لیاری آج کچھ بھی سہی مگر کبھی کچھ اور ہوا کرتا تھا، ہر سمت بکھری رعنائیاں ہر نفس کو جینے کا جواز فراہم کرتی تھیں۔ آج جو کچھ ہم تصور نہیں کرسکتے کبھی وہاں حقیقت ہوا کرتی تھی۔
لوگ مروت، محبت، خلوص ووفا کا پیکرا کہلاتے تھے۔ بناوٹ، سادگی پر رشک کرتے تھے۔ مثبت جذبات، منفی جذبوں پر حاوی رہتے تھے۔ رنگ، نسل، مذہب اور زبان میں تفریق بے معنی تصور کیا جاتا تھا۔
لیاری کے ماضی سے متعلق سطورِ بالا میں لکھی باتیں تقریباً روزانہ کسی عمر رسیدہ شخص سے سننے کو ملتی ہیں۔ جن کے چہرے کی جھریوں میں اپنے ماضی سے محبت اور حال سے شکستگی ومایوسی کی نشانیاں واضح طور پر جھلکتی ہیں۔ رمضا ن بلوچ کی کتاب ’’لیاری کی ادھوری کہانی‘‘ ان باتوں پر مہر ثبت کرتی ہے۔
رمضان بلوچ نے اپنی کتاب میں لیاری کے سیاسی، سماجی، علمی وادبی حالات وواقعات کا احاطہ کیا ہے لیکن ساتھ ساتھ چند معاملات سے پہلوتہی کا جواز بھی پیش کیا ہے۔
رمضان بلوچ اپنی عرضداشت میں لکھتے ہیں ’’ماضی میں میرے اور لیاری کے وہ پرسکون اور آسودہ حالات ناقابل فراموش اور ذہنوں میں ابھی تک نقش ہیں۔ ان تمام یادوں کو سمیٹ کر تحریری شکل دینے کی ایک کوشش کی ہے۔ جو آپ کے سامنے ادھوری کہانی کی صورت میں پیش خدمت ہے۔
ادھوری اس لئے کہ لیاری اور میری کہانی کے چند کربناک گوشے ایسے ضرور ہیں جن کا قلم کی روانی سے اظہار، دشوار گزار عمل ہوگا۔ ایسے لمحات صرف اور صرف محسوس کئے جاسکتے ہیں‘‘۔
لیاری کی سیاسی، سماجی، علمی وادبی طور پر وسعت اور فراخدلی کا اندازہ کرنے کیلئے رمضان بلوچ کی کتاب ایک پیمانہ ہے، جسے پڑھتے ہوئے شاید ہی یہ گماں دیر تک قائم رہے کہ یہ لیاری کی کہانی ہے۔
’’خوشیاں ہی خوشیاں‘‘، ’’من بھر کا سر، چھٹانک بھر کی زبان‘‘، ’’آنکھیں دکھانے کافیصلہ‘‘، ’’عوام سے پہلی مگر تلخ ملاقات‘‘، ’’آدھی رات کو دروازوں پر دستک‘‘، ’’ایک بندہ کم ہے‘‘، ’’آپ نے منشور پڑھا ہے‘‘، ’’اسپرو کی گولی دیجئے‘‘، ’’فکرناٹ‘‘ جیسے ہلکے پھلکے مضامین میں ایک نسل کی تاریخ پوشیدہ ہے جنہیں پڑھ کر قاری کی نظر میں ان مضامین کے معانی بدل جائیں گے۔
رمضان بلوچ ہرگز ایک بڑا لکھاری ہونے کا دعوے دار نہیں! مگر بلا مبالغہ ان کی تحریر اور اندازِ بیان کسی بڑے لکھاری سے کم نہیں۔ ان کے ہاں ضرب الامثال اور محاوروں کا بجا استعمال قاری کی دلچسپی کو دوبالا کرتی ہے۔
رمضان بلوچ اپنے قاری کو جذباتی نہیں کرتے بلکہ وہ انتہائی سنجیدہ نوعیت کی بات بھی طنزیہ اور مزاحیہ انداز میں کرنے میں قدرت رکھتے ہیں۔ مزید یہ کہ ان کی حسِ مزاح اس قدر متحرک ہے کہ وہ ہر واقعہ میں مزاح کا پہلو تلاش کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
اور ان کی بزلہ سنجی سے شاید ہی کسی کی دل آزاری ہوئی ہو۔ رمضان بلوچ کی تحریر پڑھنے اور سمجھنے کیلئے اردو ادب میں ماسٹرز کی ڈگری درکار نہیں بلکہ وہ اپنے عام فہم لفظوں اور جملوں سے اپنی بات قاری تک پہنچاسکتے ہیں۔
تحریر میں روانی بھی بے مثال ہے گویا قاری کے روبرو بیٹھ کر کہانی سنارہے ہوں۔رمضان بلوچ اپنی کہانی میں تمام شعبہ ہائے زیست میں بڑی ہنر مندی سے کردار بھی بنتے ہیں اور تماشائی بھی! گوکہ اس وقت کے دیوہیکل شخصیات میں وہ اپنے آپ کو ایک ذرہ ظاہر کرتے ہیں لیکن ان کے بغیر، یوں بھی کہانی ادھوری لگتی ہے۔
’’لیاری کی ادھوری کہانی‘‘ لیاری کی سیاسی، سماجی، معاشرتی، ادبی وعلمی سرگرمیوں کی آمیزش کی اور تاریخی دستاویز ہے۔ رمضان بلوچ کی یہ کاوش آئندہ نسلوں کیلئے بیش بہا تحفہ ہے۔
اُمید ہے کہ آئندہ ایڈیشن میں لیاری کے دیگر اہم پہلوؤں سے متعلق بھی ہماری رہنمائی فرمائیں گے۔ انتظار رہے گا کیونکہ کہانی ہنوز ادھوری ہے اور تشنگی باقی ہے۔