26 اگست 2006ء بلوچستان کی تاریخ کا وہ سیاہ ترین باب ہے جب بلوچ بزرگ سیاستدان شہباز اکبر خان بگٹی ضلع کوہلو اور ڈیرہ بگٹی کے پہاڑی علاقہ میں فورسز سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کر گئے ان کی شہادت کی خبر نجی ٹیلیویژن پر نشر ہونا شروع ہوئی تو نہ صرف بلوچستان بلکہ ملک بھر سمیت بیرون ملک میں غم و غصے کی فضا قائم ہو گئی ان کی شہادت کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔
کوئٹہ شہر کی سڑکیں اور گلیاں سنسان ہو گئیں ایک ہو کا سا عالم تھا ہر شخص ہر عمارت ہر درخت ہر چرندپرند عجیب سوگوار لگ رہا تھا کوئٹہ شہر پر اچانک ایک ایسی افسردگی چھا گئی جسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا پہلی مرتبہ ہم نے اس شہر کو روتے دیکھا خبر ہی ایسی اندوہناک تھی جو بجلی بن کر ہر شخص پر گری کوئی ایسی آنکھ نہ تھی جو اشکبار نہ ہوا لوگوں کے دل اور دماغ پر غم و غصے کی لہر چھا گئی لوگ دھاڑیں مار مار کر روتے دیکھے گئے لوگ کیوں نہ روتے ان کی سحر انگیز شخصیت ہی ایسی تھی کہ بلوچستان کے باسیوں کے ساتھ ساتھ وہ ملک بھر میں ایسی عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے کہ جو شاید ہی کسی شخصیت کو اب تک حاصل ہوئی ہو۔
وہ ایک عظیم سیاستدان کے ساتھ ایک کٹر بلوچ، ایک نواب، بگٹی قبیلے کے سردار، سابق وفاقی وزیر داخلہ، سابق گورنر اور سابق وزیراعلیٰ تھے ان کی سحر انگیز شخصیت کے مطابق یہ تمام دنیاوی عہدے کس شان سے ان پر جچتے تھے ان کی کس کس بات کا ذکر کیا جائے ان کی کس کس خاصیت کو لفظوں کا پیراہن دیا جائے ان پر کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں یقین جانئیے کہ ان کی زندگی اور شخصیت پر چند الفاظ لکھنے کیلئے راقم الحروف خود کو تیار نہیں کر پا رہا تھا۔
ایک مہینہ گزرنے کو آیا یہ سوچ سوچ کر بدن پر ایک ایسا لرزا طاری ہوتا رہا کہ میں ایک معمولی شخص اس عظیم بلوچ شخصیت کی زندگی بارے میں کیا لکھ پاؤں گا قلم اسے کس طرح ’شہید‘ لکھ پائے گا میرے دل کی دھڑکنیں اس عظیم بلوچ شخصیت کے بارے میں سوچنے پر بھی تیز ہو جاتی تھیں میں خود پر قابو نہیں پا رہا تھا میرے منتشر ذہن میں اس عظیم شخصیت کے بارے میں لاکھوں الفاظ موجود تھے لیکن میں انہیں تحریری شکل نہیں دے پا رہا تھا۔
میں خود سے لڑتا رہا بالآخر میں نے دل پر جبر کر کے کاغذات کے اوراق لئے میں اس عظیم ہستی کے بارے میں چند الفاظ تحریر کرنے کی جسارت کر رہا ہوں جہاں تک میری علم و دانش کا تعلق ہے جب میں نے شعوری زندگی میں قدم رکھا تو وہ گورنر کے بعد ایک بلوچ سیاستدان کی حیثیت سے جانے پہچانے جاتے تھے سردار عطاء اللہ مینگل کی حکومت کے خاتمے اور بلوچستان میں گورنر کا منصب سنبھالنے اور پھر فوج کشی کے بعد ان کا استعفیٰ یہ بھی ہماری تاریخ کا اندوہناک باب تھا وہ نیپ کے رہنماؤں اور اپنے دیرینہ رفقاء کے خلاف کیوں اس حد تک گئے کہ ان کی حکومت ختم ہو گئی حیدرآباد سازش کیس کا انہیں سامنا کرنا پڑا۔
وہ بلوچستان کے گورنر بنا دیئے گئے پھر فوج کشی کے بعد انہیں استعفیٰ دینا پڑا۔ اس طرح ان پر بلوچ کشی کا ایک ایسا داغ لگا جو سالوں تک رہا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب تمام حقائق سامنے آنا شروع ہوئے تو اس کے بعد ہر ذی شعور شخص نے نواب بگٹی کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا کس طرح ان کے اپنے دیرینہ رفقاء کے ساتھ اختلافات بڑھ گئے نیپ کارکن نہ ہونے کے باوجود انہوں نے پارٹی کے لئے تن من دھن سب کچھ قربان کر کے اسے صوبہ کا مقبول پارٹی بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا انہوں نے سب کچھ گورنر یا وزیراعلیٰ یا سفیر بننے کیلئے ہر گز نہیں کیا بلکہ اس نے اپنے ہم عصر دوستوں کی محبت میں اپنا سب کچھ لٹا دیا۔
ان کی نیت میں کوئی فتور نہیں تھا انہیں اللہ تعالیٰ نے ایسی مٹی سے بنایا تھا کہ وہ ذاتی لالچ اور غرض سے کوسوں دور تھے انہوں نے اپنے دیرینہ رفقاء کی محبت میں اپنا سب کچھ نچاور کیا لیکن جب ایک میٹنگ میں انہیں ایک سیٹلر سے یہ کہلوایا گیا کہ جو نیپ کا ممبر نہیں وہ میٹنگ چھوڑ کر چلا جائے یہ الفاظ تین بار دہرائے گئے جس پر اس عظیم شخصیت نے اپنی سبکی محسوس کرتے ہوئے اسے اپنے لئے کاری ضرب تصور کرتے ہوئے دل میں ایسی ٹھیس محسوس کی کہ پھر اس نے یہ ٹھان لی کہ اگر میں ان کے قدم سے قدم ملا کر انہیں اونچائی کے مقام پر لے جا سکتا ہوں تو ایک ضدی بلوچ کی حیثیت سے انتقام بھی لے سکتا ہوں ۔
میرے خیال کے مطابق اس ضدی بلوچ سردار نے گورنری کا منصب ملنے کے بعد اسے جس طرح ٹھوکر ماری وہ بھی ایک دلیری کی داستان ہے اس کے بعد وہ گمنامی کی زندگی کی طرف لوٹ گئے۔ جناح روڈ کی ایک دکان میں اکثر و بیشتر بیٹھے ہوئے نظر آتے تھے تحریک استقلال میں شامل ہوئے لیکن بہت جلد انہوں نے علیحدگی اختیار کی وہ خود کو اپنے دیرینہ دوستوں سے الگ تھلگ محسوس کرتے تھے۔
پھر ان کی زندگی کا ایک ایسا موڑ بھی آیا۔ کہ سردار عطاء اللہ مینگل کی لندن اور نواب مری کی کابل جلاوطنی کے موقع پر بلوچستان میں پہلی بار ان کی قیادت میں بلوچستان نیشنل الائنس کی حکومت کیا قائم ہوئی صوبہ بھر میں خوشی کی ایسی لہر دوڑ گئی کہ ہر شخص خود کو اس صوبے کا مالک سمجھنے لگا انہوں نے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے بلوچستان کے حقوق بارے جس طرح آواز بلند کی۔
ہماری تاریخ کا انمول حصہ ہے ان کی شخصیت کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات ہر شخص محسوس کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایسی ہزاروں صلاحیتیں دے رکھی تھیں کہ وہ اپنی صلاحیتوں کی وجہ سے ملک بھرمیں عظیم شخصیت کے طور پر جانے جاتے تھے۔
شاید بہت کم لوگ ایسے ہوں گے جو ان کے بارے میں منفی سوچتے ہوں گے اکثریت کے دلوں کو ٹٹولا جائے تو ان دلوں میں نواب بگٹی کو موجود پائیں گے گزشتہ عسکری حکومت کے ساتھ ان کے کیا اختلافات تھے انہوں نے بلوچستان میں فوجی چھاؤنیوں کے قیام کی سخت مخالفت کی یہ بات کمانڈو حکمرانوں کو بری لگی کہ کیوں ایک شخص ان کی حکم عدولی کی جرات کر رہا تھا ۔
اانہوں نے انہیں زیر کرنے کیلئے طرح طرح کے حربے استعمال کئے ایسے میں ڈاکٹر شازیہ کے ساتھ ریپ کیس نے جلتی پر تیل کا کام کیا بعض ذرائع کے مطابق یہ واقعہ بھی اس سازش کا حصہ تھا کہ کس طرح اس شخص کو مشتعل کر کے پہاڑوں کی طرف دھکیلا جائے تاکہ ان کے راستے کا سب سے بڑا کانٹا دور ہو۔
نواب صاحب نے ڈاکٹر شازیہ کیس کو جس طرح بین الاقوامی سطح پر اٹھایا وہ آج بھی ہمارے ذہنوںں میں نقش ہے انہوں نے ذمہ داروں کے بارے میں کھلم کھلا بیان دیا حتیٰ کہ ان کے رشتہ داروں کے نام گنوائے جو فوج میں حاضر سروس جنرل تھے۔
یہ بات انہیں شدید ناگوار گزری اور انہوں نے انہیں سزا دینے کی ٹھان لی۔ کئی ایک انتظامی افسران نے ڈیرہ بگٹی کی بگڑتی ہوئی صورتحال میں حصہ لینے سے گریز کیا اور اپنا تبادلہ کراتے گئے وہ جانتے تھے کہ نواب صاحب کے خلاف آلہ کار بننے سے بہتر ہے کہ کسی اور جگہ چلے جائیں ان سے بلوچستانی کی حیثیت سے بے ضمیری نہیں ہو سکتی تھی پھر حکومت نے کسی بے ضمیر کا انتخاب کر لیا ۔
تاکہ فوج کشی کے اس ڈرامے میں اسے کوئی کردار دیا جائے حکومت کو ایک جونیئر سیکرٹری گروپ کا افسر ملا جس نے اس ڈرامے میں جس طرح کردار ادا کیا وہ آج تک بلوچستان کے عوام کے دلوں اور دماغ میں نقش ہے اور المیہ یہ ہے کہ جو شخص حکومت پاکستان سے وفاداری کا دم بھرتا تھا پھر ایک دن خود اسی ریاست کی پولیس سے گرفتاری سے بچنے اور اپنے دفاع کے لیے پہاڑوں پر چڑھ گیا ۔ جب حکومت کے ساتھ نواب صاحب کے اختلافات بڑھتے گئے۔
جھڑپیں شروع ہوئیں تو ایسے میں مسلم لیگ کے صدر چوہدری شجاعت کو ڈرامہ کرانے کی ذمہ داری سونپی گئی جنہوں نے ڈیرہ بگٹی کا دورہ کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ان کے والد کی جان نہ لینے والے نواب بگٹی کے بارے میں وہ دل میں ایسا درد رکھتے ہیں۔
کہ وہ اس صورتحال کو سنبھال لیں گے انہوں نے خود اس بات کا اعتراف کیا کہ ان پر نواب صاحب کے احسانات ہیں ذوالفقار علی بھٹو نے چوہدری شجاعت کے والد چوہدری ظہور الٰہی کو ڈیرہ بگٹی بجھوا کر یہ پیغام بجھوایا کہ اسے قتل کیا جائے لیکن نواب صاحب نے انہیں یہ پیغام دیا کہ بلوچ جب کسی کو اپنی پناہ میں لیتا ہے تو وہ اس کی جان نہیں لیتا بلکہ اس کی جان کی حفاظت کرتا ہے اس بات پر بھی ذوالفقار علی بھٹو ان سے ناراض تھے۔
نواب صاحب کی وجہ سے چوہدری شجاعت کے والد کی جان بخشی ہوئی لیکن افسوس صد افسوس کہ چوہدری شجاعت نے احسان کا بدلہ کس طرح چکایا۔ وہ بھی ہمارے سامنے ہے ان کی جماعت کی حکومت تھی ان کی شہادت کا طوق بھی ان کی جماعت کے گلے ایسی پڑی کہ پھر اس جماعت کو بلوچوں کے دلوں میں آج تک جگہ نہیں ملی نواب صاحب نے اپنی پوری زندگی اپنی منشا کے مطابق ایسی گزاری کہ اس پر دل عش عش کر اٹھتا ہے ۔
انہوں نے ایک نڈر، بہادر اور بہترین ایڈمنسٹریٹر اور ایماندار شخصیت کی حیثیت سے زندگی گزاری ان کے دوستوں کا وسیع حلقہ موجود تھا انہوں نے 80 سال کی عمر میں پہاڑوں کا رخ کر کے ثابت کر دیا کہ بلوچ کسی کے سامنے سرجھکانے کی بجائے سر کٹوانے کو ترجیح دیتے ہیں۔
انہوں نے محفل میں لوگوں سے یہ کہا کہ جب ہمارا ساحل چلا گیا گیس چلی گئی ہماری سرزمین چھن گئی تو پھر ہم کس لئے جیئیں گے لہذا مجھے نتائج کی پرواہ نہیں انہوں نے حاضرین مجلس جو ان کے قریبی رشتہ داروں پر مشتمل تھی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اب جبکہ ہمارے پاس کچھ نہیں رہا تو میں کس چیز پر مذاکرات کروں گا؟ ان کے پیر میں کینسر پھیل چکا تھا ۔
ان سے چلا نہیں جاتا تھا ایسے میں انہیں سخت آرام کی ضرورت تھی لیکن اس مردآہن نے اپنی زندگی کے اصولوں کے مطابق سرجھکانے کا تصور تک نہیں کیا بلکہ انہوں نے لوگوں کے ہمراہ پہاڑوں کو اپنا مستقل مسکن بنا کر اپنے عزیز و اقارب اپنی اولاد سب کچھ داؤ پر لگانے کو ترجیح دی انہوں نے اپنی بادشاہت کو لات ماری اور حکومت کے سامنے جھکنے سے موت کو ترجیح دی ۔
اگر وہ حکومت کے آگے گھٹنے ٹیک دیتے تو انہیں کیا کچھ حاصل نہ ہوتا ان سے کہا بھی گیا کہ وہ بلوچستان کے حقوق اور بلوچستان میں چھاؤنیوں کے قیام کی مخالفت چھوڑ دیں تو ان کی بادشاہت کو کچھ نہیں کہا جائے گا بلکہ انہیں ان کے تصور سے زیادہ حصہ دیا جائے گا ان کی ایک ایک بات ایک ایک مطالبہ تسلیم کیا جائے گا شرط یہ ہے کہ انہیں چھاؤنیوں کی مخالفت ترک کرنا ہو گی۔
لیکن انہوں نے قوم کی خاطر سرنڈر کرنے سے انکار کرتے ہوئے اپنی شہادت قبول کرنے کی ٹھان لی اگر یہ کہا جائے کہ انہوں نے اپنی خواہش کے مطابق موت بھی قبول کر لی تو بے جا نہیں ہو گا نواب بگٹی کی آئیڈیل شخصیت بالاچ گورگیج تھے۔ جس نے تن تنہا بلیدی قبیلے کے خلاف کئی سال تک جنگ لڑی اور انہیں کندھ کوٹ کی طرف دھکیل دیا بالاچ نے اپنے مشہور اشعار میں کہا تھا۔
پہاڑ بلوچوں کے قلعے ہیں اونچی گھاٹیاں ان کے محل ہیں وہ لوگ جو بدلہ لیتے ہیں ان کی خواب گائیں پہاڑوں کی چوٹیاں ہیں بالآخر بالاچ آخری عمر میں اپنے قتل سے قبل حملہ آور کو ہلاک کر کے اطمینان سے مر گیا بلوچ روایت میں بستر پر موت کو بہت برا سمجھا جاتا ہے پرانے وقتوں میں بزدلی کی موت سے بچنے کی دعائیں کی جاتی تھیں نواب بگٹی نے ایک باعزت انجام کی خواہش ظاہر کی تھی ۔
نواب بگٹی نے سقراط کی طرح اپنے انجام کا اختیار اپنے ہاتھ میں رکھا وہ بلوچستان کے خشک آبہ کے ان سرداروں میں سے نہیں تھے جو کہ خفیہ ایجنسیوں کی ایک معمولی اہلکار کے کہنے پر ہر طرح کی اٹھک بیٹھک کرتے ہیں پہاڑوں میں انہوں نے جس طرح کٹھن دن گزارے ہم اس کا تصور کر کے ہی خوفزدہ ہوتے ہیں لیکن آفرین ہے اس 80 سالہ بوڑھے بلوچ پر جس کے قدم نہیں ڈگمگائے بلکہ وہ استقامت کے پیکر تھے ان سے کہا گیا کہ وہ پہاڑوں سے اتر کر اپنا علاج کر یں۔
لیکن انہوں نے کہا کہ اب ان کی زندگی پہاڑوں میں گزرے گی موت کا آخر ایک دن مقرر ہے انہیں ڈاکٹروں نے شروع دنوں میں گوشت کھانے سے مکمل روک دیا تھا جب آخری بار ان کی ٹانگ کا معائنہ کیا گیا تو ڈاکٹروں نے انہیں دوبارہ گوشت کھانے کا مشورہ دیا لیکن انہوں نے کہا کہ اب بہت دیر ہو چکی ہے انہوں نے شہادت کیا پائی آج وہ بلوچوں کے دلوں میں راج کر رہے ہیں۔
انہوں نے بلوچ تاریخ میں اپنے لئے اس مقام کو پا لیا جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے ان خوش نصیبوں میں نواب بگٹی کی شخصیت اس جدید دور میں سب سے اونچا ہو گیا ہے انہوں نے نوجوانوں کے دلوں کو گرما دیا ہے ان کی لازوال قربانی نے نئی تاریخ رقم کی ہے آج یہی وجہ ہے کہ وہ ہر بلوچ کی دل کی دھڑکن بن چکے ہیں وہ زندگی بھر رہے گا ان کی جگہ کوئی نہیں لے سکے گا بقول سردار عطاء اللہ مینگل نواب بگٹی بڑے خوش قسمت نکلے کہ ان کو بلوچ حقوق کے حصول کی جنگ میں شہادت نصیب ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ نواب بگٹی ہمارے بہت قریبی ساتھی تھے انہوں نے اپنی شہادت کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے بلوچ نوجوانوں کو پیغام دے دیا کہ اپنے ملک، تہذیب و تمدن کو زندہ رکھنا ہے تو صرف نعرہ بازیوں سے حقوق نہیں ملتے بلکہ قربانی کے ذریعے حقوق کا حصول ممکن ہے ان کے بقول جب سے ہم نے پاکستان کے ساتھ الحاق کیا تھا اس دن سے لیکر آج تک بلوچوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ ہوتا رہے گا۔
تاریخ ساز شخصیت نواب بگٹی اقتدار کے ایوانوں سے کوہلو کے غاروں تک
وقتِ اشاعت : August 26 – 2017