دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ’’ قرآن مجید‘‘ ہے جس کی نزول پر مسلمانوں پر خیر و برکت کے دروازے کھل گئے ۔
ہر اچھی کتاب انسان کا دوست ہے ساری زندگی میں انسان کی اخلاقیات کو سنوارتی رہتی ہے کتاب زندہ ہے پڑھنے والے بھی زندہ ہیں ۔
کتاب جتنی پرانی اور بوسیدہ ہوتی ہے تو اس کی قیمت اور زیادہ ہوتی ہے ۔ مارکیٹ میں کتابوں کی قیمتیں بڑھتی جارہی ہیں ۔ پہلے ایک کتاب کی قیمت دس روپے تھی اب ایک ہزار روپے ہے کمپیوٹر پرانا ہو تو ناکارہ ہوجاتا ہے ۔
موبائل فونز میں بیٹری یا پاور نہ ہو تو وہ نہیں چلتے ۔کتاب خود ایک پاور ہے۔ کتاب بینی کے لئے الیکٹرک آلات کی ضرورت نہیں پڑتی ۔ سورج اور چاند کی روشنی میں کتاب پڑھی جا سکتی ہے ۔ کتب بینی سے علم میں اضافہ ہوتا ہے ۔
جو وقت مطالعہ میں گزرتا ہے وہ بڑھاپے کا آئینہ دار ہوتا ہے ۔عالم تاریخ اس بات کی گواہ ہے قوموں کی ترقی اور معاشی خوشحالی کے پیمانے اور منصوبہ بندیاں کتابوں سے ازبر ہوئے ۔
امریکا کے ابراہیم لنکن ‘ برطانیہ کے ونسٹن چرچل‘ مارگریٹ تھیچر ‘ جنوب مشرقی ایشیاء کے مہاتیر محمد ‘ جنوبی افریقہ کے نیلسن منڈیلا ‘ چین کے ماؤزے تنگ ،لاطینی امریکا کے صدر ہوگو شاویز ‘ بر صغیر ہندو پاک میں قائداعظم محمد علی جناب اور جواہر لال نہرو ایسے نام ہیں جنہوں نے اپنی بے پناہ قائدانہ صلاحیتوں کو کتابوں کے اوراق سے ڈھونڈکر قوم اور ملک کی تقدیر بدل ڈالی۔
اس مقصد کے لئے دنیا کے تمام ممالک کے بجٹ کا ایک حصہ کتابوں کی خریداری اور لائبریوں کی تعمیر کے لئے مختص ہوتا ہے اس جدید دورمیں ہر ملک میں بڑی بڑی لائبریاں قائم ہیں جہاں لاکھوں کی تعداد میں کتابیں رکھنے کی گنجائش ہے لوگوں کا زیادہ وقت کتب بینی میں گزرتا ہے۔
کتابوں میں وسیع پیمانے پر مواد پایا جاتا ہے جس نے کتاب نہیں پڑھی دانشوروں نے کتاب نہیں لکھی ‘ تو انہوں نے گویا علم و دانش میں خیانت کی ۔
مجموعی طورپر کتاب طلباء اور طالبات کے ریسرچ کاموں کیلئے سود مند ہوتی ہے ۔ تمام تعلیمی اداروں میں درجہ بندی کی کتابیں موجود ہیں ،اچھی کتابوں کی تلاش میں ‘ دانشور طبقہ بے قرار رہتا ہے ۔
سابق ڈائریکٹر تعلیمات پروفیسر خالد بلوچ ڈگری کالج پنجگور میں کتب بینی کی اہمیت کے بارے میں طلباء سے خطاب کررہے تھے ۔
انہوں نے کہا کہ انکو ایک کتاب کی تلاش میں مشکل مراحل سے گزرنا پڑا سندھ کی دھرتی ‘ پانچ دریاؤں کی سرزمین ( پنجاب ) اور خیبر پختون خوا کے برف پوش پہاڑوں میں سفر کرتے ہوئے آخر کار یہ کتاب پشاور یونیورسٹی لائبریری سے دستیاب ہوئی۔ کتاب کا نام میری یادداشت سے مٹ چکی ہے ۔ معذرت خواہ ہوں ۔
اس حوالے سے گوادر میں کتب میلہ بلوچستان میں ایک بہت بڑی کامیابی ہے گوادر نہ صرف سی پیک کا حصہ بلکہ علم و ادب کا دروازہ ہے ۔
جس کے باعث علم و عمل کی خوشبو بلوچستان کے پہاڑوں ‘ میدانوں اور وادیوں میں پھیل چکی ہے ۔ طلباء اور طالبات پر لازم ہے کہ کتب بینی کو اپنا شعار بنا لیں ۔ کتاب زندگی کا ساتھی ہے ۔
کتاب کے الفاظ آپکے پیچھے خود بخود دوڑتے ہیں آپ کے علم میں اضافہ کرکے دانشوروں کی روپ میں دھارنے کی کوشش کرتے ہیں سول ملازمین ‘ فوجی کرنل ‘ جنرل ریٹائرڈ ہوتے ہیں تو ان کا زیادہ وقت لائبریریوں میں گزرتا ہے معیاری کتابوں کے مصنف بن جاتے ہیں اخبارات اور رسائل میں کالم نویس بن جاتے ہیں ۔
اس کے علاوہ سی ‘ ایس ‘ ایس ‘ پی سی ایس اور پی ایم ایس ‘ امتحانات کی تیاری کیلئے کتابوں کا سہارا لینا پڑتا ہے جو علمی حالات حاضرہ ‘ تاریخی و جغرافیائی معلومات اسلامی معلومات ‘ ادبی معلومات ‘ سائنسی معلومات وغیرہ سے استفادہ کیا جاتا ہے ۔
شکر الحمد اللہ ‘ بلوچستان علم و ادب کے معاملے میں بہت زرخیز ہے ۔ ہمارے بزرگ دانشوروں نے اس دشت میں کوتاہی نہیں بھرتی ‘ بلکہ علم و عمل کا کافی علمی سرمایہ چھوڑا۔قوموں کو علمی شعور دلانے میں بلوچستان کی پیاسی سرزمین کو سرسبز و شادب کیا، اب ہمیں انگریز مصنفین کی ضرورت نہیں۔
ہمارے اسکالرز اور دانشوروں کی کتابیں عالمی مارکیٹ میں بہت شہرت کی حامل ہیں مختلف انواع و موضوعات پر کتابیں لکھ کر بلوچستان کا قرض اتار دیا ہے ۔
سیاسی قائدین کا فرض بنتا ہے کہ وہ ہر گاؤں میں لائربریری قائم کریں، لائبریریوں کو کتابوں سے مزین کرکے نوجوانوں کو گمراہی کے بجائے کتب بینی کی طرف راغب کریں، لکھاریوں کی کتابیں چھاپنے کے لئے فنڈز فراہم کریں ۔
ہمارے پیشرو سیاسی قائدین نے اپنے اپنے علاقوں میں لائبریریاں اور اکیڈمیاں قائم کرکے لوگوں کو علمی سہولت سے مالا مال کیا۔
اس ضمن میں قلات میں خان قلات کی لائبریری ‘ ڈیرہ بگٹی میں اکبر خان بگٹی لائبریری ‘ خضدار نال میں غوث بخش بزنجو لائبریری ‘ مری میں نواب خیر بخش لائبریری ‘ سبی میں نواب غوث بخش رئیسانی لائبریری ‘ وڈھ خضدار میں سردارعطاء اللہ جان مینگل کی لائبریری ،زہری میں سردار ثناء اللہ زہری کی لائبریری ، شیر باز مزاری لائبریری اورکوئٹہ میں محمود اچکزئی لائبریری قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ بلوچستان کے بعض اضلاع میں لائبریری اور اکیڈمیاں قائم ہیں جن سے نوجوانوں کی ذہنی آبیاری ہورہی ہے ۔