بعض حضرات خصوصاً چند ایک ریٹائرڈ افسران اور ایک سے زیادہ بار عمران خان ملک میں صدارتی نظام کا مطالبہ کرچکے ہیں۔ شاید ان کو پاکستان کی سیاسی تاریخ کا علم نہیں ۔
ایوب خان نے ملک میں مارشل لاء کے ساتھ ساتھ صدارتی نظام رائج کیا تھا۔ 1962ء کے آئین کی بنیاد صدارتی نظام پر تھی۔
اس آئین کو نہ صرف ملک بھر کے عوام بلکہ خود فوجی حکمرانوں نے مسترد کردیا تھااورپھر اس آئین کے خالق فیلڈ مارشل ایوب خان نے اپنے دست مبارک سے 1962ء کے آئین کو منسوخ کیا تھا اور ملک میں مارشل لاء لگا کر اقتدار جنرل یحییٰ خان کے حوالے کیا تھا ۔
1962ء کے آئین کے تحت قانونی طورپر اقتدار ملک کے نائب صدر کے حوالے کرنا تھا چونکہ وہ ایک بنگالی تھے اور نا پسندیدہ شخصیت تصور کیے جاتے تھے اس لیے مارشل لاء لگا کر اقتدار جنرل یحییٰ خان کے حوالے کیا گیا ۔
اس کے علاوہ غیر منقسم پاکستان کے طول و عرض میں ایوب خان اور اس کے صدارتی نظام کے خلاف زبردست احتجاج اور خونی مظاہرے ہوئے جن میں ہزاروں لوگ شہید ہوئے ۔
ملک کا کوئی ایسا حصہ نہیں تھا جہاں مظاہرے نہ ہوئے ہوں۔ اس طرح عوام نے اپنے زبردست احتجاج سے پورے صدارتی نظام کوہمیشہ ہمیشہ کے لئے دفن کر دیا ۔
اب اس کے دوبارہ آنے کے امکانات نہیں ہیں، صرف سیاست اور سیاسی تاریخ سے نا بلد شخص ہی صداتی نظام کا مطالبہ کرسکتا ہے ۔
پاکستان ایک وفاقی ریاست ہے وفاقی اکائیوں نے رضا کارانہ طورپر اس ملک کو بنایا تھا پاکستان نام کی کوئی چیز اس کائنات میں موجود نہیں تھی ۔
وفاقی اکائیوں نے تشکیل پاکستان کے لیے اپنے اہم ترین قانونی اور آئینی اختیارات نئی پاکستانی ریاست کو تقویض کیے تھے جس کے بعد ہی پاکستان وجود میں آیا۔
پوری کی پوری زمین وفاقی اکائیوں کی ملکیت ہے ، وفاقی دارالحکومت کا علاقہ اور دوسرے ریاستی اداروں کو زمین صوبوں یا وفاقی اکائیوں نے فراہم کی جہاں پر ریاستی ادارے کام کررہے ہیں۔پاکستان کوئی قومی ریاست نہیں ہے، یہ وفاقی ریاست ہے جہاں پر وفاقی اکائیاں ابھی تک کامیابی کے ساتھ کام کررہی ہیں ۔
یہ الگ بات ہے کہ بعض طاقتور ادارے اور حکمران اس نظام سے اس لیے نفرت کرتے ہیں کہ آئینی طورپر ان کے اختیارات پر قدغن لگایا گیا ہے ۔
وفاقی اکائیاں اور صوبائی حکومتوں کو وہ تمام اختیارات حاصل ہیں جو وفاقی حکومت کو حاصل ہیں ۔
ان میں سے بعض ضروری اختیارات وفاقی اکائیوں نے وفاقی حکومت کو تقویض کی ہیں ان میں خارجہ پالیسی ‘ دفاع اور چند ایک دوسرے شعبے شامل ہیں۔
ویسے صوبائی حکومتوں کی اپنی خودمختار انتظامیہ ‘ اعلیٰ عدلیہ ‘ طاقتور مقننہ یا اسمبلی موجود ہے ۔
صوبے وفاق کے کسی طرح بھی تابع نہیں ہیں یہ جمہوریت کی روح ہے اس لیے پاکستان ایک وفاقی اور پارلیمانی ریاست ہے، اس میں وزیراعظم اور ان کی پوری حکومت پارلیمان کے سامنے جوابدہ ہے۔
قومی اسمبلی کے ساتھ ساتھ سینٹ بھی موجود ہے جس کا مقصد صوبوں کے حقوق کا تحفظ کرناہے ۔ دوسری جانب صدارتی نظام ایک فرد واحد پر مشتمل ہوتاہے، وہ ملک کے سیاہ و سفید کا مالک ہوتا ہے ۔
فیلڈ مارشل ایوب خان اور یحییٰ خان اس کی بد ترین مثالیں ہیں ۔ صدارتی نظام کی اتنی زبردست مخالفت ہوئی کہ ملک کی پوری انتظامیہ مفلوج ہو کر رہ گئی اور آخری حل مارشل لاء کی صورت میں نکالا گیا ۔
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ موجودہ صورت حال میں ملک کے وفاقی اکائیوں کو زیادہ مستحکم اور فعال بنایا جائے تاکہ دشمن ملک کو میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہ کر سکیں ۔
وفاقی اکائیوں کو مزید کمزور کرنے کی کوششیں بند کی جائیں کیونکہ یہ پاکستانی ریاست کا حصہ ہیں ، ان کو زیادہ خودمختار بنایا جائے تاکہ اس کا فائدہ مجموعی طورپر عوام کو پہنچ سکے ۔
صوبوں کو خودمختار اور زیادہ طاقتور بنایاجائے ، اختیارات کی نچلی سطح تک تقسیم کو یقینی بنایاجائے ۔ پاکستان کے عوام پر صدارتی نظام کے بہانے کوئی حاکم اعلیٰ مسلط نہ کیاجائے ۔