|

وقتِ اشاعت :   September 6 – 2017

حکومت کی خاموشی سے یہ بات درست تصور کی جائے کہ کچھی کینال کا منصوبہ ہمیشہ کے لئے ترک کردیا گیا ہے ۔ بگٹی قبائلی علاقے تک نہر کی تعمیر کے بعد اس منصوبہ کو ترک کردیا گیا ہے ۔ موجودہ نہر سے 72ہزار ایکڑ زمین بلوچستان کے صرف ایک سرے پر آباد ہوگی ۔ باقی دومراحل کی تعمیرات ترک کردی گئیں ہیں۔

وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی خاموشی سے اب بلوچستان میں سات لاکھ ایکڑ زمین آباد نہیں ہوگی اور نہ ہی صوبوں کے درمیان 1991ء کے دریائے سندھ کی پانی تقسیم معاہدے کے تحت بلوچستان کو اب یا مستقبل میں دس ہزار کیوسک پانی ملے گا۔ بلوچستان کی سرزمین کو بنجر رکھنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے کچھی کینال کا اصل منصوبہ نیپ کی حکومت اور خصوصی طورپر میر غوث بخش بزنجو کی ہدایت پر صوبائی حکومت نے بنایا تھا ۔

نصف صدی بعد بھی یہ منصوبہ مکمل نہیں کیا گیا حالانکہ صوبوں کے درمیان پانی تقسیم کے معاہدے کی صورت میں کچھی کینال کو مکمل ہونا تھاجس کی رو سے بلوچستان اپنے حصے کاپانی استعمال کرتا۔ اس معاہدے کے بڑے گارنٹر میاں شہباز شریف تھے وزیراعظم کے چھوٹے بھائی نے یہ معاہدہ کروایا تھا ، اب وہی اس پر عمل بھی کروائیں ۔ پنجاب میں بعض متعصب افسران کی بد دیانتی کی و جہ سے کالا باغ ڈیم نہ بن سکا ۔ وجہ یہ تھی کہ صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کے معاہدے پر عمل نہیں کیا گیا ۔

بلوچستان کو یکسر نہری پانی سے محروم کردیا گیا پٹ فیڈر میں چھ ہزار کیوسک کے بجائے 14سو کیوسک پانی آتاہے اور کیر تھر کینال میں پانی کا بہاؤ 2400کیوسک کے بجائے700کیوسک ہے یعنی نصف سے بھی کم پانی چھوڑا گیا ۔ بہت زیادہ احتجاج کے بعد پٹ فیڈر میں پانی کا بہاؤ تین ہزار کیوسک اور کیر تھر میں 1400کیوسک کیاگیا ۔ مقصد صرف یہ تھا کہ بلوچستان کی معیشت کو تباہ کیا جائے۔ 

افسوسناک بات یہ ہے کہ وفاقی پارلیمان میں بلوچ عوام کے نمائندوں نے اس مسئلے پر خاموشی اختیار کر رکھی کی ہے ۔ ابتداء ہی سے صوبائی حکومت کو صرف ایم پی اے فنڈ کے علاوہ کسی بھی چیز سے دلچسپی نہیں رہی ۔ ان کی دلچسپی صرف اور صرف پی ایس ڈی پی تک محدود ہے ۔ 

سال کے 300دن صرف اسی پر بحث ہوتی ہے کہ کس کو کتنا ملا، باقی تمام معاملات نوکر شاہی کے حوالے ہیں ۔ صرف یہ کچھی کینال کا معاملہ نہیں ہے گوادر پورٹ پر پہلا مرحلہ مکمل کرنے یا تین برتھیں تعمیر کرنے کے بعد کام بند کر دیا گیا ۔ سول ایوی ایشن اتھارٹی کا کوئی ارادہ نظر نہیں آتاکہ گوادر کا نیا ائر پورٹ تعمیر کیا جائے ۔ گوادر کے بجلی گھر پر کام ابھی تک شروع نہیں ہوا ، نہ ہی پورٹ کو ساحلی شاہراہ سے ملانے کاکام شروع ہوا ہے۔ 

انکارہ کور ڈیم تباہ ہونے کے بعد اس کی تعمیر نو اور بحالی میں کسی کو دلچسپی نہیں۔ میرانی ڈیم کے بعد بڑے پیمانے پر ڈیم تعمیر کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ، ساحلی شاہراہ کو بین الاقوامی معیار کی شاہراہ بنانے کا حکومت کے پاس تصور ہی نہیں ہے ۔شادی کور ڈیم سیلاب میں تباہ ہوگیا تھا اب اس کی تعمیر نو ہورہی ہے ، دہائیاں گزر گئیں یہ ڈیم مکمل ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔ گوادر‘ رتو ڈیرو روڈ کی تعمیر ابھی تک مکمل نہیں ہوئی ، دشوار گزار پہاڑی علاقے کو کسی نے ہاتھ تک نہیں لگایا ۔ 

اگر نیک نیتی سے کام کیاجائے، تو گوادر ‘ رتو ڈیرو شاہراہ دو سال کے عرصے میں تعمیر ہوگی ۔ نولانگ ڈیم کو ابھی تک سرد خانے سے نہیں نکالا گیا ، اس پر تعمیرات کا آغاز دور کی بات ہے ۔ وندر کی ندی پر ڈیم کی تعمیر آصف زرداری کے جانے کے بعد سرد خانے میں ڈال دی گئی ۔ 

جہاں تک گیس کی فراہمی کا تعلق ہے ، نواز شریف نے حکومت میں آتے ہی پاکستان ‘ ایران گیس پائپ لائن کو بند کردیا کیونکہ اس پائپ لائن سے فائدہ سندھ اور بلوچستان کو ملنا تھا جو نواز شریف اور شہباز شریف جیسے متعصب حکمرانوں کے لئے قابل قبول نہیں ۔ 

انہوں نے LPGگیس کا معاہدہ کیا بقول شیخ رشید کے مہنگے داموں گیس خریدی گئی اور دو ارب ڈالر سے زیادہ کمیشن وصول کیا گیا ۔ بلوچستان میں زیادہ مہنگے داموں بجلی پیدا کی جارہی ہے۔ حبکو اور گوادر کے بجلی گھر اس کی مثال ہیں ’ ان کیلئے کوئلہ جنوبی افریقہ سے در آمد ہوگی بلوچستان کا کوئلہ استعمال نہیں ہوگا۔ ایران صرف چھ روپے فی یونٹ فروخت کرنے کو تیا رہے جبکہ چین بارہ روپے فی یونٹ بجلی تیار کرے گا۔