونسٹ حتیٰ کہ انہوں نے سیاست میں بھی جنونی فرقہ پرستوں سے اپنے آپ کو در رکھا ہے، بی این پی نے بطور قومی جماعت چاغی کے حلقہ انتخاب اور دور دراز کے علاقوں سے تن تنہا ڈھیروں ووٹ حاصل کئے البتہ اسے کوئٹہ کے نواحی علاقوں میں ہم خیال جماعتوں کی مدد و حمایت حاصل تھی ۔
ہم خیال جماعتوں کی حمایت کی صورت میں حکومتی اتحادیوں اور فرقہ وارانہ سیاست کے خلاف بی این پی ایک مزاحمت کی علامت جماعت رہی۔ اس بات میں کوئی دورائے نہیں کہ بی این پی نے ملک بھرکی حکومتی اتحاد کا سامنا کیا ، مسلم لیگ، نیشنل پارٹی اور جمعیت مرکزی حکومت میں سیاسی اتحادی ہیں۔
بی این پی نے ماضی میں بھی چاغی میں اسی طرح کے مضبوط اتحاد کاسامنا کیاتھا،اس وقت ایک عظیم انقلابی شاعر میر گل خان نصیر نے بلوچستان کے واحد لکھ پتی Marble kingکو شکست دی تھی جس کے پاس عوامیت پسند بی این پی کیخلاف ریاستی مشینری کو متحرک کرنے کے لیے لامحدود وسائل موجود تھے، ضمنی انتخابات میں پیپلز پارٹی اور پشتونخوا میپ دونوں لاوجود سیاسی جماعتیں ثابت ہوئیں ہیں ۔
انہوں نے اپنی جیبوں سے ووٹ حاصل کئے، جن کا ان کے حلقہ انتخاب کی وسیع طاقت کے ساتھ کوئی جوڑ نہ تھا، یہ جماعتیں مشکل ہے کہ آنے والے انتخابات میں کوئی امیدوار منتخب کرپائیں ، بی این پی کے سربراہ نے نوشکی ، خاران، کوئٹہ،قلات ، خضدار اور بلوچستان کے دوسرے علاقوں میں عوامی طاقت کا مظاہرہ اور عوامی حلقوں سے خطاب کیا ہے ۔
ان علاقوں میں جمعیت اور نیشنل پارٹی کا بی این پی کے مقابلے میں کوئی جوڑ نہیں، اس حقیقت کو جانتے ہوئے مذکورہ جماعتیں اپنے باہمی دشمن یا پوشیدہ حریف کیخلاف اتحاد بنانے پر مجبور ہوئے وہ اپنے نظریات وعقائد سے قطع نظر ایک مقبول جماعت کے خلاف منفی سیاست کو فروغ دے رہی ہیں۔
نیشنل پارٹی کی قیادت سیاسی اتحادسے متعلق دلیل پیش کرنے اور کارکنوں کو باور کرانے میں ناکام رہی ہے انہوں نے ضمنی الیکشن میں سیاسی شکست محسوس کرتے ہوئے جمعیت کا ساتھ دیا تاکہ جمعیت کو آئندہ انتخابات میں اپنی بڑائی دکھانے کا موقع نہ ملے۔ نیشنل پارٹی کے مقامی رہنماء وزیراعلیٰ بلوچستان کی نشست پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔
حالیہ سیاسی افراتفری پاکستان میں جمعیت کی مقبولیت کو سنجیدگی کے ساتھ اثر انداز کر سکتی ہے اور مستقبل قریب میں جماعت کو مکمل نظرانداز کر یگی ۔بلوچ سرزمین پر جمعیت محض چند ایک سیٹوں پر محدود ہے ۔
افغان انقلاب کی برکت سے عالم اسلام اور مغربی دنیا نے ان کو مدارس قائم کرنے میں مدد دی۔ مولانا حیدری کا یہ خواب کہ وہ آئندہ صوبے کے وزیراعلیٰ ہوں گے وہ ایک خواب ثابت ہوگا ، 2002ء کے انتخابات میں جمعیت کے پاس 20نشستیں تھی مگر پھر بھی ان کو وزارت اعلیٰ کا منصب نہیں دیا گیااب تو ان کے پاس چند نشستیں ہیں ۔
شاہدوسطی بلوچستان سے صرف ایک نشست دوسری جانب پشتونخوامیپ اور،نیشنل پارٹی آنے والے دنوں میں مزید تنہائی کے علاوہ کمزورترین پارٹیاں ثابت ہوں گی کیونکہ انہوں نے حکومت میں شمولیت کے ساتھ ہی اپنی حمایت کھو دی ہے، یہ بات الگ ہے کہ ان کے کچھ رہنماؤں نے اپنی ذاتی قسمت دولت سے سے بدل ڈالی ۔
این اے 260، مضبوط اتحاد کوشکست
وقتِ اشاعت : July 25 – 2017