|

وقتِ اشاعت :   August 23 – 2017

کوئٹہ: بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی سینئر نائب صدر ملک عبدالولی کاکڑ نے کہا ہے کہ موجودہ صوبائی ناکام حکومت کے کچھ لوگ سوشل میڈیا پر پارٹی کے خلاف غلط وبے بنیاد پروپیگنڈہ کررہے ہیں جس کی مذمت کر تے ہیں پارٹی ملک میں قانون اور آئین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے پرامن سیاسی جمہوری جدوجہد کر تے ہوئے دیگر جماعتوں کے ساتھ اپنا کردار ادا کر رہی ہے ۔

افسوس کیساتھ کہنا پڑ ھ رہا ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے سے پارٹی قیادت سمیت دیگر رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف مختلف حیلے بہانوں سے اقدامات کر کے انہیں مسائل میں الجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور پارٹی کے مینڈیٹ کو 2013 کی انتخابات کی طرح آئندہ بھی چھیننے کی کوشش کی جا رہی ہے اگر پارٹی کی جدوجہد کسی کو پسند نہیں تو اس پر پابندی عائد کر دی جائے اور اس کے بعد نوجوانوں نے کوئی دوسرا راستہ اختیار تو اس میں پارٹی کا کوئی عمل دخل نہیں ہو گا۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے منگل کو کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کے دوران کیا اس موقع پر پارٹی کے رہنماء آغا حسن بلوچ ایڈووکیٹ، ملک نصیر احمد شاہوانی، منظور بلوچ،موسیٰ بلوچ، ساجد ترین ایڈووکیٹ، ، غلام نبی مری ، بہادر مینگل ، جمال لانگو سمیت دیگر بھی موجود تھے ۔

ان کا کہنا تھا کہ بی این پی کو دیوار کیساتھ لگانے کی ہرممکن کوشش کی جا رہی ہے لیکن عوام میں بڑتی ہوئی مقبولیت کی وجہ سے وہ پوری طرح ناکام ہوچکے ہیں اور اپنی ناکامی کو چھپانے کے لیے پارٹی کیخلاف پروپیگنڈہ کررہے ہیں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 260 پر ضمنی انتخابات میں یہ قوتیں ناکام ہوچکی ہیں او رعوام ان سے اپنی بیزاری کا اظہار کرچکے ہیں ۔

پہلے ہمارے لوگوں کو غائب کردیا جاتا ہے اور اسکی ایف آئی آر تک درج نہیں کی جاتی تھی اور اب ہمارے سینئر دوستوں کی ٹارگٹ کلنگ شروع کردی گی ہے جس میں ہمارے بہت سے سینئر رہنما اور کارکن شہید ہوچکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 2013 کے انتخابات میں ہمارے مینڈیٹ کو چرایاگیا ملک بھرمیں الیکشن ہوئے مگر بلوچستان میں پارٹی کا راستہ روکنے کے لیے یہاں الیکشن کی بجائے سلیکشن کی گئی ۔

انہوں نے کہا کہ بی این پی کے دوستوں کو مختلف طریقوں سے حراساں آپریشن کے نام پر چادروچاردیواری کے تقدس کو پامال کیا اور پارٹی ورکروں کو اشتعال دلانے کیلئے کی کوششیں کی جارہی ہیں یہاں تک کہ پارٹی قائد، رہنماؤں اور کارکنوں کو قبائلی تنازعات میں الجھانے کی کوشش کی جارہی ہے مختلف ذرائع سے پارٹی کارکنوں کو پارٹی چھوڑنے پر مجبور کیاجارہا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ مخلوط صوبائی حکومت پارٹی کی جدوجہد سے خوف زدہ ہے اور خضدار ووڈھ کوئٹہ نوشکی سمیت صوبے کے مختلف علاقوں میں پارٹی کارکنوں کو بلا کر انہیں پارٹی چھوڑنے پر مجبورکیا جارہا ہے اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں انہیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جارہی ہیں ہم ملک کے اصل حکمرانوں اور مقتدرہ قوتوں سمیت سب پر یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ہمارے کارکنوں کو خوف زدہ کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے ۔ 

اگر کسی کو ہماری سیاست اور جماعت پسند نہیں ہے تو اس کا واضح اظہار کرے سردار اختر مینگل اور بی این پی پراسی طرح پابندی لگائی جائے جس طرح ماضی میں نیپ اور دوسری جماعتوں پر پابندی لگائی جاتی رہی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ یہ ہمارے ملک کا المیہ ہے کہ مقتدر قوتوں کی مرضی سے سیاست کرنے والوں کو وفادار سمجھا جاتا رہا ہے ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ہم صرف اپنے عوام اور سرزمین کی جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں بی این پی اور اس کے قائد سردار اختر جان مینگل اپنی اس نظریاتی جدوجہد پر کسی قسم کی کوئی سودا بازی نہیں کرینگے ۔

انہوں نے کہا کہ ہم جمہوری لوگ ہیں پارٹی کے لیے پارلیمنٹ کے راستہ بند کرنے کیلئے پارٹی کارکنوں کو مقتدر قوتوں کی جانب سے پارٹی چھوڑنے پر مجبور کرنے کی مذمت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ پارٹی کے خلاف ہونے والے اقدامات میں صوبائی حکومت بھی شامل ہے مخلوط صوبائی حکومت میں شامل جماعتوں کو ضمنی انتخابات میں اپنی مقبولیت کااندازہ ہوگیا ہے جس کی وجہ سے وہ پارٹی کے خلاف کاروائیوں میں شامل ہیں۔

بی این پی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات آغا حسن بلوچ نے کہا کہ 2018 کے انتخابات قریب ہیں ان حالات میں صوبے کے مختلف علاقوں میں ایک ادارے کے ذمہ داروں کی جانب سے پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں کو بلاکر پارٹی چھوڑنے پر مجبور کرنا اور عوام کو پارٹی سے دوررکھنے کی کوششیں قابل مذمت عمل ہیں۔

ہم سیاسی جمہوری جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں مگر 2013 میں انتخابات میں پارٹی کے مینڈ یٹ کوچرانے اور ضمنی انتخابات میں دھاندلی کرنے والے آئندہ انتخابات میں پارٹی کو جمہوری عمل سے دوررکھنا چاہتی ہیں ہم اسی قوتوں سے کہتے ہیں کہ ایسے اقدامات کی بجائے پارٹی پر پابندی لگا دی جائے اور اس کے بعد اگر نوجوانوں نے کل جدوجہد کا کوئی دوسرا رستہ اختیار کیا تو اسکی ذمہ دار بھی وہی نادیدہ قوتیں ہونگی جو پارٹی کارکنوں کو پارٹی چھوڑنے پر مجبور کررہی ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ ریاست کے اداروں کو سیاست سے دور رہنا چاہیے تاکہ ملک میں سیاسی اور جمہوری عمل مستحکم ہو کیونکہ سیاستدانوں کا کام سیاست کرنا اور عوام کا کام اپنے نمائندوں کو اپنے ووٹ سے منتخب کر کے ایوان میں بھیجنا ہے تاکہ وہ قانون سازی کر کے ان کے مسائل کو حل کریں۔