نیلسن منڈیلا نے کیا خوب کہا تھا کہ سیاست دان اگلے الیکشن جبکہ لیڈر نیو جنریشن کے لئیے سوچتا ہے۔۔ جب ہم بچے تھے تو الیکشن کے موسم میں سیاسی پارٹیوں کے جھنڈوں کو بڑے فخر سے اٹھا کر اپنے جھونپڑی نما گھر پر لگاتے تھے کیونکہ بچے تو غیر سیاسی ہوتے ہیں۔
پھر ہم تھے بھی ماہی گیر کے بیٹے جو سال بھر سمندر کا پیٹ چیر کر روزی تلاش کرتے ہیں۔بچپن میں سیاسی لیڈر صرف الیکشن کے وقت نظر آتے تھے۔۔۔۔اور ہم صرف الیکشن کے دوران اسی سیاست نامی لفظ کو سنتے تھے۔ اور پھر سمندر کا ذکر ہوتا تھا کہ کس نے کتنی مچھلیاں پکڑیں ہیں.. اور سمندر کا موسم ہمارا سال بھر کا موضوع رہتا۔وقت اتنی تیزی کے ساتھ گزر گیا کہ ہم بچپن سے جوانی کی دہلیز پرپہنچے۔
گاؤں سے شہر کا سفر۔۔۔۔۔۔سکول سے کالج ۔۔۔۔پھر ٹوٹی پھوٹی اردو سے کچھ لکھنے کی کوشش ۔۔۔کافی عرصہ گزرنے کے بعد سیاست کو سمجھنے کی کوشش کی کہ ہمارے سیاست دان اور عوام کا رشتہ کتنا گہرا ہے۔ اور یہ سوچتا رہا کہ ماہی گیروں کی حالت زندگی کب یہ سیاست دان بدلیں گے۔۔ مجھے ماہی گیروں کی زیادہ فکر ہوتی ہے کہ میں خود ایک ماہی گیر باپ کا بیٹا ہوں۔۔۔پورا خاندان ماہی گیر۔۔۔۔ مگر یہ سیاست میری سمجھ میں نہ آسکا۔
تو سیاست کو سمجھنے کے لئے سیاسیات کی تعلیم کی طرف راغب ہوگیا۔کبھی ارسطو کو پڑھتا رہا تو کبھی افلاطون کو۔کیونکہ سیاست تو قدیم یونانیوں کی مرہون منت ہے۔۔سیاست کی بات ہورہی تھی تو اس وقت چونکہ آنے والے الیکشن کی تیاریاں شروع ہونے والی ہیں۔۔۔روز وی آئی پی گاڑیوں میں سوار سیاست دان نظر سے گزرتے ہیں جو کہ گزشتہ چار سالوں کے بعد عوام کی طرف آرہے ہیں۔
ویسے آجکل تو فیس بک اور وٹس ایپ کی مہربانی ہے کہ ہم جیسے لوگ بھی ہر میٹنگ سے اپ ڈیٹ ہوتے رہتے ہیں جہاں عجیب انداز اپنایا جارہا ہے ایک درجن لوگوں کو سینکڑوں کی تعداد میں ایسا ظاہر کیا جاتا ہے کہ مجھ جیسے کم لکھے پڑھے لوگ آسانی کے ساتھ سمجھ سکتے ہیں۔۔
کبھی ہم نے پڑھا تھا کہ سیاست میں نظریاتی ورکر ہوتے ہیں پھر معلوم ہوگیا کہ آجکل بریف کیس کی بہار ہے۔ سیاست اور بریف کیس کلچر الیکشن کے بہار کو مزید خوبصورت بنانے کے لئے ہوتے ہیں۔پانچ سال بعد پھر نئے دعوے اور لوگوں کے روزگار کی تحفظ کی بات ہورہی ہے۔۔۔۔یہ تو اچھا ہوا کہ غریب عوام کو پانچ سال بعد اپنے سیاست دانوں کی ایک جھلک دیکھنے کو مل رہا ہے۔۔۔۔۔
نوٹ : کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں