|

وقتِ اشاعت :   August 9 – 2017

کوئٹہ : بلوچستان نیشنل پارٹی کے سر براہ سردار اخترجان مینگل نے کہا ہے کہ اقتدار کا نہیں اختیارات کا بھو کا ہوں اقتدار کے بھوکوں کا لائن زرغون روڈ پر لگے ہوئے ہیں اختیارات کے بغیر ملک نہیں چل سکتا ہے اور نہ ہی خوشحالی آئے گی ۔

میں صرف اللہ سے ڈرتا ہے جس نے مجھے اور آپ کو پیدا کیا ہے ہمارے کسی دوست، ہمدردوں یا پارٹی رہنماؤں کو کوئی بھی نقصان ہوا تو اس کی تمام تر ذمہ داری مقتدر قو توں پر عائد ہو گی الیکشن میں ہرانا تو آپ کا کام ہے جب آپ لوگ قائداعظم محمد علی جناح کی بہن کو انتخابات میں ہر اسکتے ہیں تو ہماری کیا حیثیت ہے ہم کفن باندھ کر گھر وں سے نکلے ہیں وکلاء نے آئین اور قانون کی بالادستی کے لئے قربانیاں دی ہیں بلوچستان کے عوام باشعور ہو چکے ہیں ۔

ان خیالات کا اظہا رانہوں نے کوئٹہ پریس کلب میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے زیر اہتمام سانحہ8 اگست کے شہداء کے حوالے سے تعزیتی ریفرنس سے خطاب کر تے ہوئے کیا انہوں نے کہا ہے کہ ابتدائی خون آلود ہوں تو اختتام کیا ہو گی کاش آج ہم تعزیتی ریفرنس پریس کلب کوئٹہ کی بجائے مالی باغ یا نواب نوروز اسٹیڈیم میں جلسے کی شکل میں کر تے تو ہم ان شہداء کو زبردست خراج عقیدت پیش کر تے شہداء کی یاد میں جلسہ بھی نہیں کر سکتے اور فاتحہ خوانی کے لئے بھی سرکار کے اجازت ناموں کے محتاج بنا دیئے ۔

حالات اچھے ہو یا برے اب ہمیں مقابلہ کر نا ہو گا اور میدانوں میں نکل کر جدوجہد کو تیز کر نا ہو گا 8 اگست کو ایک سنگت یا عسکر خان ہم سے جدا نہیں ہوئے بلکہ ہزاروں سنگت اور عسکر خان کھو دیا اگر نام اور تعداد گنوں تو شاہد وقت زیادہ لگے سانحہ8 اگست میں کتنے گھر اجڑ گئے کتنے بچے یتیم ، کتنے خواتین بیوہ اور کتنے بہنوں کے سہارے چھین لئے گئے ایک سال گزرنے کے باوجود انصاف کے تقاضے پورے نہیں کئے گئے چمن سے لے کر جیونی تک ہم ماتم کر رہے ہیں ۔

انہوں نے کہا ہے کہ افسوس کہ یہاں کے حکمران آج بھی جشن آزادی میں مصروف ہے آزادی کا مزہ چکا نہیں تو انہیں معلوم نہیں کہ آزادی کیا ہو تی ہے اسرائیلوں کے ہاتھوں جب فلسطینوں کا قتل عام ہو ا تو عرب ممالک میں فلسطینوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کی خاطر اپنی جشن کو ملتوی کر دیا کیونکہ عرب فلسطینوں کو اپنا بھائی سمجھتے ہیں۔

انہوں نے کہا ہے کہ حکمرانوں نے ابھی تک بھائی بلکہ غلام تک تسلیم نہیں کیا گیا ہمارے مائیں بہنیں سڑکوں پر احتجاج کے لئے نکلتے ہیں مگر لاہور اور ملتان سے فنکار آتے ہیں اور جشن منا تے ہیں بلوچستان کے عوام کے زخموں پر نمک پاشی کی جاتی ہے بلکہ یہ نمک پاشی نہیں تیزاب پاشی کی جا رہی ہے سانحہ8 اگست میں شہید ہونیوالے وکلاء کیا اس ملک کے شہری نہیں تھے یا وہ کسی ملک کے ایجنٹ تھے کہ ان کو ٹارگٹ کیا گیا کیا ۔

صرف وردی پہن کر لوگ محب وطن ہو تے ہیں میں اشاروں میں بات نہیں کر تا نام لے کر بات کر تا ہوں ہم نے کبھی بھی یہ مطالبہ نہیں کیا کہ باہر سے کوئی ٹیم آکر سانحہ8 اگست کے واقعہ کی تحقیقات کریں بلکہ آپ کے اداروں پر اعتماد کیا نہ مرنے والوں کو پتہ چلا اور نہ ہی لواحقین کو پتہ چلا کہ اس واقعہ میں کون ملوث ہے جن لو گوں نے اسلام کے نام پر وکلاء کو نشانہ بنایا لاکھوں لو گ کو بے گھر ہو گئے۔

اس سے نفرتیں بڑھے ان شہداء کو قتل کر نے سے اسلام کو کوئی فائدہ نہیں ہوا فائدہ ان لو گوں کو ہوا جو آئین اور قانون کی بالادستی تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے اور وہ ہمیشہ سچی آواز کو دبانے کے لئے ہمیشہ اپنے آپ کو بر سر اقتدارمیں رہنا چا ہتے ہیں جن وکلاء نے عدلیہ کی بحالی کیلئے جدوجہد کی اور ایک آمر کا بسترہ گو ل کر دیا اس کی سزا سانحہ8 اگست میں وکلاء کو ملی فائدہ ان لو گوں کو ملا جنہوں نے شروع دن سے ملک کے تباہی وبربادی میں کردار ادا کیا ۔

اس ملک کے70 سال میں بہت سے کمیشن اور ٹربیونل بنائے گئے مگر کسی بھی واقعہ کو منظر عام پر نہیں لایا گیا ملک دولخت ہوا جو کمیشن کی رپورٹ اس دور میں بنائی گئی ان کو شائع کر تے بھی یہ لوگ شرماتے ہیں۔

سانحہ8 آگست اور سانحہ توتک کی رپورٹ شائع کرنے سے بھی یہ لوگ شرماتے ہیں جو لوگ سانحہ8 اگست کے سلسلے میں اپنے شہداء سے اظہار یکجہتی کے لئے شٹرڈاؤن ہڑتال کو برداشت نہیں کر سکتے یہ شٹرڈاؤن ہڑتال آپ لو گوں کے خلاف نہیں بلکہ ان دہشتگردوں کے خلاف ہے جنہوں نے سانحہ8 اگست میں اپنا کردار ادا کیا ۔

وہ لوگ خود واقعات کو مشکوک بنا تے ہیں پھر تو ہم یہ سمجھتے ہیں کہ صرف سانحہ8 اگست نہیں بلکہ ملک میں ہونیوالے تمام تر واقعات کے ذمہ دار یہی لوگ ہے کشمیر میں کشمیری شہید ہو تے ہیں تو پورے ملک میں ہڑتال کی جاتی ہے جب چمن یا چاغی میں کوئی شخص مر تا ہے تو اس پر یہ لوگ سیخ پا ہو جا تے ہیں۔

1965 اور1971 کی جنگ کے شہد اء ان کو یاد ہے لیکن2016 کے شہداء یاد نہیں ہے اور ایک ہی سال میں بھول گئے انہوں نے کہا ہے کہ یہ لوگ پارلیمنٹ ، عدلیہ ، سیاسی جماعتوں ، تعلیمی اداروں میں بلکہ ہر چیز میں مداخلت کر تے ہیں ملک کو کس طرح لے جا یا جا رہا ہے ملک کے عوام نے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا جتنا ان لو گوں نے فائدہ اٹھایا ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ میں صرف اللہ سے ڈرتا ہے جس نے مجھے اور آپ کو پیدا کیا ہے میری کسی دوست یا ہمدردوں یا پارٹی رہنماؤں کو کوئی بھی نقصان ہوا تو اس کی تمام تر ذمہ داری مقتدر قو توں پر عائد ہو گی الیکشن میں ہرانا تو آپ کا کام ہے جب یہ لوگ قائداعظم محمد علی جناح کی بہن کو انتخابات میں ہر اسکتے ہیں تو ہماری کیا حیثیت ہے ہم کفن باندھ کر گھروں سے نکلے ہیں ملک میں کرپشن ہے اور سیاسی سیٹ اپ میں کرپشن کو کس نے فروغ دیا جب عوام کے نمائندے عوامی رائے سے منتخب نہیں ہوتے بلکہ آپ کے رائے سے منتخب ہو تے ہیں تو کرپشن جنم لیتی ہے خیبر پختونخوامیں ڈاکٹر خان کی حکومت کو اس لئے ختم کیا گیا کہ وہ قانون کی حکمرانی چاہتے تھے ملک میں بنیاد جب کرپشن پر بنائی گئی تو یہ ملک کبھی بھی نہیں چل سکتا ۔

انہوں نے کہا ہے کہ جب نوازشریف وزیراعظم منتخب ہوئے تو میں نے لاپتہ افراد کے حوالے سے رپورٹ پیش کی تو میاں صاحب نے کوئی جواب نہیں دیا آج میاں صاحب کو آمریت کے خلاف باتیں کرنے یاد آگئے ہم تو شروع دن سے ہی آمریت کے خلاف تھے اور آئندہ بھی ان کے خلاف جدوجہد کر تے رہیں گے1998 میں ہماری پارٹی توڑی گئی اور اب بھی ہر علاقے میں پارٹی کارکنوں کو دھمکیاں دی جا رہی ہے ۔

سردار اختر جان مینگل نے کہا ہے کہ اقتدار کا نہیں اختیارات کا بھو کا ہوں اقتدار کے بھوکوں کا لائن زرغون روڈ پر لگے ہوئے ہیں اختیارات کے بغیر نہ ملک چل سکتا ہے اور نہ ہی خوشحالی آئے گی سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر عاصمہ جہانگیر نے کہا ہے کہ یہ باتیں پہلے بھی سن چکے ہیں حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آج بھی وہی انجام ہے سانحہ8 اگست کے واقعہ نے پوری ملک کو د کھی کر دیا جمہوری نظام لانا ہے تو جمہوری رویہ رکھنا ہو گا۔

بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی جنرل سیکرٹری ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا ہے کہ سانحہ 8 اگست میں شہید ہونیوالے وکلاء کو خراج تحسین پیش کر تے ہیں اور خراج عقیدت اس لئے پیش کر تا ہوں کہ کسی شہید کے وارث نے کمزوری نہیں دکھائی ملک کے حکمرانوں پر کس طرح اعتبار کریں کہ قرآن پر لوگوں پر پہاڑوں سے اتارا اور پھر قتل کر دیا گیا ہم اگر یقین کریں تو کس طرح کریں چیف جسٹس آف پاکستان نے انصاف کی بات نہیں کی توتک کے کیس کو کھا گئے ۔

ہمارے اتحاد بھی لوگ بھی برداشت نہیں کر سکتے انہوں نے کہا ہے کہ تمام ادارے مفلوج ہو کر رہ گئے ہیں بی این پی موت کو قبول کرے گی اتحاد کو نہیں تھوڑینگے جدوجہد سے ہی ملک کے تقدیر بدل دینگے عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر اصغر خان اچکزئی نے کہا ہے کہ سانحہ 8اگست2016 تاریخ کا انتہائی دلخراش دن ہے جب معاشرے میں اہم کردار ادا کرنے والی ایک پوری نسل جو معاشرے کی آنکھ اور زبان تھی اورہمارا سرمایہ بھی تھا کو ہم سے چھین لیا گیا ۔

بلوچستان میں تعلیمی پسماندگی کسی سے پوشیدہ نہیں ہمارے وکلانے اعلی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بڑی جدوجہد کرتے ہوئے اس مقام تک کامیابی حاصل کی تھی مگر انکو ہم سے چھین لیا گیا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے سانحات کیوں بار بار پیش آتے ہیں اسکی وجہ ملک کی ناکام پالیسیاں ہیں جن کا آغاز 1948میں سانحہ بابڑہ سے ہوا اور جس کا سلسلہ آج تک جاری ہے اس دوران ہم نے وکلاء،ڈاکٹروں ،سیاستدانوں ،صحافیوں سمیت ہرشعبے سے تعلق رکھنے والوں کی لاشیں اٹھائی ہیں ہم پردہشت گردی مسلط کردی گئی ہے۔

اگریہ سلسلہ مستقبل میں بھی نہ رکا تو پھر عوام کے صبرکا پیمانہ لبریز ہوسکتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ یہ امر افسوسناک ہے کہ ہمارے وسائل پر ہمارا اختیار نہیں تمام چیزوں کا اختیارپنجاب کے پاس ہے ہمیں آج کے دن بھی ہڑتال نہ کرنے کو کہا گیا تھا لیکن بتایا جائے کہ اتنے بڑے سانحہ کے بعد بھی اگر ہم پرامن احتجاج نہ کریں تو پھر کہاں جائیں۔

بلوچستان نیشنل موومنٹ کے سربراہ ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ نے کہا ہے کہ ملک میں چھوٹے قومیتوں کو حقوق نہیں دیئے جا رہے آج بھی حالات جوں کے توں ہے پشتون وبلوچ عوام کو پسماندہ رکھنے کی کوشش کی جار ہی ے بلوچستان میں مسلسل واقعات رونما ہورہے ہیں سانحہ8 اگست کے بعد واقعات مسلسل ہو رہے ہیں دنیا کی نظریں بلوچستان پر لگی ہوئی ہے اور بلوچستان کو گیٹ وے تصور کیا جا رہا ہے ہمارے حکمرانوں نے بلوچستان کو تباہی وبربادی سے دوچار کر دیا منصوبے کے تحت کا رروائیاں ہو رہی ہے پارلیمنٹ موجود ہونے کے باوجود مسخ شدہ لاشیں مل رہی ہے 47 سے لے کر آج تک ہم قربانیاں دے رہے ہیں اگر ہم متحد ہوئے تو سانحہ8 اگست جیسے واقعات دوبارہ نہیں ہونگے ۔

بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کے رہنماء عبدالواحد بلوچ ، ہزارہ ڈیمو کریٹک پارٹی کے رضا وکیل ایڈووکیٹ ، بلوچستان ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر شاہ محمد جتوئی، جنرل سیکرٹری نادر خان چھلگری کوئٹہ بار ایسوسی ایشن کے صدر کمال خان کاکڑ، جمیل رمضان ایڈووکیٹ، علی احمد کاکڑ، نذیر بلوچ سمیت دیگر نے بھی خطاب کر تے ہوئے کہا ہے کہ وقت اور حالات کا تقاضا ہے کہ پشتون بلوچ عوام متحد ہو کر حقوق کے لئے مشترکہ جدوجہد کریں ۔