کوئٹہ: بلوچستان ہائیکورٹ نے ٹریفک سرجنٹ سرجنٹ کوگاڑی سے کچلنے کے کیس میں گرفتار ایم پی اے مجیداچکزئی کی درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔تفصیلات کے مطابق پبلک اکاؤنٹس کمیٹی بلوچستان کے چیئرمین عبدالمجید اچکزئی کی درخواست ضمانت کی سماعت اس سے قبل بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس محمد نور مسکانزئی اور جسٹس ہاشم خان پر مشتمل دو رکنی بنچ نے کی تھی۔
چیف جسٹس بلوچستان نے ضمانت مسترد جبکہ بنچ کے دوسرے رکن جسٹس ہاشم خان نے درخواست ضمانت دو لاکھ روپے مچلکوں کے عیوض منظور کرلی تھی۔ فیصلہ ٹائی ہونے پر کیس کو ہائی کورٹ کے ریفری جج کے سپرد کر دیا گیا ۔ پیر کوبلوچستان ہائی کورٹ کے ریفری جج جسٹس محمداعجاز سواتی نے درخواست ضماعت کی سماعت کی۔
اس موقع پر سرکار کی جانب سے پراسکیوٹر جنرل بلوچستان امیر زمان جوگیزئی جبکہ رکن اسمبلی کی جانب سے نصیب اللہ ترین ایڈووکیٹ پیش ہوئے۔ مجید اچکزئی کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ ٹریفک حادثے کے کیس میں دہشت گردی ایکٹ کی دفعات کا اطلاق نہیں ہوتا۔ یہ محض ٹریفک حادثہ تھا لیکن مقدمے میں دہشت گردی کی دفعات تفتیش مکمل کئے بغیرشامل کی گئیں۔
ایم پی اے پر صرف قتل خطاء کی دفعات 319اور320 کااطلاق ہوتا ہے جو قابل ضمانت ہے۔ ہم نے ٹرائل کورٹ میں بھی درخواست دائر کررکھی ہے کہ وہ بلا جواز دفعات خارج کریں۔ انہوں نے کہا کہ مجید اچکزئی کے پاس ڈرائیورنگ لائسنس تھا لیکن معیاد ختم ہوگئی تھی ، ڈرائیورنگ لائسنس کا نہ ہونا جرم ہے لیکن تجدید نہ کرانا جرم نہیں غفلت ہے ،رمضان کے روزے اور افطار کا وقت تھا، گاڑی کے کلچ کی بجائے پاؤں ایکسلیٹرپر آسکتا ہے ،، مختلف وجوہات حادثے کا سبب بن سکتی ہے ۔
اس موقع پر جسٹس محمد اعجاز سواتی نے کہا کہ روزہ تو سب کا ہوتا ہے ، ڈیوٹی پر موجود ٹریفک اہلکار کا بھی روزہ ہوگا۔نصیب اللہ ترین نے کہا کہ مجید اچکزئی کوئی عام شخص نہیں بلکہ پارلیمنٹرین اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین ہیں ، کیس کو اس لئے پیچیدہ بنایا گیا کیونکہ مجید اچکزئی بحیثیت چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی بہت سی بد عنوانی سے پردہ اٹھارہے تھے۔
اس موقع پر جسٹس اعجاز سواتی نے استفسار کیاکہ اس بات کے کیا شواہد ہے کہ گاڑی مجید اچکزئی چلارہے تھے ۔ پراسکیوٹر جنرل نے عدالت کو بتایا کہ گن مین، حادثے کا شکار ہونیوالی دوسری گاڑی کا ڈرائیور ، موٹر سائیکل سواراور پولیس اہلکار چشم دید گواہ ہیں ۔ پراسیکورٹر جنرل بلوچستان امیر زمان جوگیزئی نے رکن بلوچستان اسمبلی کی درخواست ضمانت کی مخالفت کی۔ دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔