لندن: پاکستان مسلم لیگ کے مرکزی رہنماؤں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ عدالتوں کا بائیکاٹ کریں گے، شریف خاندان کے افراد اور وزیرخزانہ اسحاق ڈار عدالتوں میں پیش نہیں ہوں گے۔
نیب نے تین ریفرنس شریف خاندان کیخلاف اور ایک ریفرنس اسحاق ڈار کیخلاف عدالتم یں دائر کی ہیں۔
اسحاق ڈار کیخلاف سماعت 25ستمبر کو اور شریف خاندان کیخلاف 26ستمبر کو سماعت ہوگی، اس سے قبل عدالت نے شریف خاندان اور اسحاق ڈار کے تمام اثاثے منجمد کر دیئے گئے ہیں،
یہ بھی فیصلہ ہوا ہے کہ نواز شریف وطن واپس نہیں آئیں گے اور اپنے حق میں دنیا بھر پروپیگنڈا مہم چلائیں گے۔
اجلاس میں وزیراعظم پاکستان وزیرخارجہ اور دوسرے اہم ترین رہنماء شریک تھے، یہ بھی فیصلہ کیاگیا کہ اسحاق ڈار وزیرخزانہ کے عہدے سے استعفیٰ دیں گے ، ممکن ہے کہ عدالت ان کو اور نواز شریف کو مفرور قرار دے ،اسحاق ڈار فوری طور پر استعفیٰ دیں گے ان کی جگہ رانا محمد افضل نئے وزیر خزانہ ہوں گے۔
بعد ازاں سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ جی ٹی روڈ پر جو موقف اختیار کیا تھا، پاکستان کے عوام نے میرے اس موقف کی تائید کر دی ہے، وزیراعظم سے کہا ہے کہ این اے 120سے غائب ہونے والے مسلم لیگ (ن) کے کارکنان کے بارے میں انکوائری کرائیں، کالعدم تنظیموں کے الیکشن لڑنے کے حوالے سے میڈیا میں جو باتیں آئی ہیں وہ پوری قوم کیلئے باعث تشویش ہیں۔
جمہوری قوتوں کو ان چیزوں کا نقصان ہو گا،وزیراعظم سے مشاورت ہوئی ہے اور یہ مشاورت کا سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا،
بیگم کلثوم کاعلاج چل رہاہے ، عوام جلد صحتیابی کی دعا کریں، دوسری جانب نواز شریف نے وطن واپسی پر سوال کا جواب دینے سے گریز ، خاموشی اختیار کرتے ہوئے روانہ ہوگئے ۔
ہفتہ کو انہوں نے یہ بات وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے ملاقات کے بعد اپنے بیٹے حسن نواز کے دفتر کے باہر میڈیا سے مختصر بات چیت کرتے ہوئے کہی۔
نواز شریف نے کہا کہ وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہونے کے بعد جب وہ بذریعہ سڑک اسلام آباد سے لاہور جی ٹی روڈ کیلئے گئے تو اس دوران چار دن تک جو خطابات کئے ان میں جو موقف اختیار کیا گیا تھا وہ درست ثابت ہوا ہے اور عوام نے بھی اس کی تائید کی ہے۔
حلقہ این اے 120 کے ضمنی الیکشن کے نتائج قوم کے سامنے آچکے ہیں اور عوام نے میرے موقف کی نا صرف تائید کی بلکہ اس کی تائید میں مہریں بھی لگائی ہیں۔انہوں نے کہا کہ جو لوگ اس الیکشن کے موقع پر غائب ہوئے تھے آج میں نے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو کہا ہے کہ وہ ذاتی طور پر اس کی انکوائری کریں تا کہ معلوم ہو سکے کہ یہ لوگ کیوں غائب ہوتے تھے۔
جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ ضمنی الیکشن میں کالعدم تنظیموں کے امیدواروں نے مذہبی بنیادوں پر ووٹ مانگا اور کالعدم تنظیموں کو الیکشن لڑنے کی اجازت دی گئی، جس پر نواز شریف نے کہا کہ اس حوالے سے اخبارات اور میڈیا میں بہت سے تجزیے اور رپورٹس آچکی ہیں،
جو ملک و قوم کیلئے تشویش کا باعث ہیں اور جمہوری قوتوں کو ان چیزوں کا نقصان پہنچے گا، خدانخواستہ صورتحال کوئی اور رخ بھی اختیار کر سکتی ہے، ۔
جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ وزیراعظم سے ملاقات میں نئے چیئرمین نیب کے تقرر پر کوئی بات ہوئی ہے تو نواز شریف نے کہا کہ آج وزیراعظم سے ملاقات میں نئے چیئرمین نیب کے تقرر پر کوئی بات نہیں ہوئی، انہوں نے کہا کہ مشاورت ہوتی رہتی ہے اور مشاورت پر عمل آئندہ بھی جاری رہے گا۔
بیگم کلثوم کی صحت یابی کے حوالے سے نواز شریف نے کہا کہ ان کی تیسری سرجری کافی بڑی ہوئی ہے ڈاکٹرز نے آرام کا مشورہ دیا ہے اور ابھی ان کا علاج چل رہا ہے، اب آپ لوگ ان کی جلد صحت یابی کیلئے دعا کریں
دوسری جانب جب نواز شریف سے سوال کیا گیا کہ وہ وطن واپس کب آئینگے تو اس پر انہوں نے جواب دینے سے گریز کرتے ہوئے خاموشی اختیار کرلی اور روانہ ہوگئے ۔