کوئٹہ: عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر اصغرخان اچکزئی نے مردم شماری کے نتائج کو جواز بنا کر برادر اقوام کے مابین تعصب کو بڑھاوا دینے کے بیانات کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ صوبے میں رہنے والی تمام اقوام اب باشعور ہوچکی ہیں اور کسی کے بہکاوے میں آکر برادر قوموں کے خلاف اب کوئی صف آرا نہیں ہوگا ،اگرتخت لاہور کے اتحادیوں سے فاٹا کا انضمام رکوایا جاسکتا ہے ۔
تو پشتونوں کے حقوق مردم شماری اور دیگر مسائل کے لئے کیونکر تخت لاہور سے بات نہیں کی جاتی ،حالیہ مردم شماری میں فاٹاکی آباد ی کو بہت کم ظاہر کیا گیا ہے اے این پی فاٹا کے منتخب نمائندگان کے مطالبے کی حمایت کرتے ہوئے ان کے تحفظات کے ازالے کا مطالبہ کرتی ہے ،
پشتون بلوچ اور دیگر برادر اقوام کے مابین نفرتوں کی کوئی گنجائش نہیں حکمران سابقہ غلطیوں کے نتائج تسلیم کرنے کی بجائے الٹے بیانات دے رہے ہیں جو باعث افسوس ہے ۔
عوامی نیشنل پارٹی کسی کو یہ اجازت نہیں دے سکتی کہ وہ برادر اقوام کے مابین نفرت اور جذبات کی آڑ میں اپنی منفی سیاست کو دوام دے۔
ان خیالات کااظہار انہوں نے پشتون خدمت گار یونٹ چمن کے زیراہتمام چمن میں منعقدہ ورکرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔تقریب سے ضلعی صدر اسد خان ،گل باران افغان،ملک عمر غوث اچکزئی،احمدشاہ ،نعمت اللہ ،سمیع اللہ اور دیگر نے بھی خطاب کیا ۔
ورکرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے اے این پی کے صوبائی صدر اصغرخان اچکزئی نے کہا کہ پشتونوں کے خلاف ہر طرف سے سازشیں ہورہی ہیں پشتونوں کی اس حالت کی ذمہ داری تخت لاہور کے حکمرانوں پر عائد ہ ہوتی ہے جن کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے آج ہم ہر طرف سے آگ میں گھرے ہوئے ہیں اور نہ صرف اپنے وسائل سے محروم ہیں بلکہ مختلف مسائل کا بھی شکار ہیں ۔
انہوں نے مردم شماری کے نتائج کے حوالے سے آنے والے بیانات کو افسوسناک اور مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ 1998ء کی مردم شماری کا بائیکاٹ کرنے کے منفی نقصانات آج تک ہم صوبے میں بھگت رہے ہیں
ماضی کے بائیکاٹ اور حالیہ ساڑھے چار سال کی بد ترین طرز حکمرانی کرپشن دھونس دھاندلی اور کمیشن خوری پر مبنی طرزحکومت کو اس طرح کے بیانات کے ذریعے لوگوں کے دل و دماغ سے ہٹایا نہیں جاسکتا عوام ایک ایک چیز کو دیکھ رہے ہیں اورتاریخ اپنا فیصلہ لکھ رہی ہے کہ کس طرح سے قوم کے نام پر قوم کے ساتھ مذاق کیا گیا ۔
انہوں نے کہا کہ تخت لاہور کے حکمرانوں سے سازباز کرنے والے مردم شماری کو بھول گئے تھے انہیں اب ہوش آیا ہے یہ کتنی عجیب بات ہے کہ اپنے ذاتی مفادات کے لئے تو تخت لاہور کے حکمرانوں سے بار بار رابطہ کیا جاتا ہے
تخت لاہور کے حکمرانوں کو فاٹا انضمام رکوانے پر مجبور کیا جاسکتا ہے مگر مردم شماری کے مسئلے پر تخت لاہور کے حکمرانوں سے بات کرنے کی بجائے یہاں صوبے میں بیانات دے کر برادر اقوام کے مابین تعصب کو ہوا دی جارہی ہے بار بار برابری کا مطالبہ کیا جاتا ہے ۔
ہمارا سوال یہ ہے کہ آپ برابری کا مطالبہ کس سے کررہے ہو آپ خود حکمران ہو آپ نے ڈاکٹر مالک کے ساتھ کیوں کوئی فارمولہ طے نہیں کیا یا اس کے لئے آج نواب ثناء اللہ زہری سے کیوں کوئی فارمولہ طے نہیں کیا جاتا اس مسئلے پر تخت لاہور کے اتحادیوں سے بھی وہ بات نہیں کرتے کیونکہ انہیں ذاتی مفادات اور اقرباء پروری سے فرصت نہیں برابری بیانات سے نہیں آتی ۔
اس کے لئے کام کرنا پڑتا ہے یہ صوبے کی تاریخ کی پہلی بد ترین اور بدنام ترین حکومت ہے جس میں حکومت میں رہتے ہوئے وزیروں کے خلاف ریفرنسز بن رہے ہیں صوبے کی تاریخ کا میگا کرپشن اسی دور حکومت میں سامنے آیا سرکاری خزانے کے پیسے ذاتی بنگلوں سے برآمدہورہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کا خمیازہ آج عوام بھگت رہے ہیں ساڑھے چار سالہ حکومت کے بعد اب انہیں عوام کی یاد آرہی ہے مگر ان ساڑھے چار سالوں میں انہوں نے جس طرز حکمرانی کی بنیاد ڈالی اس نے نہ صرف ان کی اصلیت عوام پر واضح کردی بلکہ خود تنظیمی ساکھ بھی کھوچکے ہیں اور اب اسی ساکھ کی بحالی کے لئے مردم شماری کو جواز بنا کر بیانات دیئے جارہے ہیں ہم اس سازش سے اچھی طرح آگاہ ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ فاٹا کے عوام کے ساتھ موجودہ دور حکومت میں بہت زیادتیاں ہوئی ہیں مردم شماری میں بھی ان کی آبادی کو کم ظاہر کیا گیا ہے جس کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں تاہم اس حوالے سے فاٹا کے عوامی نمائندگان نے جو مطالبہ کیا ہے ہم اس کی حمایت کرتے ہیں یہ ضروری ہے کہ فاٹا کے عوام کے تحفظات کا ازالہ کیا جائے ۔
انہوں نے کہا کہ مردم شماری اور دیگر مسائل پر سیاست کرنے کی بجائے حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں صوبے کی برادر اقوام کو مزید ایک دوسر ے سے دور کرنے کی سازشیں ہم ناکام بنادیں گے ۔
انہوں نے کہا کہ ہم پشتون بلوچ عوام سے یہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ سازشی عناصر کی سازش کو سمجھتے ہوئے اپنی صفوں پرنظر دوڑائیں اتحاد اور اتفاق ہی ہمیں درپیش مسائل سے نجات دلاسکتا ہے پشتون بلوچ اقوام کی شاندار تاریخ رہی ہے
ہم اپنے آپسی مسائل اپنی روایات کے مطابق حل کرسکتے ہیں اس کے لئے ہمیں اتحاد و اتفاق کو اولیت دینی ہوگی کیونکہ متحد ہو کر ہی ہم اپنے حقوق حاصل کرسکتے ہیں اور مسائل کا حل نکال سکتے ہیں ۔