|

وقتِ اشاعت :   October 27 – 2017

کوئٹہ: جمعیت علماء اسلام کے مرکزی امیر رکن قومی اسمبلی مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ امریکہ اور بھارت سمیت عالمی سطح پر پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی ساشیں ہورہی ہیں۔دشمن سی پیک کو ناکام بنانا چاہتے ہیں۔ 

کوئی قوت اکیلے ملک کا دفاع نہیں کرسکتی ا س لئے ملک کے تمام اداروں کو دعوت دیتے ہیں کو اکھاڑپچھاڑ کی بجائے قومی یکجہتی کا راستہ اختیار کریں۔ ہم نے امریکہ اور یورپ سمیت عالمی قوتوں کی پاکستان کے مذہبی نوجوانوں کو انتہاء پسندی کی طرف دھکیلنے کی سازشوں کو ناکام بنادیا لیکن امن وامان کے قیام میں ہمارے کردار کو تسلیم نہیں کیا جارہا۔ نئی سیاسی جماعتیں مغربی تہذیب کو فروغ رہی ہیں ۔ 

مغربی ایجنڈے پر عمل پیرا گروہوں کو روکنے کی بجائے ان مقابلہ کرنے والی دینی جماعتوں اور مدارس پر دباؤ ڈالا جارہا ہے ۔انہوں نے ان خیالات کا اظہار کوئٹہ کے ایوب اسٹیڈیم فٹبال گراؤنڈ میں مفتی محمود کانفرنس کے نام سے منعقدہ ایک بڑے عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اجتماع میں صوبے بھر سے جمعیت علماء اسلام کے ہزاروں کارکنوں نے شرکت کی۔ 

کانفرنس سے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ جے یو آئی کے مرکزی جنرل سیکریٹری مولانا عبدالغفور حیدری ، صوبائی امیر مولوی فیض محمد، صوبائی جنرل سیکریٹری سکندر ایڈووکیٹ، جمعیت علماء اسلام خیبر پشتونخوا، سندھ ، پنجاب کے قائدین اور مرکزی رہنماؤں نے بھی خطاب کیا۔ 

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ مفتی محمود اور ان کی ٹیم نے پاکستانی آئین کو اسلامی بنیادیں فراہم کیں، آج ہم نے اس کی حفاظت کرنی ہے۔ اسلامی دفعات ،قادیانیوں کی غیر مسلم حیثیت کا تعین کرنے اور ناموس رسالت سے متعلق دفعات کو کسی صورت آئین سے نکالنے نہیں دینگے۔ 

ہم پاکستان کے آئین کو سیکولر بنانے کی اجازت نہیں دینگے۔ اسلامی جمہوریہ کا لفظ پاکستان کے ماتھے کا جومر ہے ہم اس جومر کو اترنے نہیں دینگے۔ انہوں نے کہاکہ تعجب کی بات ہے بیرونی قوتیں کی پشت پناہی میں کام کرنیوالی این جی اوز پاکستان کی اسلامی حیثیت کو ختم کرنے میں لگی ہوئی ہیں اگر دینی جماعتیں اور مدارس ان کا مقابلہ کرتے ہیں تو ریاستی سطح پر ان پر دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ 

ان کے کردار کو ختم یا محدود کیا جارہا ہے،یہ انصاف نہیں۔ پاکستان میں بیرونی پیسوں پر کام کرنیوالی این جی اوز کے لوگوں کی شکلیں تو پاکستانیوں کی ہیں لیکن ان کا دماغ اور ایجنڈا بیرونی افکار اور ایجنڈے پر مشتمل ہیں۔ہم ان کا مقابلہ جاری رکھیں گے۔مولانا فضل الرحمان نے کہاکہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں دہشتگردی اور مذہبی انتہاء پسندی ہے۔ کوئی مذہبی انتہاء پسندی نہیں ہے۔

مانتا ہوں کہ دہشتگردی کے خاتمے میں ریاستی قوتوں نے ضرور کردار ادا کیا ہے لیکن حالات سے واقفیت کی بنیاد پر سو فیصدیقین سے یہ بات کہتا ہوں کہ جمعیت علماء اسلام، علماء کرام اور دینی مدارس کا تعاون نہ ہوتا تو آج اس ملک میں دہشتگردی ختم نہ ہوتی۔ ملک میں قیام کیلئے امن کیلئے انہی لوگوں کا کردار ہے اسے تسلیم کرو۔ آپ ان کی کردار کشی کررہے ہیں کیا یہ ہے دہشتگردی کے خلاف آپریشن۔ 

جنہوں نے انتہاء پسند اور دہشتگرد عناصر کو تنہاء کرنے والوں کو تنہاء کرکے رکھ دیا ان مدارس، علماء اور تنظیموں کے کردار کو کیوں تسلیم نہیں کیا جاتا۔ ہم ان کی بدنیتی جانتے ہیں۔ بین الاقوامی دنیا چاہتی ہے امریکہ اور یورپ کی خواہش ہے اور ہمارے ادارے ان کے دباؤ میں آکر یہی کررہے ہیں کہ مذہبی نوجوانوں کو اشتعال دو تاکہ ملک کا مذہبی نوجوان اشتعال میں آئے اور ریاست کی طاقت کے ساتھ ان نوجوانوں کو ملیا میٹ کردیا جائے۔ 

لیکن ہم نے ہوش و حواس ، علمقمندی اور خوبصورت حکمت عملی سے کام لیا اور اپنے نوجوان کو اشتعال کا راستہ نہیں دیا۔ اعتدال کی راہ دکھائی۔ جب نوجوان نے ملک اوراس کے مستقبل کو سمجھا اور ملک کے بقاء کو عزیز رکھا اور امن کو اپنے سینے سے لگایا تو آپ کی سازش ناکام ہوگئی ، آپ کا ایجنڈا ناکام ہوگیا۔

دعویٰ سے کہتا ہوں اگر علماء کرام ، جمعیت علماء اسلام اور دینی مدارس کا تعاون نہ ہوتا اکیلے فوج یہ ہدف حاصل نہ کرپاتی اور بین الاقوامی سازش کا شکار ہوجاتی۔ ہم نے نہ صرف اس ملک کو بچایا بلکہ اسلامی اداروں کا تحفظ بھی کیا۔ نوجوانوں کے مستقبل کو بچایا۔ ہم آگے بڑھتے رہیں گے۔ 

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ مفتی محمود نے مغربی تہذیب کی حقیقت کو دنیا کے سامنے بے نقاب کیا۔ مغربی تہذیب تاریکی اور انسان کی اخلاقی پستی کے علاوہ کسی چیز کا نام نہیں۔ انہوں نے مغربی تہذیب کے خلاف ایجنڈے کو اپنی زندگی کا نصب العن قرار دیا۔ آج بھی آپ کے سامنے یہی چیلنج ہے۔ 

آج بھی اس ملک میں سیاست ہورہی ہے ،نئی نئی جماعتیں خوبصورت ناموں کے ساتھ جنم لے رہی ہیں لیکن درحقیقت وہ مغرب کے ایجنٹ ہیں۔ مغربی تہذیب کے ایجنڈے پر کاربند ہیں۔ آج کی فحاشی اور عریانی گلی کوچوں میں آچکی ہے۔ 

انہوں نے کارکنوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کارکنوں نے اس تہذیب کا مقابلہ کرنا ہے۔ اسلامی اقدار کو بلند رکھنا ہے اور مفتی محمود کے فکر کو لے کر اس تصور کا خاتمہ کرنا ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جب تک یہ علماء اور جمعیت علماء کے کارکن موجود ہیں پاکستان کی عوام کو گمراہ نہیں کیا جاسکتا اور پاکستان کے نوجوان کو مغرب کی ننگی تہذیب سے وابستہ نہیں کیا جاسکتا۔ 

ہم اپنے ملک کے نوجوان کے مستقبل کو محفوظ کرنا جانتے ہیں کیونکہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اسلامی تہذیب اور اقدار درحقیقت انسانیت کی فکری شائستگی کا نام ہے۔آئیے انسان کو شائستگی عطاء کرے۔ آئیے انسان کی فطرت کو مطمئن کرے۔ انسانی فطرت کو اللہ کے دین کے علاوہ اور کوئی چیز مطمئن نہیں کرسکتا۔ 

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ مفتی محمود غریب ، کسان اور مزدور اور مفلوک حال طبقے کی آواز تھیاور غریب انسانیت کا خون چوسنے والے جاگیردار اور سرمایہ دار طبقے کے خلاف ننگی تلوار تھے۔ انہوں نے غریب طبقے کے احساس کمتری کو ختم کیا۔ علماء اور طلباء میں احساس برتری پیدا کیا۔

آج اگر ملک میں علماء ، مدارس اور محراب و منبر کی سیاست زندہ ہے اور اگر آج مولوی اور امام حجرے سے باہر آکر میدان میں اسلام کے انقلاب اور دنیا پر اسلام کی حاکمیت کی بات کرتا ہے تو یہ شعور ان علماء کرام اور مذہبی طبقے کو مفتی محمود نے دیا۔

انہوں نے علماء، طلباء اور غریب کیلئے احترام کا احساس پیدا کیا اورملک کے تحفظ کیلئے نظریہ پیش کیا جس کی بنیاد پر پاکستان میں آج جمعیت علماء اسلام ایک سیاسی قوت بن چکی ہے اور پارلیمنٹ کی سیاسی قوت ہے۔ 

بہت بڑے ایوان میں ہماری تعداد تھوڑی ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے جو سیاسی تدبر جمعیت علماء اسلام کو عطاء کیا ہے ان حالات میں جبکہ پاکستان کی اسلامی حیثیت کو ختم کرنے کے فیصلے ہوچکے تھے آئین سے اسلامی پاکستان کے تصور مٹانے کے فیصلے ہوچکے تھے لیکن آج اگر اسلامی دفعات جوں کے توں برقرار ہیں تو جمعیت کو دعا دیجئے۔ آج ملکی سیاست میں جمعیت کا مقام ہے۔ 

جمہوری محاذ پر تمام جمہوری قوتوں کی مفتی محمود نے قیادت کی۔ ان کو جمہوریت کا مستقبل اور اصول متعارف کرایا۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ آج دنیا میں تبدیلیاں آگئی ہیں۔ انقلابات آگئے ہیں، دنیا سمٹ گئی ہے۔ آج پاکستان کو غیر مستحکم بنایا جارہا ہے۔

امریکی صدر کی دھمکیاں آپ دیکھ رہے ہیں کس طرح وہ پاکستان کو اقتصادی طور پر قلاش بنانے اور پاکستان کے آندر آکر حملے کرنے کی دھمکیاں دے رہا ہے لیکن میں امریکیوں کو نیک نیتی سے خیر خواہی کی بنیاد پر ایک بات کرنا چاہتا ہوں کہ تم پاکستان کا مت سوچو۔

افغانستان میں ذلیل خوار ہوکر رہ گئے ہو عزت کے ساتھ نکل جاؤ۔ آپ شکست کھاچکے ہیں دنیا پر اس طرح حکومت نہیں کی جاسکتی۔ یہاں لوگوں کے اندر احساس حریت موجود ہے اور وہ اپنی اور اپنی آنے والی نسلوں کی بقاء کا احساس رکھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ سارا کھیل پاکستان کے سی پیک منصوبے کو ناکام بنانے کا ہے۔ سی پیک بہت بڑا منصوبہ ہے۔ امریکہ چین کے وڑن اور اس کے اقتصادی فلسفے کے فروغ کو ناکام بنانا چاہتا ہے جبکہ بھارت پاکستان کے اندر ایسے حالات پیدا کرنا چاہتے ہیں تاکہ جنگ کی صورت پیدا ہو اور سی پیک ناکام ہو۔ 

یہ سازشیں پاکستان کے خلاف عالمی سطح پور ہورہی ہے۔ ان حالات میں ضرورت اس بات کی ہے ملک کے اندر استحکام اور یکجہتی پیدا کی جائے۔ اکیلے کوئی قوت ملک کو نہیں بچاسکتی۔ قومی یکجہتی ضرورت ہے۔

ہم اس ملک کی بقاء ، آئین ،جمہوریت اور نظام کے ساتھ ہیں اور تمام اداروں کو یکجہتی کی دعوت دیتے ہیں کہ ایک راستے پر چلو۔ پاکستان میں مزید اکھاڑ پچھاڑ کی شاید اب سکت بھی نہیں رہی۔ ملک کو یکجہتی کے ذریعے سے ہی قوت دی جاسکتی ہے۔ 

انہوں نے کارکنوں سے کہا کہ آپ نے مفتی محمود کی ملک ، اسلام اور آئین کے ساتھ کمٹمنٹ کو سامنے رکھتے ہوئے آگے بڑھنا ہے۔ انتخابات 2018ء کے انتخابات آرہے ہیں ، کارکنوں نے آرام سے نہیں بیٹھنا، گلی گلی ، کوچے اور گھر گھر تک جمعیت کا پیغام پہنچانا ہے۔ 

مستقبل کے پاکستان اور بلوچستان کو جمعیت علماء اسلام کا انتظار ہے۔ مستقبل انشاء اللہ جمعیت کا ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے عظیم الشان جلسہ پر کارکنوں کو مبارکباد دی اور کہا کہ بلوچستان کے عوام نے ثابت کردیا کہ وہ باطل کے مقابلے میں جمعیت کے پلیٹ فارم پر حق کے ساتھ ہیں۔ 

انہوں نے کہا کہ مفتی محمود اسلام کو گہوارہ بنانے چاہتے تھے ، انہوں نے اسلام کی حاکمیت کیلئے جدوجہد کی۔ جمعیت کے کارکنان آج بھی اس جدوجہد کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ہماری یہ تحریک ہر قسم کے حالات اور آزمائشوں کا مقابلہ کرتے ہوئے منزل تک پہنچے گی۔ 

انہوں نے کہاکہ جمعیت علماء اسلام نے سو سالہ یوم تاسیس پر پشاور میں برصغیر کی تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع کیا جس میں پچاس لاکھ افراد نے شرکت کی۔ آج بلوچستان کے عوام نے بھی اس کانفرنس میں بھرپور شرکت کرکے ثابت کردیا کہ بلوچستان کے عوام کی آواز صرف جمعیت علماء اسلام ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام نے دنیا کو اعتدال کا راستہ اختیار کرنے کا درس دیا۔ 

اسلام کے اعتدال پسندی اور میانہ روی پر مشتمل اصولوں کی تعبیر اگر پاکستان میں کسی نے کی تو وہ مفتی محمود اور ان کی جماعت ہے۔جمعیت نے تعصبات سے بالاتر ہوکر عوام کو انسانی حقوق اور انسانیت کا راستہ دکھایا۔ یوم تاسیس پر ہم نے اسی عہد کی تجدید کی۔ آج پھر ہمیں آزمائشوں کا سامنا ہے۔ 

دشمن کبھی لالچ دیتاہے اور کبھی دھماکاتا ہے۔ برصغیر میں دینی مدارس نے اپنے قیام کے وقت سے ہی یہ اصول اپنایا کہ سرکار سے کوئی رقم نہیں لی۔ اسی اصول پر آج تک مدارس اور مساجد کے علماء کاربند ہیں۔ 

آج مسجد اور مسجد کے امام تک پیسہ بہانے کی باتیں ہورہی ہیں کیا یہ اسلامی تحریک کو نقصان نہیں پہنچائے گا۔ ہمارے ہاں اس پر کام شروع ہوچکا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ مسجد کا امام غربت برداشت کرے گا لیکن اپنی غیرت کا سودا نہیں کرے گا۔