|

وقتِ اشاعت :   August 21 – 2017

کوئٹہ: امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ آئین کو چھیڑنے سے وفاق اور صوبوں کی یکجہتی کو نقصان پہنچ سکتا ہے، قومی دولت لوٹنے والے پکڑنے جانے پر کہتے ہیں کہ جمہوریت کو خطرہ ہے، حکمران من پسند تبدیلیاں کرکے آئین کو توڑمروڑ رہے ہیں ،یہ کونسی جمہوریت ہے،اداروں کو دھونس دھمکیاں دی جارہی ہیں، رہی سہی جمہوریت ختم ہوئی یا کوئی حادثہ ہوا توذمہ دار نواز شریف اور ان کا ٹولہ ہوگا۔

آئین سے صادق اور آمین کی شق ختم کرنے نہیں دینگے۔ یہ بات انہوں نے کوئٹہ کے علاقے میں جلسہ اور ریلوے دربار میرج ہال میں استقبالیہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔

اس موقع پر امیر جماعت اسلامی بلوچستان مولانا عبدالحق ہاشمی، جماعت کے دیگر عہدیداروں عبدالمتین اخوندزادہ، زاہد اختر بلوچ، مولانا عبدالکبیر ، ڈاکٹر عبدالرحمان اور قبائلی و سیاسی رہنماء نوابزادہ لشکری رئیسانی نے بھی خطاب کیا۔ 

استقبالیہ تقریب سے اپنے خطاب میں سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ بلوچستان سمیت ملک بھر آج مسائل اور مشکلات کا شکار ہے ، کوئٹہ میں پانی کا مسئلہ انتہائی سنگین ہے ، اگر یہ مسئلہ حل نہ ہوا تو ایک المیہ جنم لے سکتا ہے ، یہاں صحت، تعلیم کی سہولیات نا پید ہیں، لوگوں کے ذہنوں پر خوف طاری ہیں، بلوچستان کے نوجوانوں کے ہاتھوں میں ڈگری ہے مگر روزگار نہیں ہے ، ان نوجوانوں کی آنکھوں میں غصہ دیکھ رہا ہوں۔

سینیٹرسراج الحق نے کہا کہ نئی نسل کو دولت اور غربت کی بنیاد پر تقسیم کردیا گیا ہے، امیروں کیلئے شاندار رہائشی اسکیمیں اور تمام سہولیات ہیں، غریب کے بچے فٹ پاتھ پر ہیں، گندگی کے ڈھیر سے رزق حاصل کرتے ہیں۔امیروں کیلئے جیلوں میں بھی وی آئی پی کلچر ہے، انہیں جیلوں میں بھی دودھ اور شہد ملتا ہیاور غریب عام زندگی میں بنیادی سہولیات کیلئے ترس رہا ہے ،یہ طبقاتی نظام آئین کی خلاف ورزی ہے ، آئین کے آرٹیکل 38 کے تحت ریاست کی ذمہ داری ہے کہ ضرورت مند افراد کو ،تعلیم، صحت ،چھت اور دیگر سہولیات فراہم کریں۔ 

امیر جماعت اسلامی نے موجودہ معاشی اور طبقاتی نظام کو ملک کیلئے خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس تقسیم نے پاکستان کو دولخت کیا اور بنگلہ دیش بنا، اب باقی پاکستان کو خطرہ لاحق ہے ، انہوں نے کہا کہ آج نواز شریف کہتے ہیں کہ ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا ہے لیکن ہم کہتے ہیں کہ ملک میں غریب کے صبر کا پیمانہ لبریز ہورہا ہے۔ 

آج ہر طرف وی آئی پی کلچر ہے ، امیروں کیلئے الگ شہر بسائے جارہے ہیں ، غریبوں کے علاقوں کھنڈرات کا منظر پیش کررہے ہیں، بینک کسی غریب کو بچے کی شادی یا کسی ہنرمند کو کاروبار کیلئے دس روپے قرض نہیں دیتا لیکن ارب پتیوں کو اربوں روپے کے قرضے دیئے جاتے ہیں اور پھر معاف بھی کردیئے جاتے ہیں۔ 

سابق وزیراعظم کہتا ہے کہ آئین میں تبدیلی ہونی چاہیے ، امریکہ اور برطانیہ کے آئین میں صدیاں گزرنے کے باوجدو کوئی تبدیلی نہیں آئی، ہر حکمران آتا ہے تو آئین میں من پسند تبدیلیاں کرتا ہے،پاکستان کا آئین سب سے مظلوم آئین ہے ، جو بھی آمر آتا ہے سب سے پہلے آئین کو توڑتا اورمروڑتا ہے ، آئین میں لکھا ہے کہ آئین توڑنیو الے پر غداری کا مقدمہ ہو لیکن کئی بار آئین کو پامال کرنے والوں کو سزا دینے کی بجائے سرخ قالین پر رخصت کیا گیا۔

اب وہی آمر کہتا ہے کہ وہ ملک کے مسائل حل کرسکتا ہے ، انہیں واپس آکر عدالتوں کا سامنا کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ 73ء کا آئین صوبوں اور ملک میں بسنے والی اقوام کا متفقہ آئین ہے جس نے وفاق اور چاروں صوبوں کو متحد رکھا ہے ۔ 

 اس آئین پر ذوالفقار علی بھٹو، پروفیسر غفور، غوث بخش بزنجو، عبدالولی خان اور دیگر اکابرین کے دستخط موجود ہیں، اس متفقہ آئین کو چھیڑا تو کسی وزیراعظم کیلئے یہ ممکن نہیں ہوگا کہ وہ صوبوں اور وفاق کو اسی طرح یکجا رکھ سکیں۔ 

آئین کو تبدیل کرنے کی بجائے چہرے کو صاف اور سوچ کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ،۔ اداروں کو دھونس دھمکیاں دینے سے رہی سہی جمہوریت ختم ہوئی تو اس کی ذمہ داری وزیراعظم اور ان کے ٹولے پر عائد ہوگی۔ہمارا مقصد جمہوریت کو نقصان پہنچانا نہیں بلکہ نظام کی اصلاح ہے ، آئین کو توڑنا جمہوریت کا تقاضا نہیں، ایسے کسی اقدام کو قبول نہیں کرینگے۔

سراج الحق نے کہا کہ بڑے مگرمچھوں پر اداروں نے کبھی ہاتھ نہیں ڈالا، نوازشریف اور ان کے بیٹے نیب کے سامنے پیش نہ ہونے کا اعلان کیا، یہ اعلان اگر کوئی غریب کرتا تو سوچیئے عدالتیں ان کا کیا حشر کرتیں، یہاں غریب کیلئے الگ اور امیر کیلئے الگ نظام ہے ، ہم سب کا احتساب چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاناما لیکس میں صرف نواز شریف نہیں بلکہ 436 لوگ ہیں، سب کا احتساب چاہتے ہیں اور کرینگے، پاناما لیکس میں حاضر سروس ججز، بیوروکریٹس، سیاستدان اور غیرسیاستدان سب شامل ہیں۔ 

 ان کا محاسبہ ضروری ہے ، انہوں نے کہا کہ کہتے ہیں کہ آئین سے باسٹھ اور تریسٹھ یعنی صادق اور امین والی شق ختم ہونی چاہیے ، اس رویے پر افسوس ہے ، یہ بات صرف پاکستان ہی نہیں تمام ممالک کے آئین میں شامل ہے کہ حکمران کا باطن اور ظاہر ایک ہونا چاہیے ۔

اس کے قول و فعل میں تضاد نہ ہو، باسٹھ تریسٹھ عام آدمی کیلئے نہیں ، خود کو قیادت کیلئے پیش کرنے والوں کیلئے ہے ، اگر کوئی قوم کی قیادت کا خواہشمند ہے تو اسے صادق اور آمین ہونا چاہیے ورنہ گھر بیٹھ جائیں۔ انہوں نے کہا کہ ججز، جرنیلوں، بیوروکریٹس اور سیاستدانوں کو صادق اور امین ہونا چاہیے۔ 

صرف وزیراعظم کو ہٹانے سے تبدیلی نہیں آسکتی، نظام کی تبدیلی ضروری ہے ، اسلام آباد کو ٹھیک کرنا ہوگا، نظام کی اصلاح کی جدوجہد کررہے ہیں، نظام کی تبدیلی کی چابی اسلام آباد ہے، اسلام آباد ٹھیک ہوگا تو کوئٹہ،لاہور، پشاور سب خود ٹھیک ہوجائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ حضرت عمر خطاب سے بھی رعایا پوچھتی تھی لیکن وہ انہیں کوڑے مارتے اور نہ مارشل لاء لگاتے تھے ، وہ عوام کو جوابدہ تھے ، ہم ایسی ریاست چاہتے ہیں جہاں سب قانون کی نظر میں ایک ہو۔

ہم حضرت عمر خطاب کا عدل اور انصاف پر نظام اور ریاست مدینہ کے طرز پر اسلامی فلاحی نظام اس ملک میں لانا چاہتے ہیں۔ سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ ملک میں مالی، اخلاق اور نظریاتی کرپشن نقصان پہنچارہا ہے ، قرآن ہی ہمارا دستور ہے ، قائداعظم کی رحلت کے بعد حکمرانوں نے تحریک پاکستان کی قربانیوں کو پس پشت ڈالا اور قائداعظم کے وژن کے ساتھ غداری کی گئی ،اب ملک کو سیکولر بنانے کی باتیں ہورہی ہیں۔ 

اگر پاکستان کو سیکولر ہی بنانا ہوتا تو انگریزوں سے کیوں آزادی لی گئی، انگریز تو سیکولر ازم اور جمہوریت کے استاد ہیں، اگر اسلامی نظام نہیں لانا تو سیکولر ازم کیلئے تو بھارت آج بھی موجود ہے۔ 

جنہیں پاکستان میں اسلامی نظام قبول نہیں وہ بھارت جاسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکمرانوں نے ایمل کاسی، عافیہ صدیقی کو امریکہ کے حوالے کرکے قومی خود مختاری کا سودا کیا۔

دریں اثناء سملی میں جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے کہاکہ نواز شریف کو نااہل کیاگیا تو کہاگیا سب ادارے غلط ہیں۔ ڈائیلاگ ملک میں کرپشن کے خاتمے کیلئے ہونا چاہیے،کسی ایسے ڈائیلاگ کو نہیں مانیں گے جو کرپشن کوتحفظ دیتا ہو۔ 

انہوں نے کہاکہ پاکستان کی سیاست کو چند خاندانوں نے یرغمال بنارکھاہے ان خاندانوں کو عالمی اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی حاصل ہے اور یہ غریب عوام کی عزت اور پیسے کو اپنے لیے حلال سمجھتے ہیں ۔

ان کے اثاثوں اور کارخانوں میں ہونے والے بے تحاشا اضافہ کے بارے میں کوئی پوچھ لے تو یہ سیخ پا ہو جاتے ہیں ۔ جب ہم احتساب کی بات کرتے ہیں تو یہ چیخنے چلانے لگتے ہیں کہ جمہوریت کو خطرہ ہے ۔ انہوں نے کہاکہ جمہوریت کو احتساب سے نہیں کرپشن اور لوٹ مار کے نظام سے خطرہ ہے جو حکمرانوں نے مسلط کر رکھاہے ۔

انہوں نے کہاکہ لا الہ الا اللہ کی بنیاد پر بننے والے پاکستان کو قومیتوں ، مسلکوں اور علاقوں کی بنیاد پر تقسیم کیا جارہاہے اور اسی کرپشن کا نتیجہ ہے کہ ملک میں سودی نظام ، طبقاتی نظام تعلیم ہے اور غریب بنیادی ضروریات زندگی سے محروم ہیں ۔

انہوں نے کہاکہ کسی فرد کو یہ حق نہیں دیا جاسکتا کہ وہ اپنی مرضی کا قانون بنائے اگر کوئی صادق اور امین نہیں بن سکتا تو اسے اسمبلی کا رکن اور وزیر بننے کا بھی حق نہیں ۔ وفاقی وزاء کہتے ہیں کہ باسٹھ تریسٹھ آئین میں تجاوزات ہیں ۔ 

کل کو یہ پورے آئین کو لپیٹ دینے کا مطالبہ کریں گے ۔ انہوں نے کہاکہ کوئی بھی صاحب اختیار آئین سے بالاتر نہیں ۔ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ نوازشریف کی نااہلی کے بعد رات گئی بات گئی والا معاملہ ہوگیاہے ، انہیں بتانا چاہتے ہیں کہ احتساب کی یہ تحریک آخری چور اور لٹیرے کے پکڑے جانے تک جاری رہے گی اور وہ وقت دور نہیں جب عوام کا ہاتھ کرپٹ مافیا کے گریبانوں تک پہنچے گا ۔

ہم بنکوں سے قرضے لے کر ہڑپ کرنے ، آف شور کمپنیاں بنانے اور پانامہ لیکس میں موجود دیگر 436 ملزموں کے احتساب کی جنگ عدالتوں ، ایوانوں اور ملک کے گلی کوچوں میں لڑیں گے ۔ 

پاکستان کو ہر طرح کی کرپشن سے پاک کرنے اور اپنی آئندہ نسلوں کو محفوظ اور خوشحال پاکستان دینے کے لیے 21اگست کو اسلام آباد میں کرپشن فری پاکستان تحریک کے آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کروں گا۔