کوئٹہ : بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں بلوچستان ماس ٹرانزٹ اتھارٹی کا مسودہ قانون کی منظوری دے دی گئی بلوچستان کمیشن برائے رتبہ خواتین کا مسودہ قانون ایوان میں پیش ،بلوچستان یونیورسٹی کی داخلہ فیسوں میں اضافے سے کمیٹی کی سفارشات پرمبنی رپور ٹ کی منظوری دے دی گئی ،بلوچستان اسمبلی کا اجلاس سپیکر راحیلہ حمیدخان درانی کی زیر صدارت ایک گھنٹہ پانچ منٹ کی تاخیر سے شروع ہوا ۔
اجلاس میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے رکن آغا سید لیاقت نے توجہ دلاؤ نوٹس پر کرومائیٹ مائنز کے لئے ڈائنامائیٹ کی فراہمی سے متعلق سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ گزشتہ تین ماہ سے ضلع پشین اور مسلم باغ میں کرومائیٹ مائنز کے لئے ڈائنامائیٹ سائنسوں کی تجدید نہ ہونے کی وجہ سے کرومائیٹ کی کانیں بند ہیں جس کی وجہ سے ہزاروں مزدور بے روزگار ہوگئے ہیں ۔
ان کا سوال وزیر داخلہ سے تھا کہ اگر مذکورہ اطلاعات درست ہیں تو وجوہات بتائی جائیں نیز یہ بھی بتایا جائے کہ محکمہ داخلہ کب تک ڈائنامائیٹ لائسنسوں کی تجدید کا ارارہ رکھتی ہے چونکہ وزیر داخلہ ایوان میں موجود نہیں تھے اس لئے یہ سوال اگلے اجلاس کے لئے موخر کیا جائے جس پر آغا لیاقت کا کہنا تھا کہ یہ ایک اہم مسئلہ ہے وزیر داخلہ مذکورہ کمیٹی کے گزشتہ اجلاس میں بھی شریک نہیں ہوئے جس کی وجہ سے مذکورہ اجلاس ملتوی کردیا گیا تھا گزشتہ چھ مہینوں سے مذکورہ لائسنسوں کی تجدید نہیں ہوئی حالانکہ یہ صوبے کی ایک اہم اور بڑی صنت ہے جس سے صوبے میں کم از کم ساٹھ ہزار مزدوروں کا روزگار وابستہ ہے ۔
انہوں نے کہا کہ خود میری مائنز بھی بند پڑی ہیں اور مجھے اب تک35لاکھ روپے کا نقصان اٹھانا پڑا ہے جب میری حالت یہ ہے تو باقی بڑی کانوں کی کیا صورتحال ہوگی انہوں نے سپیکر سے درخواست کی کہ وہ اس حوالے سے رولنگ دیں تاکہ مستقل نہ سہی عارضی بنیادوں پر ان لائسنسوں کی تجدید کردی جائے ۔
جس پر وزیر تعلیم عبدالرحیم زیارتوال کا کہنا تھاکہ اگر اس پر رولنگ آجائے تو بیٹھ کر متعلقہ حکام اور توجہ دلاؤ نوٹس کے محرک سے بات ہوسکتی ہے جس پر سپیکر کا کہنا تھا کہ اس پر اس طرح سے رولنگ نہیں دی جاسکتی چونکہ متعلقہ وزیر موجود نہیں ہے اس لئے متعلقہ محکمے کے حکام کو بلا کر کل صبح گیارہ بجے ان کے ساتھ میٹنگ کریں گے جس میں باقی اراکین اسمبلی بھی اگر چاہیں تو حصہ لے سکتے ہیں متعلقہ محکمے سے ضروری معلومات کے بعد ہی اس حوالے سے آگے بڑھ سکتے ہیں ۔
جمعیت العلماء اسلام کی رکن شاہدہ رؤف کا کہنا تھا کہ موجودہ دور میں کال اٹینشن نوٹس کے حوالے سے قانون سازی کی گئی جو انتہائی اہم ہے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جس مقصد کے لئے یہ متعارف کرایا گیا وہ پورا نہیں ہورہامتعلقہ وزیر حاضر نہیں ہوتے حالانکہ کال اٹینشن نوٹس پر اہم ترین اور فوری نوعیت کے مسائل پر بات ہوتی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ جس طرح کسی محکمے سے متعلق سوالات کے موقع پر متعلقہ وزیر ایوان میں موجود رہتا ہے اسی طرح صوبائی وزراء جن کے محکموں سے متعلق توجہ دلاؤ نوٹس لایا جاتا ہے انہیں مذکورہ دن اجلاس میں شرکت کا پابند کیا جائے جس پر سپیکر کا کہنا تھا کہ تمام اراکین کو ایجنڈے کی کاپیاں بھیج دی جاتی ہیں ان کو یہاں موجود ہونا چاہئے جس کے بعد انہوں نے رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ وہ تمام وزراء جن کے محکموں کے حوالے سے کال اٹینشن نوٹس ہو وہ اسمبلی کے مذکورہ اجلاس میں اپنی حاضری یقینی بنائیں ۔
اجلاس میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے پارلیمانی لیڈر عبدالرحیم زیارتوال نے قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ ضلع ہرنائی کے یونین کونسل زرغون گڑ اور یونین کونسل خوست میں گیس اور تیل کے چھ سے سات کنوؤں میں تیل اور گیس دریافت ہوئی ہے جبکہ ہرنائی کی یونین کونسل زرغون غراور یونین کونسل خوست میں صنوبر جنگلی زیتون پلوسہ اور دیگر قیمتی نایاب جنگلات موجود ہیں لیکن ایندھن کے دیگر ذرائع دستایب نہ ہونے کی بناء پر علاقہ مکین قیمتی اور نایاب جنگلات کے درخت کاٹ کر ایندھن کے طو رپر استعمال کررہے ہیں ۔
قدرتی وسائل و نایاب جنگلات کی کٹائی کے انسانی زندگی پر مضر اثرات سے بچنے کے لئے جنگلات کی حفاظت ضروری امر بن جاتا ہے جنگلات کی کٹائی کی روک تھام صرف اورصرف گیس کی فراہمی سے ہی ممکن ہے قرار داد میں صوبائی حکومت سے سفارش کی گئی کہ وہ وفاقی حکومت سے رجوع کرے کہ وہ ہرنائی جیسے اہم ترین گیس و تیل کی پیداوار کے حامل ضلع کو قدرتی گیس کی سہولت کی فراہمی کو یقینی بنائے تاکہ صنوبر زیتون پلوسہ شنگ اور دیگر قیمتی جنگلات کو بچایا جاسکے۔
قرار داد کی موزونیت پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہرنائی سے کوئٹہ شہر کو گیس کی سپلائی شروع ہوچکی ہے اسی طرح سوئی اور اوچ سمیت جہاں سے بھی گیس نکلی وہ ملک کے کونے تک پہنچی مگر چند اضلاع کو چھوڑ کر خود ہمارا اپنا صوبہ اس سے محروم ہے انہوں نے کہا کہ ہرنائی مون سون بارشوں کی رینج میں ہے یہاں کے زرغون غر میں صنوبر کے قیمتی اور نایاب جنگلات ہیں جسے ایندھن کے متبادل ذرائع نہ ہونے کے باعث مقامی لوگ کاٹ رہے ہیں جس پہاڑ کے لوگ قیمتی جنگل کاٹ رہے ہیں ۔
اسی پہاڑ کے دامن میں گیس کے کنویں سے کوئٹہ شہر کو گیس مل رہی ہے مگر یہ علاقہ اب بھی محروم ہے انہوں نے کہا کہ ہرنائی قیمتی معدنیات سے مالا مال ضلع ہے انگریز دور سے یہاں سے کوئلہ نکالا جارہا ہے مگر ضلع کی حالت یہ ہے کہ اب بھی اس کے کئی علاقے سڑک کے راستے اپنے ضلعی اور ڈویژنل ہیڈ کوارٹر سے منسلک ہی نہیں شروع دن سے اس علاقے کو نظر انداز کیا گیا ۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایک اہمیت کی حامل قرار داد ہے اس لئے اس کو منظور کیا جائے ۔ ڈپٹی اپوزیشن لیڈر انجینئرزمرک خان اچکزئی نے قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس قرار داد کی حمایت کرتے ہیں مگر ہماری کچھ تجاویز ہیں وہ اس قرار داد میں شامل کی جائیں ۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے صوبے میں گیس آج کی نہیں 1952ء سے نکلی ہے تب سے لے کر اب تک ہماری یہی جنگ رہی ہے کہ ہمارا حق تسلیم کیا جائے مگر افسوس کہ ہمارا حق تسلیم نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے ہم محروم ہیں انہوں نے کہا کہ قرار داد کے محرک ایک پارٹی کے پارلیمانی لیڈر اور صوبے کے سینئر وزیر ہیں انہیں چاہئے تھا کہ وہ اس قرار داد میں تمام اضلاع کو شامل کرتے میں اپنے ضلع قلعہ عبداللہ کی مثال دوں گا جو آج تک گیس سے محروم ہے ۔
انہوں نے کہا کہ ہم یہاں قرار دادیں لاتے ہیں پاس کرتے ہیں مگر وفاق میں جا کر ان قرار دادوں کے ساتھ جو سلوک ہوتا ہے وہ بھی کوئی چھپی ہوئی بات نہیں اس سلسلے میں قومی اسمبلی اور سینٹ میں ہمارے جو نمائندے ہیں ان پر بہت زیادہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہ اس ذمہ داری کو نبھاتے ہوئے صوبے کی آواز اٹھائیں اور ہمارے مسائل وہاں اجاگر کریں 2008ء سے 2013ء تک میں نے قلعہ عبداللہ کو گیس کی فراہمی کے لئے ضروری کام کیا فزیبلٹی رپورٹ تیار کرائی ۔
سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سے منظوری بھی لی مگر گیس نہیں ملی اب پھر معلوم ہوا ہے کہ گیس کی منظوری ہوئی ہے مگر گیس نہیں دی جارہی اس حوالے سے اراکین کو مل کر بلوچستان کا کیس لڑنا چاہئے یہ عجیب بات ہے کہ حکومتی بینچز سے رکن اٹھتا ہے یہاں سوال لاتا ہے جو حکومتی بینچ ہی سے متعلق ہوتا ہے سوال یہ ہے کہ آپ یہ سوال کابینہ میں کیوں نہیں اٹھاتے۔
ہم گیس فراہمی سے متعلق قرار داد کی حمایت کرتے ہیں تاہم ہماری تجویز ہے کہ اس میں تمام اضلاع کو شامل کیا جائے ۔چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی عبدالمجیدخان اچکزئی نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کااپنا قانون ہے اور اس کی اپنی تقسیم ہے یہاں جنگ اللہ تعالیٰ کی تقسیم پر نہیں اللہ تعالیٰ نے جو چیزیں ہمیں دی ہیں وہ ہمیں نہیں دے رہے ۔
موجودہ حکومت میں پی پی ایل کے ساتھ معاہدہ ہوا اس میں نہ تو صوبے کے بقایہ جات کا ذکر ہے اور نہ ہی مانیٹرنگ کا۔اٹھارہویں ترمیم میں واضح ہے کہ پچاس فیصد وسائل صوبے کے اپنے ہیں کیوں اس پر عملدرآمد نہیں ہوتا پہلا حق ہمارا بنتا ہے یہ کیوں تسلیم نہیں کیا جاتا حد تو یہ ہے کہ کوئٹہ جو کہ صوبے کا دارالحکومت ہے اسے بھی اٹھارہ سال بعد جا کر گیس فراہم کی جاتی ہے کئی سالوں سے این ایف سی ایوارڈ کا اجراء کیوں نہیں ہوتا؟
سیندک میں ہمارے دو فیصد ہیں وہ بھی بڑی مشکل سے ہماری حیثیت یہ ہے کہ پنجاب میں جسے لائن لاسزکہتے ہیں ہمارے ہاں اسے چوری کہاجاتا ہے باقی صوبہ ایک طرف کوئٹہ شہر کو جو گیس ملتی ہے کیا وہ کافی ہے ؟کوئٹہ میں گیس پائپ لائن بچھی تب شہر کی آبادی سات لاکھ تھی آج یہ پچیس لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے گیس ہر ضلع کا حق ہے یہ حق ملنا چاہئے ۔
نیشنل پارٹی کے میر خالد لانگو نے قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ یہ پورے بلوچستان کا حق ہے کہ اسے گیس فراہم کی جائے سوئی سے نکلنے والی گیس نے پنجاب اور سندھ کی صنعتیں چلائیں مگر آج تک ہمارے لوگوں کو گیس میسر نہیں ہے ۔دو تین سال قبل وزیراعظم نے ضلع قلعہ عبداللہ اور خالق آباد کے لئے گیس کی منظوری دی مگر آج تک ہمیں گیس نہیں ملی نے اسلام آباد کے اخبارات میں اشتہارات تک شائع کئے مگر کوئی نتیجہ نہیں نکلا ہمیں ہمارا حق دیا جائے ہم قرار داد کی حمایت کرتے ہیں مگر اس تجویز کے ساتھ کہ اس میں بلوچستان کے تمام اضلاع کو شامل کیاجائے ۔
جے یوآئی کے سردار عبدالرحمان کھیتران نے کہا کہ یہ صرف ہرنائی کا نہیں بلکہ پورے صوبے کا مسئلہ ہے ۔بلوچستان کے تمام علاقوں کو گیس ملنی چاہئے ہمارا حق تسلیم کیا جائے انہوں نے کہا کہ نواب اکبرخان بگٹی نے ماضی میں صوبائی اور وفاقی حکومتوں کو ایک لیٹر لکھا تھا کہ گیس ڈیرہ بگٹی سے نکل رہی ہے ہمیں فی مکعب فٹ پر دو پیسے دیئے جائیں بعد میں ایک پیسہ فی مکعب فٹ کی بات ہوئی مگر وہ بھی نہیں ملے ہم قرار داد کی حمایت کرتے ہیں مگر ہماری تجویز ہے کہ اس میں تمام اضلاع کو شامل کیا جائے ۔
میر اظہار حسین کھوسہ نے بھی قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ یہ اہمیت کی حامل قرار داد ہے ہمارے بیلٹ کو بھی گیس نہیں ملی حالانکہ صحبت پور سے ڈیرہ مراد جمالی قریب ترین ہے وہاں بھی گیس دستیاب نہیں ہمارے علاقوں کو گیس ملنی چاہئے ہم قرار داد کی حمایت کرتے ہیں پورے بلوچستان کو گیس دی جائے ۔
نیشنل پارٹی کی یاسمین لہڑی نے بھی قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ جو پریشان کردینے والی بات ہے وہ یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں ہم جو بات کرتے ہیں اسے اہمیت کیوں نہیں ملتی پارلیمنٹ کی اپنی حیثیت وقار اور اپنا امیج ہے ممبران کی آواز کی کوئی اہمیت نہ ہو تو پھر میرا سوال یہ ہوگا کہ پھر ہم کہاں جائیں ۔
چار پانچ سالوں سے ہم یہاں قرار دادیں لا کر ان پر بحث کرتے ہیں مگر بعد میں ان قرار دادوں کا کیا ہوتا ہے اس حوالے سے ب سوچیں کہ آیا ان قرار دادوں کے فالو اپ کے لئے ہم کیا کریں۔ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے رکن منظور احمدکاکڑ نے بھی قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ یہاں اراکین نے حقوق اور ملکیت کی باتیں یہی تو وہ بات ہے جو تسلیم نہیں ہوتی اگر یہ بات مان لیتے تو ہمیں وفاق کے سامنے رونا نہیں پڑتا۔
صوبے کے باقی علاقے تو ایک طرف رہے یہاں صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں غبرگ نوحصار سرہ غوڑگئی ژڑخو اور دیگر علاقے ایسے ہیں جو آج بھی گیس سے محروم ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ1952ء سے سوئی سے گیس دریافت ہوئی جیساکہ دوستوں نے کہا کہ آج بھی ڈیرہ بگٹی کے اپنے علاقے گیس سے محروم ہیں ہیڈ آفس تک کوئٹہ میں نہیں بلکہ کراچی میں ہے سوال یہ ہے کہ کیا ہم میں اتنی اہلیت بھی نہیں یا پھر کوئی اور وجہ ہے ہیڈ آفس میں بلوچستان کی نمائندگی کتنی ہے ؟زرغون غر کے ساتھ ہنہ اور ہنہ اوڑک ہے اس کو بھی گیس نہیں ملی ۔
بعدازاں قرار داد کے محرک عبدالرحیم زیارتوال نے ایوان کو بتایا کہ انہوں نے صرف ہرنائی کا نام اس لئے قرار داد میں ڈالا ہے کیونکہ گیس ہرنائی سے نکلی اور پورے پاکستان میں سب سے اعلیٰ کوالٹی کی گیس ہے ہم چاہتے ہیں کہ کہیں ہرنائی بھی ڈیرہ بگٹی اور سوئی کی طرح محروم نہ رہ جائے اس لئے ہم کہتے ہیں کہ ہرنائی کی گیس پہلے ہرنائی کو ملنی چاہئے صوبے کے باقی علاقوں کو گیس کی فراہمی کے حوالے سے ہم پہلے بھی قرار دادیں لاتے رہے ہیں مزید بھی اگر قرار داد ہم لانے کو تیار ہیں ۔
بعدازاں سپیکر نے اراکین کی رائے سے قرار داد کی منظوری کی رولنگ دی ۔ اجلاس میں ذاتی وضاحت دیتے ہوئے وزیر صحت رحمت صالح بلوچ نے کہا کہ گزشتہ دنوں چیئر مین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی عبدالمجیدخان اچکزئی نے پریس کانفرنس کی تھی جس میں محکمہ صحت ، پی پی ایچ آئی اور گوادر میں سرکاری زمینوں کی الاٹمنٹ سے متعلق باتیں بھی شامل تھیں ہم سمجھتے ہیں کہ یہ کردار کشی پر مبنی پریس کانفرنس تھی چیئر مین پی اے سی اس فلور پر اس کی وضاحت کریں ۔
صوبائی وزیر صحت نے کہا کہ چیئرمین پی اے سی نے اکتیس ہزار ایکڑ زمین کی الاٹمنٹ کا الزام لگایا وضاحت کریں کہ یہ کس دور میں الاٹ ہوئی ۔ڈاکٹر مالک بلوچ نے بحیثیت وزیراعلیٰ بااثر افراد کی جانب سے گوادر میں الاٹ کرائی گئی ساڑھے تین لاکھ ایکڑ اراضی کی الاٹمنٹ منسوخ کی جہاں تک ادویات کی خریداری کا تعلق ہے تو ایم ایس ڈی میں اس کا ایک پورا طریقہ کار موجود ہے ۔
چیئرمین پی اے سی نے ادویات کی خریداری میں کرپشن کی بات کی ہے میں اس فلور پر انہیں دعوت دیتا ہوں کہ وہ اس کی ایک دو نہیں تین آڈٹ کرالیں بلکہ تھرڈ پارٹی سے ایکسٹرنل آڈٹ بھی کرالیں اگر ذمہ دار ثابت ہوئے تو عوام اور اس ایوان کو جوابدہ ہوں گے ۔
ایسی باتوں سے ہماری دل آزاری ہوئی ہے چیئرمین پی اے سی اپنی پریس کانفرنس کے الزامات کی اس فلور پر وضاحت کریں جس پر سپیکر نے کہا کہ ذاتی وضاحت پر کوئی بھی رکن اپنے حوالے سے کسی بات کی وضاحت کرسکتا ہے تاہم آپ وزیر ہیں اور چیئرمین پی اے سی سے اس فلور پر وضاحت طلب نہیں کرسکتے اس مسئلے کو صوبائی حکومت اور کابینہ کی سطح پر اٹھائیں ۔
پوائنٹ آف آرڈر پر سردار صالح بھوتانی نے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمودخان اچکزئی کو اسمبلی گیلری میں آمد پر خوش آمدید کہا انہو ں نے ایوان کی توجہ اکیس اگست کے مختلف اخبارات میں حب کے مختلف اقوام کی جانب سے ایک اپیل کی جانب مبذول کراتے ہوئے کہا کہ علاقے میں مختلف معدنیات پائی جاتی ہیں اور یہ طویل عرصے سے نکالی جارہی ہیں مگر اب سی پیک کی وجہ سے ان کی افادیت اور کھپت میں اضافہ ہوا ہے تو کچھ بااثر افراد ان عوام کے حق پر ڈاکہ ڈالنے اور مائنز الاٹ کرانے کی کوشش کررہے ہیں یہ اہم نوعیت کا مسئلہ ہے وہاں کے لوگوں کے حقوق کا تحفظ کیاجائے ۔
صوبائی مشیر معدنیات محمدخان لہڑی نے مائنز کی الاٹمنٹ کے حوالے سے طریقہ کار سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ اس کا ایک پورا طریقہ کار ہے تاہم انہوں نے یقین دلایا کہ وہ سردار صالح بھوتانی کی موجودگی میں ڈی جی مائنز کو بلا کر ان کے تحفظات دور کرائیں گے۔