|

وقتِ اشاعت :   August 26 – 2017

کوئٹہ: پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین مجید خان اچکزئی نے کہا ہے کہ گوادر میں 31 ہزار167 ایکڑ اراضی موجود ہ دور میں الٹ کی گئی ہے اس کی تحقیقات ہونی چاہئے گوادر بلوچ عوام کی ملکیت ہے کسی بھی وزیر یا وزیراعلیٰ کی ملکیت نہیں ہے جب گوادر میں بلوچ عوام نہیں ہونگے تو سی پیک کا کوئی فائدہ نہیں ملے گا گوادر اراضی سے متعلق ریکارڈ طلب کر لیا گیا ۔

کمشنر آفس میں جو خرد برد ہوئی ہے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اس کی تحقیقات کر رہی ہے میرے اطلاعات کے مطابق 55 ارب روپے میں سے 42 ارب روپے 12 دن میں نکالے گئے ہیں پارٹی چیئرمین کا مجھے مکمل تعاون حاصل ہے کہ کرپشن والے کسی کو نہ بخشا جائے مجھے اپنی پارلیمانی پارٹی کی کوئی سپورٹ حاصل نہیں ہے سابقہ اور موجودہ حکومت میں وزراء اور اراکین اسمبلی نے مینٹس کی مدمیں اربوں روپے نکالے گئے ہیں جس کا زمین پر کوئی حقائق نہیں ہے ۔

9 ماہ میں حکومت نے ترقیاتی فنڈز کے نام پر 1 ارب روپے جبکہ12 دن میں42 ارب روپے نکالے ہیں جو پیمراکا رول ہے ان کا مزاق اڑا یا گیا ہے اور واٹر مینجمنٹ میں ایک دن میں ڈھائی ارب روپے نا لیوں اور تالاب کی مد میں نکالے گئے ہیں ان تمام ترحالات کو مد نظر رکھ کر سخت فیصلے کئے جائیں گے پی پی ایچ آئی میں جو کرپشن ہوئی ہے اس کا آڈٹ کیا جائے عید کے بعد سیکرٹری صحت اور سیکرٹری خزانہ پی پی ایچ آئی کے متعلق اجلاس بلائیں اگر وہ بات نہیں مانتے تو پی پی ایچ آئی کی فنڈز منجمدکئے جائے ایم ایس ڈی میں بھی ہر سال کروڑوں روپے کی ادویات خریدی جاتی ہے مگر وہ ادویات قابل استعمال نہیں ہے ایک ہی شخص ساڑھے چارسال سے چلا رہے ہیں ۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کر تے ہوئے کیا اس سے قبل پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس ہوا اجلاس میں پشتونخوامیپ کے پارلیمانی لیڈر عبدالرحیم زیارتوال، اراکین اسمبلی سید لیاقت آغا، انیتا عرفان، اکاؤنٹس جنرل بلوچستان نصراللہ خان، آڈٹ جنرل محمود احمد، بختیار احمد سمیت دیگر اعلیٰ حکام بھی موجود تھے ۔

اجلاس سے خطاب کر تے ہوئے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین مجید خان اچکزئی نے کہا ہے کہ کافی عرصے کے بعد پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس ہو رہا ہے اور آڈٹ کی ٹیمیں کام کر رہا ہے میرے ساتھ جو کچھ ہوا ان کا پی اے سی سے کوئی تعلق نہیں ہے کرپشن کے خلاف خاموش نہیں رہونگا اور نہ ہی کسی کے خلاف آڈٹ کے معاملے پر انتقامی کا رروائی کا کوئی ارادہ ہے بلکہ آڈٹ ٹیمیں اپنی مرضی سے آڈٹ کر رہے ہیں جو بھی ملوث پایا گیا ان کو معاف نہیں کیا جائیگا ۔

انہوں نے کہا ہے کہ پی پی ایچ آئی اگر آڈٹ کے معاملے پر عدالت گئی ہے تو فنڈز بلوچستان حکومت کا استعمال کر رہے ہیں پی پی ایچ آئی کے چیئرمین کو ایک ہفتے کے اندر اندر ٹرانسفر کیا جائے اورآڈٹ رپورٹ دی جائے حکومت سے اس سال50 کروڑ روپے مانگے گئے کیا اس کا آڈٹ نہ کیا جائے ملتی نیشنل کمپنیاں بھی جب صوبے میں فنڈز خرچ کر تی ہے تو وہ بھی آڈٹ کے پابند ہے ۔

انہوں نے کہا ہے کہ پی پی ایچ آئی کے معاملے پر سیکرٹری صحت اور سیکرٹری خزانہ کو عید کے بعد پابند بنایا جائے کہ اگر پی پی ایچ آئی کے حکام بات نہیں مانتے تو ان کے فنڈز کے منجمد کئے جائے انہوں نے کہا ہے کہ ایم ایس ڈی میں جو معاملات چل رہے ہیں وہ بھی نا قابل برداشت ہے ادویات قابل استعمال نہیں اور ہر سال 75 کروڑ روپے کی ادویات آتی ہے مگر کسی کو کوئی فائدہ نہیں ہوا اور ساڑھے چار سال سے ایک شخص سے ایم ایس ڈی کو چلایا جا رہا ہے ۔

انہوں نے کہا ہے کہ 7 ستمبر تک محکمہ فنانس اور محکمہ صحت کو پابند کریں کہ ساڑھے چار سال میں پی پی ایچ آئی میں جو کچھ ہوا ہے اس کا ریکارڈ دیا جائے سندھ سے جو ادویات منگوائی جار ہی ہے وہ بھی قابل استعمال نہیں ہے میڈیسن یہاں کے سب سے بڑا مسئلہ ہے ادویات آبادی کی بنیاد پر دیا جائے مشینری اور دیگر پرچیسز کی مد میں کروڑوں روپے کا اسکینڈل آیا ہے ہماری بد قسمتی ہے کہ صوبے کو بلیک لسٹ کمپنیوں سے نہیں بچایا جا سکتا تو اور کیا کر سکتے ہیں