کراچی : نیشنل پارٹی کے صدر اور وفاقی وزیر پورٹ و شپنگ حاصل بزنجو نے کہا ہے کہ ملک میں صدارتی نظام کے نام پر ایک خاص گروپ کے حکمرانی کی بات کی جارہی ہے عوام اس کو قبول نہیں کریں گے اگر اٹھارویں ترمیم ہوتی تو بنگلہ دیش الگ نہ ہوتا ۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے کراچ میں ایک سمینار سے خطاب میں کیا سیمینار میں چیئرمین سینیٹ کے علاوہ دیگر رہنماؤں نے بھی خطاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے بہت قربانیاں دی ہیں شاید کسی اور قوم نے اتنی قربانیاں نہ دی ہوں ہم نے دھائیوں کی آمروں سے جمہوریت کے لئے جنگ کی ہے آج ہماری تیسری نسل ہے جو جمہوریت کے لئے کام کررہی ہے ۔
انہوں نے مزید کہا کہ افسوس کے ہم آج تک جمہوریت کو مضبوط کیا نہ ہی پارلیمنٹ کو طاقت کا سرچشمہ بنایا ۔انہوں نے کہا کہ صدارتی نظام کے نام پر ایک خاص گروپ کی حکمرانی کی بات کی جارہی ہے۔جو عوام کو کسی صورت قبول نہیں ہوگی ۔
انہوں نے کہا کہ نوبزادہ نصراللہ نے صحیح کہا کہ جمہوریت کے ساتھ اور کوئی مقصد شامل نہیں ہوتا۔آمروں کے دور میں وہ کونسے سیاستدان تھے جو جیل نہیں گے کیا ہم پچاسی کے غیرجماعتی الیکشن کو بھول گئے اس الیکشن میں غیر سیاسی لوگوں کو سیاستدان بناکر مسلط کرنے کی کوشش کی گئی کرپٹ سیاستدان ضیاء الحق کا تحفہ ہے ۔
انتخابات میں گریجویشن کی شرط سیاستدانوں کو الیکشن سے دور رکھنے کے لئے رکھی گئی سیاست میں نوجوانوں کو نہیں تجربہ کار سیاستدانوں کو آنا چاہیے ۔نوجونوں کو فلموں میں آنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ غلطیاں اور اعترافات اپنی جگہ پرمگر اسملک میں رہنے کے لئے غلطیوں کو نہیں دہرانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں پارلیمنٹ کو مضبوط بنانے کے لئے دوبارہ ڈائیلاگ کرنا پڑیگا اگرہم افغان جنگ میں نہیں کودتے تو ٹرمپ اس زبان میں بات نہیں کرتا۔حاصل بزنجونے مزید کہا کہ اگر پارلیمنٹ نہ رہی تو کوئی جمہوری ملک ہمیں نہیں مانے گا۔
اٹھارویں ترمیم 73کے آئین کا نیا روپ ہے اگر اٹھارویں ترمیم ہوتی تو بنگلہ دیش نہیں بنتا۔آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ کرپشن کیلئے نہیں بلکہ اپنے پسند کے لوگوں کو لانا اور ناپسندیدہ شخصیات کو نااہل کرنے کے لئے بنایا گیا۔
دوسری جانب چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے کہا ہے کہ ملک میں جمہوریت کو کبھی بھی پنپنے نہیں دیا گیاجو کہ ایک غیر فطری عمل ہے جبکہ پاکستان کے قیام کی جدوجہد بھی بنیادی طور پر جمہوری اور وفاقی تھی پاکستان کی جڑوں میں جمہوریت ہے ،فوجی حکومتوں کے دوران صوبوں میں احساس محرومیوں میں اضافہ ہوا ہے،صدارتی طرز حکومت کو بار بار آزمایا جاچکا ہے یہ مکمل طور پر ناکام ہوچکا ہے۔
پارلیمانی نظام میں کچھ خامیاں اور کوتاہیاں ضرور ہوں گی لیکن یہ نظام ہماری وفاقی ریاست کے لئے سب سے زیادہ موضوع ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا جو بیان آیا ہے وہ انتہائی سنگین ہے اس کے لئے ریاست کو پارلیمنٹ کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا،اور اس کا مقابلہ عوامی طاقت کے ذریعے سے ہی کیا جاسکتا ہے۔
ان خیالات کا اظہار انھوں نے ہفتہ کو کرا چی پریس کلب کی جانب سے منعقدہ سیمینار جس کا عنوان تھا،کیا پاکستان کے لئے جمہوریت ضروری ہے؟تقریب کی صدرات کرتے ہوئے کیا ۔
اس موقع پر نیشنل پارٹی کے سربراہ اور وفاقی وزیر میر حاصل خان بزنجو، ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار، پیپلز پارٹی سندھ کے صدر نثار کھوڑو،جماعت اسلامی سندھ کے نائب امیر اسد اللہ بھٹو، مسلم لیگ ن سندھ کے صدر بابو سرفراز جتوئی، مسلم لیگ فنکشنل سندھ کے جنرل سیکریٹری سردار عبدالرحیم،مہاجر قومی موومنٹ کے چیئرمین آفاق احمد،پاک سرزمین پارٹی کے رہنما انیس احمد ایڈوکیٹ، تحریک انصاف کے رہنما علی زیدی، قومی عوامی تحریک کے سربراہ ایاز لطیف پلیجو،معروف صحافی و تجزیہ نگار مظہر عباس، سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے مرکزی رہنما سید غلام شاہ، کراچی بار ایسوسی ایشن کے صدر نعیم قریشی، معروف مذہبی اسکالر انیق احمد ، کراچی پریس کلب کے صدر سراج احمد اور سیکریٹری مقصود یوسفی نے خطاب کیا۔
چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے کہا کہ ہمارے ملک کا المیہ یہ ہے کہ کبھی بھی جمہوریت کو پنپنے نہیں دیا گیا یہ ایک غیر فطر عمل ہے۔ جبکہ پاکستان کے قیام کی جدوجہد بنیادی طور ایک جمہوری اور وفاقی جدوجہد تھی یعنی پاکستان کی جڑوں میں جمہوریت ہے۔
قائد اعظم کی ساری جدوجہد جمہوری تھی وہ عوام کی حاکمیت کی بات کرتے تھے، ساری خرابیاں فوجی حکومتوں کی وجہ سے پیدا ہوتی رہی ہیں ہر دس کے بعد ملک پر فوجی آمریت مسلط ہوتی رہی ہے ان سے جہاں بہت سے مسائل پیدا ہوئے صوبوں میں احساس محرومیاں پیدا ہوئیں عوام بھی جمہوری اور پالیمانی نظام کو پسند کرتے ہیں جب بھی ملک میں کوئی فوجی حکومت آئی کراچی سے پشاور تک عوام سراپا احتجاج بن گئے عوام نے اس کے لئے کوڑے کھائے ، پھانسیوں پر چڑھے ۔
دھشت گردی پر بھی مضبوط جمہوریت کے ذریعے سے ہی قابو پایا جاسکتا ہے ، جہاں تک صدراتی نظام کی بات ہے تو اسے کئی بار آزمایا جاچکا ہے یہ مکمل طور پر ناکام ہوچکا ہے بنگلہ دیش کی علحیدگی بھی فوجی اور صدارتی حکومت کے دوران ہوئی، افغان جہاد میں بھی ہم فوجی اور صدارتی حکومت کے دوران شامل ہوئے ، مشرف کی حکومت کے دوران جب کہ فوجی اور صدراتی نظام تھا اس وقت امریکہ کے ساتھ دھشت گردی کی جنگ میں شامل ہوئے۔
انھوں نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا پاکستان کے حوالے سے بیان انتہائی سنگین ہے ، میں نے دیکھا ہے جن قوموں نے امریکی سامراج کا ڈٹ کر مقابلہ کیا یہ مقابلہ انھوں نے بحیثیت قوم کیااس مسئلہ پر ریاست کو پارلیمنٹ اور وعوام کے ساتھ کھڑا ہوناچاہئے۔
امریکہ اس خطے میں بھارت کو جو کردار دینا چاہتا ہے وہ ہمیں باالکل بھی منظور نہیں ہے۔ انھوں نے کہاکہ پارلیمنٹ کو ہمیں مضبوط اور بااختیار بنانا ہوگا یہ ایسی پارلیمنٹ ہو جس کی رسائی عوام تک ہو اور اس کا کردار شفاف ہو۔میاں رضا ربانی نے کہا کہ جو فیصلے سیاسی جماعتوں آل پارٹیز کانفرنسوں میں کئے وہ انھیں پارلیمنٹ کرنے چاہئے تھے۔
ایم کیوایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ آج پاکستان ایک دوراہے پر کھڑا ہے اور غیر یقینی کی سی صورتحال ہے ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ہمیں اپنی اصلاح کرنا ہے۔جن سیاسی جماعتوں کو نکالا گیا انھیں آج تک سمجھ نہیں آیا کہ انھیں کیوں نکالا گیا۔
انھوں نے کہا کہ جمہوریت کی نرسری مقامی بلدیاتی حکومتیں ہیں کیا ہم ایسا نظام لیکر آئے۔دراصل جمہوریت کو 500خاندانوں نے ملکر کرپٹ سیاسی کلچر بنادیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ جمہوریت کا تو مطلب ہوتا ہے کہ تمام لوگوں کے حقوق دیئے جائیں اور انھیں انصاف فراہم کیا جائے لیکن کراچی کے ساتھ کبھی بھی سیاسی اور معاشی انصاف نہیں کیا گیاسندھ کے شہروں کے لوگوں کو سندھ کے وڈیروں کا غلام بنادیا گیا ہے۔
کراچی کی آبادی تقریبا تین کروڑ ہے مردم شماری میں اسے کم دکھایا جارہا ہے کیا یہی جمہوریت ہے۔پیپلز پارٹی سندھ کے صڈر نثار کھوڑو نے کہا کہ تمام مسائل کا حل عوام کی رائے سے نکالاجاسکتا ہے اس کا دائمی حل جمہوریت ہے۔
انھوں نے کہا کہ ہمارے یہاں ہمیشہ سے جمہوریت کی دھجیاں اڑانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے کبھی صدراتی نظام کے نام پر کھلواڑ کیا گیا تو کبھی مذہب کے نام پرہمارے ادارے اکثر مصلحت کا شکار ہوئے عدالتوں نے چار بار مارشلاؤں کو تحفظ دیا اور پھر معذرت کرلی۔
جماعت اسلامی سندھ کے نائب امیر اسد اللہ بھٹو نے کہا کہ پاکستان اس وجہ سے ہی دو لخت ہوا تھا کہ ہم نے جمہوریت کا راستہ چھوڑ دیا تھا۔پاکستان کا المیہ شروع سے یہ رہا ہے کہ سرمایہ داروں، جاگیرداروں، وڈیروں نے جمہوریت کے نام پر لوٹاماری کی اور عوام کو ان کے حقوق نہیں دیئے۔
مسلم لیگ ن سندھ کے صدر بابو سرفراز جتوئی نے کہا کہ جب سے پاکستان بنا ہے سار ملبہ سیاستدانوں پر ہی گرایا جاتا رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے صرف سیاستدان ہی کرپٹ ہیں باقی سب مقدس گائے ہیں۔مہاجر قومی موومنٹ کے چیئرمین آفاق احمد نے کہا کہ پاکستان کے قیام کو ستر سال ہوچکے ہیں آدھی عمر آمریت میں گزرے ہیں۔ احتساب سب کا ہونا چاہئے چاہئے چاہے سیاستدان ہو یا جج یا پھر جرنیل ۔
مسلم لیگ فنکشنل سندھ کے جرنل سیکریٹری سردار عبدالرحیم نے کہا کہ پاکستان کو بچانے کے لئے فیڈریشن کو مضبوط کرنا ہوگا۔ صرف جمہوریت کا نام لینا ضروری نہیں اس کے ساتھ اس کے لوازمات بھی ضروری ہیں۔جعلی انتخابات سے کبھی جمہوریت پھل پھول نہیں سکتی۔
قومی عوامی تحریک کے سربراہ ایاز لطیف پلیجو نے کہا کہ سیاستدان خود کو قانون سے بالا تر سمجھنے لگے ہیں قانون کی بالادستی ضروری ہے ، عوام غربت ، بے روزگاری، اور تمام بنیادی سہولتوں سے محروم ہے کیا اس ہی کا نام جمہوریت ہے ، سندھ کی آبادی 7کروڑ سے زیادہ ہے اور یہاں کی آبادی مردم شماری میں پانچ کروڑ سے بھی کم دکھائی گئی ہے کیا یہی جمہوریت ہے۔پاک سر زمین پارٹی کے رہنما انیس احمد ایڈوکیٹ نے کہا کہ میں موجودہ جمہوریت کو نہیں مانتا یہ کرپشن زدہ جمہوریت ہے۔
ملک میں صدارتی نظام لانے کیلئے ایک گروہ سر گرم ہو چکا ہے ،حاصل بزنجو
وقتِ اشاعت : August 27 – 2017