کوئٹہ: پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین مجید خان اچکزئی نے کہا ہے کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے تحت حقوق کے حصول کے لئے میکانزم کی تیاری کے لئے کمیٹی بنائی جائے ، تعلیم اور صحت کے محکمے صوبوں کے حوالے تو کئے گئے ہیں مگر ان کے اثاثے اور میکانزم کے بجائے صرف غیر ترقیاتی ہمارے حوالے کئے گئے ہیں ۔
ہمارے ترقیاتی فنڈز پہلے ہی کم ہیں حقوق ملتے نہیں لینے پڑتے ہیں صوبے میں معدنی منصوبوں پر کوئی مانیٹرنگ نہیں ہے ۔وفاق کے ذمے گیس کی مد میں ہمارے اربوں روپے واجب الادا ہیں پورے صوبے میں بجلی کے نظام کی بہتری کے لئے کوئی اقدامات نہیں۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے بلوچستان اسمبلی میں پوائنٹ آف آرڈر پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ صوبے میں مالی مشکلات بے روزگاری سمیت دیگر مسائل ہیں امن وامان کا بھی مسئلہ موجود ہے دراصل ہمارے صوبے میں اب تک کوئی ایسا طریق کار نہیں بنایا گیا کہ ہم وفاق سے اپنے حقوق حاصل کرسکیں ۔
اس موقع پر انہوں نے آئین کے مختلف آرٹیکلز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم میں صوبوں کے لئے بہت کچھ رکھا گیا ہے سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ عبدلرحیم مندوخیل اور دیگر رہنماؤں نے چھوٹے صوبوں کے حقوق کے لئے جدوجہد کرتے ہوئے کمال کیا مگر اٹھارہویں ترمیم کے بعد ہم اب تک آئینی ترامیم میں سست رفتاری کا مظاہرہ کررہے ہیں۔
ہمارے مقابلے میں پنجاب نے اسی فیصد ترامیم کرلی ہیں فنڈز کی تقسیم کے حوالے سے بھی اب تک ہم نے درست انداز میں کام نہیں کیا جس کی وجہ سے چھوٹی بڑی آبادیوں کے لئے ایک جیسے فنڈز جاری ہوتے ہیں تعلیم اور صحت کے محکمے صوبوں کے حوالے تو کئے گئے ہیں مگر ان کے اثاثے اور میکانزم کے بجائے صرف غیر ترقیاتی ہمارے حوالے کئے گئے ہیں ۔
ہمارے ترقیاتی فنڈز پہلے ہی کم ہیں حقوق ملتے نہیں لینے پڑتے ہیں صوبے میں معدنی منصوبوں پر کوئی مانیٹرنگ نہیں ہے ۔وفاق کے ذمے گیس کی مد میں ہمارے اربوں روپے واجب الادا ہیں پورے صوبے میں بجلی کے نظام کی بہتری کے لئے کوئی اقدامات نہیں انہوں نے سپیکر سے استدعا کی کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے تحت حقوق کے حصول کے لئے میکانزم کی تیاری کے لئے کمیٹی بنائی جائے ۔
چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی عبدالمجیدخان اچکزئی نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کااپنا قانون ہے اور اس کی اپنی تقسیم ہے یہاں جنگ اللہ تعالیٰ کی تقسیم پر نہیں اللہ تعالیٰ نے جو چیزیں ہمیں دی ہیں وہ ہمیں نہیں دے رہے ۔موجودہ حکومت میں پی پی ایل کے ساتھ معاہدہ ہوا اس میں نہ تو صوبے کے بقایہ جات کا ذکر ہے اور نہ ہی مانیٹرنگ کا۔
اٹھارہویں ترمیم میں واضح ہے کہ پچاس فیصد وسائل صوبے کے اپنے ہیں کیوں اس پر عملدرآمد نہیں ہوتا پہلا حق ہمارا بنتا ہے یہ کیوں تسلیم نہیں کیا جاتا حد تو یہ ہے کہ کوئٹہ جو کہ صوبے کا دارالحکومت ہے اسے بھی اٹھارہ سال بعد جا کر گیس فراہم کی جاتی ہے کئی سالوں سے این ایف سی ایوارڈ کا اجراء کیوں نہیں ہوتا؟
سیندک میں ہمارے دو فیصد ہیں وہ بھی بڑی مشکل سے ہماری حیثیت یہ ہے کہ پنجاب میں جسے لائن لاسزکہتے ہیں ہمارے ہاں اسے چوری کہاجاتا ہے باقی صوبہ ایک طرف کوئٹہ شہر کو جو گیس ملتی ہے کیا وہ کافی ہے ؟کوئٹہ میں گیس پائپ لائن بچھی تب شہر کی آبادی سات لاکھ تھی آج یہ پچیس لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے گیس ہر ضلع کا حق ہے یہ حق ملنا چاہئے ۔
18 ویںآئینی ترمیم کے تحت حقوق کیلئے میکانزم کی تیاری کیلئے کمیٹی بنائی جائے ،پبلک اکاؤنٹس کمیٹی
وقتِ اشاعت : August 29 – 2017