|

وقتِ اشاعت :   August 26 – 2017

کوئٹہ :  بلوچستان اسمبلی کا اجلاس سپیکر راحیلہ حمیدخان درانی کی زیر صدارت ایک گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہوا ۔ا جلاس میں جمعیت علماء اسلام کی شاہدہ رؤف نے قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ صوبے کی مختلف شاہراہوں پر تیز رفتاری و دیگر وجوہات کی بناء پر آئے روز ٹریفک حادثات رونما ہورہے ہیں جس کے باعث قیمتی جانوں کا ضیاع ہورہا ہے۔

قرار داد میں صوبائی حکومت سے سفارش کی گئی تھی کہ وہ وفاقی حکومت سے رجوع کرے کہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی صوبہ میں صوبائی محکمہ ٹرانسپورٹ کے تعاون سے ان جان لیوا ٹریفک حادثات کی روک تھام کے سلسلے میں عملی اقدامات اٹھاتے ہوئے فوری طور پر مسافر بسوں و دیگر گاڑیوں کے لئے رفتار کا تعین کرتے ہوئے چیک اینڈ بیلنس کا نظام متعارف کرائے تاکہ مستقبل میں صوبہ کے مختلف شاہراہوں پر ٹریفک حادثات پر قابو پایاجاسکے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی قومی شاہراہوں پر آئے روز حادثات ہورہے ہیں کوئی قومی شاہراہ محفوظ نہیں ہے مسلسل پیش آنے والے واقعات کے باوجود ایسے حادثات کی روک تھام کے لئے نہ تو کوئی اقدامات کئے جارہے ہیں اور نہ ہی قیمتی انسانی جانوں کو بچانے کے لئے انتظامات کئے گئے ہیں این ایچ اے موٹروے پولیس اور محکمہ ٹرانسپورٹ فعال نظر نہیں آرہے بسوں کی حالت ٹھیک نہیں ہے ۔

انہوں نے تجویز دی کہ ڈرائیوروں کے لائسنس کو چیک کیاجائے انہیں آرام کا موقع دیا جائے تیز رفتاری کو روکنے کے لئے اقدامات ہونے چاہئیں تیز رفتاری روکنے کے لئے کیمرے لگائے جائیں ۔ نیشنل پارٹی کی ڈاکٹر شمع اسحاق نے کہا کہ دوران ڈرائیونگ اکثر اوقات ڈرائیور موبائل فون استعمال کرتے ہیں جو حادثات کا باعث بنتے ہیں۔

انہوں نے زور دیا کہ قومی شاہراہوں پر تیز رفتاری کی روک تھام کے ساتھ پرانی بسوں اور کم عمر بچوں کی ڈرائیونگ پر پابندی عائد کی جائے ۔نیشنل پارٹی کی یاسمین لہڑی نے کہا کہ موثرا قدامات نہ ہونے کی وجہ سے قومی شاہراہوں پر حادثات کا سلسلہ نہیں رک رہا یہ اہم عوامی نوعیت کا مسئلہ ہے خاص طور پر کوچز کے ڈرائیوروں کی اہلیت کو چیک کیاجائے انہیں آرام کا موقع دیاجائے اور اس حوالے سے موجود قوانین پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے ۔

صوبائی وزیر تعلیم عبدالرحیم زیارتوال نے کہا کہ صوبے میں جو نئی قومی شاہراہیں بنی ہیں یا جو بن رہی ہیں ان پر تیز رفتاری کے باعث حادثات کے واقعات بڑھ گئے ہیں این ایچ اے کی ذمہ داری ہے کہ وہ حادثات کی روک تھام کے لئے اسی طرح اقدامات کرے جس طرح دوسرے صوبوں میں کئے جاتے ہیں ۔

قومی شاہراہوں پر پٹرولنگ ‘تیز رفتاری کرنے والوں کو جرمانے کئے جائیں اسی طرح صوبائی محکمہ ٹرانسپورٹ بھی اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرے دوران سفر ڈرائیوروں کی جانب سے موبائل فون کے استعمال کو سختی سے روکا جائے ۔اگر اس سلسلے میں مزید قانون سازی کی ضرورت ہے تو کی جائے جو قوانین موجود ہیں ان پر سختی سے عمل کیا جائے ۔

انہوں نے کہا کہ پٹرولنگ سسٹم سے ہی حادثات پر قابو پایاجاسکتا ہے۔ جمعیت العلماء اسلام کے سردار عبدالرحمان کھیتران نے کہا کہ ہمارے ہاں ایک جانب تو اکثر قومی شاہراہوں کی حالت خراب ہے دوسری جانب ٹریفک کے قوانین پر عملدرآمد بھی پوری طرح سے نہیں ہورہا قومی شاہراہوں پر واقع چند شہروں میں ٹریفک اہلکارکہیں کہیں نظر آتے ہیں جبکہ پوری شاہراہ پر نہ تو عملہ نظرآتا ہے اور نہ ہی چیکنگ کا کوئی نظام موجود ہے اس حوالے سے قانون سازی کی ضرورت ہے ۔

صوبائی وزیر ڈاکٹر حامد خان اچکزئی نے کہا کہ حادثات کی روک تھام کے لئے موٹر وے پولیس کو اقدامات کرنے ہوں گے پوری دنیا میں ڈرائیور پڑھے لکھے ہوتے ہیں مگر ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے اس لئے ہمارے ڈرائیور بغیر کسی امتحان کے لائسنس حاصل کرلیتے ہیں کسی دورمیں ہمارے ہاں بغیر لائسنس اور گاڑی کے کاغذات کے سڑک پر آنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا گاڑیوں کی سالانہ چیکنگ ہوتی تھی مگر اب ایسا کچھ نہیں کم عمر بچے بھی گاڑیاں چلاتے نظرآتے ہیں ۔

انہوں نے زور دیا کہ قومی شاہراہوں پر حادثات کی روک تھام کے لئے موٹر وے پولیس کو اقدامات کرنے ہوں گے۔پشتونخوا میپ کے سید لیاقت آغا نے کہا کہ ٹریفک کے قوانین تو موجود ہیں مگر بدقسمتی سے ان پر عمل نہیں ہورہا عملدرآمد کو یقینی بنانا ہوگا۔ ایوان نے یہ قرار داد متفقہ طور پر منظور کرلی ۔

اس موقع پر پینل آف چیئرمین کے رکن منظوراحمدکاکڑ نے کہا کہ یہ اہمیت کی حامل قرار داد ہے انہوں نے ہدایت کی کہ سیکرٹری ٹرانسپورٹ اور سیکرٹری نیشنل ہائی وے کو اس سلسلے میں باقاعدہ ایک لیٹر لکھا جائے تاکہ بیٹھ کر اس حوالے سے کی جائے اور قوانین پر موثر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے نیزسیکرٹری ٹرانسپورٹ آگاہی مہم چلائیں تاکہ ٹریفک قوانین سے متعلق عام عوام کو آگاہی دی جاسکے۔

اجلاس میں نیشنل پارٹی کی خاتون رکن یاسمین لہڑی نے تمام ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز میں دارالامان کے قیام سے متعلق قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ صوبے کی وہ مظلوم خواتین جو پدر سری نظام کے باعث گھریلو تشدد کا شکار ہوجاتی ہیں یا گھروں سے بے دخل کیجاتی ہیں یا پھر ان کے لئے ایسے حالات پیدا کئے جاتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی کے تحفظ کے لئے دارالامان جیسے اداروں میں پناہ لینے پر مجبور ہوجاتی ہیں ۔ کے لئے سبی سمیت دیگر اضلاع میں دارالامان جیسے ادارے کا قیام تاحال عمل میں نہیں لایاگیا ہے۔ 

قرار داد میں صوبائی حکومت سے سفارش کی گئی کہ وہ صوبے کے تمام ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز میں دارالامان کے قیام کو یقینی بنائے تاکہ تشدد کا شکار ہونے والی مظلوم خواتین کو ریلیف ملنا ممکن ہوسکے۔انہوں نے قرار داد کی موزونیت پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں نیم جاگیرداری کا نظام ہے یہاں خواتین کو ریلیف دینے کے لئے ادارے بہت کم ہیں بالخصوص وہ خواتین جو مختلف حوالوں سے مسائل و مشکلات کا شکار ہوتی ہیں ان متاثرہ خواتین کے لئے ضلع کی سطح پر یا ڈویژن کی سطح پر کوئی ایسا ادارہ موجودہ نہیں جہاں ایسی متاثرہ خواتین کو ریلیف دیاجائے ۔ 

انہوں نے کہا کہ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے جہاں ایک ضلع سے دوسرے ضلع کے مابین فاصلہ بہت زیادہ ہوتا ہے واشک یا موسیٰ خیل کی ایک خاتون کے لئے کوئٹہ آنابہت مشکل ہوتا ہے کوئٹہ میں جو دارالامان ہے اس کی حالت بھی انتہائی خراب ہے کہ شاید میں یہاں اسے بیان نہ کرسکوں انہوں نے کہا کہ دارالامان کوئٹہ میں جو خواتین پناہ کے لئے آتی ہیں انہیں صرف چھت دیا جاتا ہے دیگر سہولیات نہیں وہاں نہ تعلیم کی سہولت ہے نہ صحت کی سہولت دستیاب ہے آنے والی خواتین کو ہنر سکھانے کا بھی کوئی بندوبست نہیں ۔

نوعمر لڑکیاں جو وہاں آتی ہیں ان کی حالت ناقابل بیان ہے دارالامان کوئٹہ کی حالت کو بہتر بنایاجائے ہر ضلع پر دارالامان قائم کرنے کی ضرورت ہے مگر چونکہ وسائل کی کمی ہے اس لئے کم از کم ہر ڈویژن کی سطح پر دارالامان کا قائم عمل میں لانا چاہئے تاکہ متاثرہ خواتین کی مشکلات کوکم کیا جاسکے۔پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے عبدالمجیدخان اچکزئی نے چیئرمین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ اس حوالے سے رولنگ دیں ہمیں بہت بڑا دارالامان نہیں چاہئے مگرہر ضلع میں پانچ سے چھ کمروں پر مشتمل دارالامان قائم ہونا چاہئے یہ وقت کی ضرورت ہے دارالامان اتنا ضروری نہیں جس قدر دارالامان میں ہنر سکھانا ضروری ہے اس حوالے سے آپ رولنگ دیں کہ اگلی پی ایس ڈی پی میں ہر ضلع میں د ارالامان قائم کرنے کا منصوبہ شامل کیا جائے ۔

انہوں نے کہا کہ دنیا میں جیل کے بارے میں جو تصور ہے وہ اصلاح کا ہے مگر ہم اب بھی اسے سزا کے معنوں میں لیتے ہیں جیلوں کی صورتحال انتہائی خراب ہے کوئٹہ دارالامان میں گنجائش نہیں ہے اور وہاں کی عورتیں بچوں کے ساتھ جیل میں ہیں ۔

نیشنل پارٹی کی ڈاکٹر شمع اسحاق نے کہا کہ تشدد کا شکار ہونے والی خواتین کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے کہ جہاں وہ جاسکیں پورے صوبے میں ایک درالامان ہے وہاں پہ بھی خواتین کے لئے کوئی سہولیات نہیں انہوں نے زور دیا کہ ہر ضلع میں ایک دارالامان قائم ہونا چاہئے صوبائی وزیر تعلیم عبدالرحیم زیارتوال نے قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ڈویژنل سطح تک دارالامان کے قیام کی حمایت کرتے ہیں تاہم اضلاع کی سطح پر ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ہم کیا کرسکتے ہیں بعدازاں یہ قرار داد بھی منظور کرلی گئی ۔

اجلاس میں پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرتے ہوئے جے یوآئی کی رکن شاہدہ رؤف نے کہا کہ زرعی یونیورسٹی پشاور میں گزشتہ دنوں داخلوں کا اعلان ہوا تھا جس میں بلوچستان کے طلبہ کے لئے بھی بیس فیصد کوٹہ مختص کیا گیا تھا مگربلوچستان میں ایف ایس سی کا رزلٹ مذکورہ اشتہار کی اشاعت کے بعد آیا ہے اس سلسلے میں متعلقہ حکام سے بات کرکے بلوچستان کے طلبہ کے داخلوں کو یقینی بنایا جائے صوبائی وزیر تعلیم عبدالرحیم زیارتوال نے انہیں یقین دلایا کہ اس سلسلے میں جہاں تک ممکن ہوگا ہم اپنی کوششیں کریں گے اس سلسلے میں خیبرپشتونخواحکومت اور متعلقہ حکام سے بھی بات کریں گے۔

اجلاس میں نیشنل پارٹی کی یاسمین لہڑی نے اپنی توجہ دلاؤ نوٹس پیش کرتے ہوئے کہا کہ پٹ فیڈر پراجیکٹ جس کی توسیع اور بحالی پر جو کام نامکمل اور غیر معیاری تھا اس کے لئے قائمہ کمیٹی اور محکمے کے ذمہ دار افسروں نے مذکورہ فیلڈ کا دورہ کرکے جائزہ رپورٹ پیش کی اور اس پراجیکٹ کو عوامی مفاد عامہ کے لئے قائم کمیٹی کی رپورٹ میں شامل کرکے سفارشات ایوان میں پیش کی تھیں جن کی ایوان نے متفقہ طور پر منظوری دی تھی محکمے نے اس سلسلے میں کیا عملی اقدامات کئے ہیں اس کی تفصیل سے آگاہ کیا جائے ۔

صوبائی وزیر تعلیم عبدالرحیم زیارتوال نے کہا کہ چونکہ متعلقہ محکمے کے وزیر اس وقت موجود نہیں لہٰذا اس نوٹس کو آئندہ اجلاس کے لئے موخر کیا جائے تاکہ بہتر انداز میں جواب آسکے ۔یاسمین لہڑی نے زور دیا کہ چونکہ یہ سنگین نوعیت کامسئلہ ہے اس پہ تاخیر نہ کی جائے مسلم لیگ (ن) کے محمدخان لہڑی نے بھی ان کی حمایت کی جس پر اجلاس کی صدارت کرنے والے چیئرمین آف پینل کے رکن منظور احمدکاکڑ نے کہا کہ چونکہ متعلقہ وزیر ایوان میں موجود نہیں اس لئے انہوں نے سیکرٹری ایریگیشن کو ہدایت کی کہ وہ تیس اگست کے اجلاس میں رپورٹ پیش کرے۔

اجلاس میں عوامی نیشنل پارٹی کے انجینئرزمرک خان اچکزئی نے پوائنٹ آف آرڈر پر پوچھا کہ انہوں نے تحریک استحقاق جمع کرائی وہ آج کے ایجنڈے پر کیوں نہیں ۔

جس پر سپیکر راحیلہ حمیدخان درانی نے انہیں بتایا کہ ان کی تحریک قواعد کے مطابق نہیں تھی جس کی وجہ سے آج کے اجلاس میں یہ شامل نہیں جس پر انجینئرزمرک خان اچکزئی نے پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرتے ہوئے کہا کہ تین مئی2017ء کو قلعہ عبداللہ میں ایک قبائلی شخصیت کا قتل ہوا اور اگلے روز قتل کی خبر کے ساتھ ایف آئی آر میں نامعلوم افراد کو نامزد کئے جانے کی خبر شائع ہوئی اس روزمیں اسلام آباد اور میرا کزن سینیٹرداؤد خان اچکزئی سینٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی کے اجلاس کے سلسلے میں گوادر میں موجود تھے مگر واقعے کے کئی روز بعد 9مئی کو ایف آئی آر میں میرا اور سینیٹر داؤد خان کا نام شامل کیا گیا ۔

ہمارے نام بغیر کسی تفتیش کے شامل کئے گئے ایسی چیزوں کو دیکھنا ہوگا اور ان کی روک تھام کو یقینی بنانا ہوگا ۔اگر چہ قانون موجود ہے کہ کوئی بھی شخص ایف آئی آر درج اور کسی کو نامزد کرسکتا ہے مگر دیکھنا ہوگا کہ جو لوگ غلط اور بے بنیاد ایف آئی آر درج کراتے ہیں ان کے خلاف کیا کارروائی کی جاسکتی ہے میرا نام ایف آئی آر میں درج کئے جانے سے میرا استحقاق مجروح ہوا اس قسم کے اقدامات کا مقصد ہمیں کام سے روکنا اور دوسرے مسائل میں الجھا نا ہے۔

میرے خلاف پہلے بھی قتل کے مقدمات درج ہوتے رہے ہیں جن سے ہم مرعوب ہونے والے نہیں ہم باچاخان کے پیروکار اور عدم تشدد پر یقین رکھتے ہیں ہم منتخب عوامی نمائندے ہیں مگر بلا جوازمقدمات درج کرانے کے سلسلے کی روک تھام اور حوصلہ شکنی ہونی چاہئے ۔ 

جمعیت کے سردار عبدالرحمان کھیتران نے ان کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ میرے خلاف بھی ایسے بے شمار ایف آئی آر درج ہوچکے ہیں اور آج تک میں ان کا سامنا کررہا ہوں انہو ں نے زور دیا کہ ارکان اسمبلی کے خلاف غلط اور بے بنیاد ایف آئی آر کے اندراج کو روکنے کے لئے ایوان کی کمیٹی بنائی جائے جو صورتحال کا جائزہ لے ۔

جس پر سپیکر نے کہا کہ ارکان اسمبلی کے خلاف ایف آئی آر درج ہونے کی بات ہے تو یہ قانون کے تحت ہوتے ہیں مگر اس سلسلے میں ہمارے ارکان نے تحفظات کا اظہار کیا ہے جس پر سپیکر نے تمام پارلیمانی لیڈروں اور اس حوالے سے معلومات رکھنے والے ارکان اسمبلی پر مشتمل کمیٹی بنائی جواس صورتحال کو دیکھے گی ۔بعدازاں اسمبلی کا اجلاس پیر28اگست چار بجے تک کے لئے ملتوی کردیاگیا۔