بیجنگ: چین کی حکومت نے ایسے چینی مبلغوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز کردیا جو بیرونِ ملک عیسائیت کے فروغ کے لیے کام کرنے والے اداروں سے منسلک ہیں۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق رواں برس کوئٹہ سے اغوا کے بعد قتل ہونے والے چینی جوڑے کے واقعے نے بیجنگ کو کشمکش کی صورتحال سے دوچار کر دیا کیونکہ مقتولین بلوچستان کے دارالحکومت میں صرف چینی زبان سکھا نہیں رہے تھے بلکہ وہ عیسائیت کی تبلیغ میں بھی مصروف تھے جس میں عام طور پر چینی ملوث نہیں ہوتے۔
چند روز قبل برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق چینی مبلغوں کے بیرونِ ملک مسائل میں گھرنے کی خبر پریشان کن تھی، لیکن اسی دوران بیجنگ کو بیرونِ ملک اپنے شہریوں کی حفاظت کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت تھی۔
اس دوہری مشکل سے دوچار ہونے کے باوجود چینی حکومت نے پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں ہونے والے واقعے کے بعد ملک میں پہلے سے دباؤ کا شکار مسیحیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز کردیا۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق چین میں عیسائیت کی تبلیغ کرنے والے ایک امریکی ادارے کے عہدیدار بوب فو نے بتایا کہ چینی حکومت نے صوبہ زیجیانگ میں ٹارگٹڈ کارروائی کرتے ہوئے 4 عیسائی مبلغوں کو گرفتار کیا جو بیرونِ ملک عیسائیت کی تبلیغ کے مشن سے وابستہ تھے۔انہوں نے مزید بتایا کہ ان افراد کو رہا کیا جا چکا ہے تاہم ان پر ٹیلی ویژ ن چینلز کو انٹرویو دینے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
مذکورہ عہدیدار کا یہ بھی کہنا تھا کہ شی جن پنگ کے صدر بننے کے بعد سے چین میں موجود 10 کروڑ مسیحیوں کو کڑی نگرانی کا سامنا ہے جبکہ پاکستان میں ہونے والے واقعے کے بعد سے چین میں عیسائیوں کی حالت مزید خراب ہوگئی ہے۔
خیال رہے کہ شدت پسند تنظیم داعش نے رواں برس 24 مئی کو دو چینی شہریوں 24 سالہ لی زنگ یانگ اور 26 سالہ خاتون مینگ لی سی کو اغوا کر لیا تھا بعد ازاں انہوں نے 8 جون کو چینی جوڑے کو قتل کرنے کا اعلان کیا تھا۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق صوبہ زیجیانگ میں ہزاروں کی تعداد میں گھروں میں بنائے گئے پروٹیسٹنٹ چرچ موجود ہیں جن کے ممبران اکثر اپنے گھروں میں خفیہ ملاقاتیں کرتے ہیں۔بی بی سی کے مطابق کوئٹہ میں مارے جانے والے جوڑے کا تعلق صوبہ زیجیانگ سے نہیں تھا، تاہم یہ دونوں چینی شہری زیجیانگ کے ایک پروٹیسٹنٹ چرچ سے منسلک تھے۔
لی زنگ یانگ کی والدہ نے رپورٹرز کو بتایا کہ پاکستان جانے سے قبل ان کے بیٹے کی مینگ لی سی سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی تھی، انہوں نے سوچا تھا کہ وہ پاکستان صرف چینی زبان سکھانے کی غرض سے جارہے ہیں۔
دونوں چینی باشندوں کے اغوا کے بعد پاکستانی فوج نے مستونگ کے علاقے میں 3 روزہ فوج آپریشن کیا تھا۔کوئٹہ کے اس پوش علاقے میں رہائش پذیر ایک شخص نے بتایا کہ انہوں نے چینی شہریوں کو یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ ’ہم سب گناہ گار ہیں‘ جبکہ یہ افراد علاقے میں لیف لیٹس، انگوٹھیاں اور بریس لیٹس بھی تقسیم کرتے تھے۔
ایک دوسرے شخص نے بتایا کہ اس نے تین خواتین کو دیکھا تھا جو پشتو اور اردو زبان بول رہی تھیں اور علاقے میں عیسائیت کی تبلیغ کے لیے کوئی کام کر رہی تھیں۔صوبائی دار الحکومت میں رواں برس مئی میں ہونے والے اس واقعے سے قبل عام طور پر چینی شہری سڑکوں پر نظر آجاتے تھے تاہم اب وہ سڑکوں سے کہیں غائب ہوگئے ہیں۔