پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے اعلیٰ سرکاری تعلیمی اداروں میں گذشتہ کچھ عرصے سے طالبات کو جنسی طورپر ہراساں کرنے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور پچھلے سات ماہ میں 100 سے زیادہ ایسے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جس میں طالبات کو ہراساں کرنے کی کوشش کی گئی۔
خیبر پختونخوا میں خواتین کی حقوق کے لیے سرگرم غیر سرکاری تنظیم ‘دا حوا لور’ یعنی حوا کی بیٹی کی طرف سے جاری کردہ معلومات کے مطابق صوبے کی تین بڑی سرکاری تعلیمی درس گاہوں پشاور یونیورسٹی، انجنیئرنگ یونیورسٹی اور خیبر میڈیکل کالج میں کچھ عرصے سے ایسے واقعات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
دا حوا لور تنظیم کی سربراہ خورشید بانو نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گذشتہ تقریباً سات ماہ کے دوران ان کی تنظیم کو 100 سے زیادہ ایسی شکایاتیں موصول ہوئی ہیں جن میں جامعات میں پڑھنے والی طالبات کو جنسی طورپر ہراساں کرنے کی کوشش کی گئی۔
انھوں نے کہا کہ ان میں زیادہ تر شکایات انجنئیرنگ یونیورسٹی سے موصول ہوئی جہاں ان کی تنظیم کی طرف سے آگاہی مہم بھی چلائی گئی تھی۔ خورشید بانو کے مطابق شاید تعلیمی اداروں میں یہ واقعات اس سے بھی زیادہ ہوں گے لیکن بدقسمی سے منفی معاشرتی رویوں کی وجہ سے زیادہ تر خواتین سامنے نہیں آتیں۔
ایک سوال کے جواب میں خورشید بانو نے کہا کہ ان واقعات میں تعلیمی درس گاہوں کے چوکیدار سے لے کر اداروں کے سربراہان اور پروفیسر تک ملوث رہے ہیں جبکہ ایک کیس میں یونیورسٹی کے ڈین طالبہ کو ہراساں کرنے کے مرتکب پائے گئے تھے۔
خیبر پختونخوا کے تعلیمی درس گاہوں میں خواتین اساتذہ اور بالخصوص طالبات کو ہراساں کرنے کے واقعات پہلے بھی ہوتے رہے ہیں۔ چند سال پہلے ایسے ہی چند واقعات کو خیبر پختونخوا اسمبلی کے فلور پر اٹھایا گیا تھا جس پر کارروائی کرتے ہوئے یونیورسٹی کے بعض اساتذہ کو نوکریوں سے برطرف کیا گیا تھا۔
اس طرح ایک واقعہ ہزارہ یونیورسٹی میں پیش آیا تھا جس میں ایک خاتون پروفیسر کو ہراساں کرنے کی کوشش کی گئی جس پر ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی گئی۔ اس کے علاوہ خیبر میڈیکل کالج میں بھی خواتین کو ہراساں کرنے پر اساتذہ کے خلاف کارروائی کی گئی ہے۔
یاد رہے کہ حکومت پاکستان نے 2010 میں خواتین کو کام کی جگہ پر اور تعلیمی اداروں میں تحفظ دینے کےلیے ایک قانون بھی منظور کروایا تھا لیکن اس قانون پر عمل درآمد نہ ہونے کی برابر ہے۔
اس قانون کے تحت تمام صوبوں میں محتسب کے ادارے کو قائم کیا جانا تھا جس کا کام جنسی طورپر ہراساں کیے جانے والے خواتین کے کیسز کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرانا ہے۔ تاہم خیبر پختونخوا میں سات سال گزرجانے کے باوجود بھی ایسا کوئی ادارہ قائم نہیں کیا جاسکا ہے۔
خورشید بانو نے مزید بتایا کہ دو ہزار دس قانون کے تحت تعلیمی اداروں میں بھی کمیٹیاں قائم کیے جانے تھے لیکن کسی ادارے کی طرف سے اس ضمن میں توجہ نہیں دی گئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ یونیورسٹیوں میں آگاہی مہم کے ذریعے سے خواتین کے خلاف ایسے واقعات پر قابو پایا جاسکتا ہے لیکن اس کی کامیابی کےلیے درس گاہوں کی انتظامیہ کو بھی سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔دا حوا لور تنظیم کی سربراہ خورشید بانو کے مطابق زیادہ تر شکایات انجنئیرنگ یونیورسٹی سے موصول ہوئی جہاں ان کی تنظیم کی طرف سے آگاہی مہم بھی چلائی گئی تھی
ادھر دوسری طرف پشاور یونیورسٹی کی انتظامیہ نے کہا ہے کہ حالیہ دنوں میں کیمپس کی حدود میں طالبات کو ہراساں کرنے کا کوئی نیا واقعہ رپورٹ نہیں ہوا ہے۔
یونیور سٹی کے ترجمان رفیع اللہ نے رابطہ کرنے پر بی بی سی کو بتایا کہ ایسے واقعات کو روکنے کےلیے یونیورسٹی میں خصوصی طورپر پر کنٹرول بورڈ بنایا گیا ہے جس کا کام ایسے کیسز پر قابو پانا ہے۔
تاہم ترجمان نے اس بات کی تصدیق کی کہ چند سال پہلے یونیورسٹی میں کچھ ہراساں کرنے واقعات پیش آئے تھے جس پر بعدازاں یونیورسٹی کی جانب سے کاروائی کی گئی اور بعض اساتذہ کو ان کی نوکریوں سے برطرف کیا گیا تھا۔