|

وقتِ اشاعت :   November 3 – 2017

اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ چابہار کے راستے بھارت سے افغانسان تجارتی سامان کی ترسیل کئی گنا مہنگی پڑ سکتی ہے۔

بھارت نے ایرانی بندرگاہ کی توسیع وترقی پر بھاری سرمایہ صرف کیا ہے اور کئی اس بندرگاہ کو پاکستان کو بائی پاس کرکے أفغانستان کے ساتھ تجارت کے اہم ذریعے کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ لیکن اصل حقائق کیا ہیں اور امریکی ماہرین اس صورت حال کو کس طرح دیکھ رہے ہیں۔ آئیے اس سوال کا جواب تلاش کرتے ہیں۔

کیا بھارت کا ایران کے ذریعے، افغانستان کے ساتھ تجارتي بندھن، امریکہ کو قابل قبول ہے۔ کیا یہ امریکی مفاد میں ہے؟ اس بارے میں امریکہ کے سابق سفارتی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ یہ امریکی مفادات سے متصادم ہے۔ بھارت نے30 اکتوبر کو افغانستان کے ساتھ ایران کی بندر گاہ چاہ بہار کے راستے تجارت کا آغاز کیا ہے، اور گندم کی اپنی پہلی کھیپ روانہ کی۔

امریکی صدر ایران کے سخت ناقد ہیں اور انہوں نے ایران کے ساتھ امریکہ سمیت پانچ عالمی طاقتوں کے 2015 میں طے پانے والے جوہری معاہدے کی توثیق کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکی ایوان کے کئی ارکان بھی اس معاہدے کے ناقدین میں شامل ہیں۔

دوسری جانب امریکہ یہ بھی چاہتا ہے کہ بھارت، جنوبی ایشیا سے متعلق اس کی نئی افغان پالیسی میں ایک بڑا کردار ادا کرے۔

اس تناظر میں جب امریکی تھنک ٹینک میں قائم پاکستان سینٹر کے ڈائریکٹر، اور دفترِ خارجہ کے سابق عہدے دار، ڈاکٹر مارون سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ بھارت کا یہ اقدام اس کے مفاد میں ضرور ہے لیکن امریکہ کے مفاد میں نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ صرف بھارت کے ایک بڑا کردار ادا کرنے کے اس وقت کیا معنی ہو سکتے ہیں، یہ ایک بہت ہی غیر واضح بات ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ بھارت ایک بڑا کردار ادا کرے، تو چابہار اس عمل کو آسان بناتا ہے۔ مگر اس پر جو حقیقت حاوی ہو گی، وہ یہ ہے کہ امریکہ یہ بھی چاہے گا کہ ایران کم سے کم حد تک خطے میں کسی تجارتي اہمیت کی حامل سرگرمی میں ملوث ہو۔ یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ چابہار کے ذریعے تجارتي لین دین کا ایران کو فائدہ پہنچے گا۔

وائن بام کا کہنا تھا کہ چابہار صرف ایک گذر گاہ نہیں ہو گی۔ ایران کی بندرگاہ چابہار کو بہت زیادہ ترقی دی جائے گی، اور اس سے حاصل ہونے والے محصولات، آخر کار ایرانی خزانے میں جائیں گے۔

اسی سوال کا جواب دیتے ہوئے، پاکستان کے لئے امریکہ کے سابق سفیر ولیم مائیلم کا، جو اب ایک تھنک ٹینک سے منسلک ہیں، کہنا تھا کہ اگر موجودہ تناظر میں بات کریں تو یہ سب امریکہ کے مفاد میں نہیں ہے، کیونکہ ایران کے لئے ہماری موجودہ پالیسی کو دیکھیں تو امریکہ اس کی حمایت نہیں کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں، امریکی حکومت ایک غلط راستے پر چل رہی ہے، خاص کر جب وہ چاہتی ہے کہ بھارت اس وقت افغانستان میں ایک بڑا کردار ادا کرے۔ اور خصوصي طور پر امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں موجود سنگین مسائل کی وجہ سے۔ اور ایک ایسے پس منظر میں ، جب پاکستان کو یہ خوف ہو کہ وہ بھارت کے گھیرے میں آ رہا ہے۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ ہو سکتا کہ امریکہ بھارت کے ایران کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات کی حوصلہ افزائی نہ کرنا چاہتا ہو، لیکن امریکہ کے لئے موجودہ صورت حال میں یہ سب کرنا مشکل ہو، اور وہ ایسا نہ کرسکے۔

انہوں نے کہا کہ یہ بظاہر ہماری افغان پالیسی کے مفاد میں نہیں ہے، اور شاید ہم بھارت کو اس سے باز رکھنا چاہتے ہوں۔ لیکن ہم شاید ایسا نہ کر سکیں۔

تاہم ڈاکٹر مارون اس سے مختلف سوچ رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے امریکہ کی موجودہ پالیسی، خاص کر جس سمت وہ جا رہی ہے، تو یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، بلکہ اس وقت بھارت اور افغانستان پر بہت سخت دباؤ ہے کہ وہ چابہار کو افغانستان کے لئے ایک اہم دروازہ نہ بننے دیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسی کوئی راہ سمجھ نہیں آتی، جس سے یہ نظر آئے کہ افغان معیشت پاکستان سے رسائی کے بغیر ترقی کرے بلکہ زندہ بھی رہ سکے۔

اس حوالے سے جب پاکستان کی ایک بڑی کاروباری شخصیت، محمد أنور سے، جو اقوام متحدہ کے اکنامک اینڈ سوشل کمشن اور لاهور چیمبر آف کامرس کے رکن ہیں، بات کی گئی، تو ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کو یہی گندم اگر چابہار کی بجائے، کراچی کے راستے یا واہگہ کے راستے جاتی ہے، تو اس پر کہیں کم لاگت آئے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ چہابہار کے راستے سے گندم کے مال برداری کے اخراجات گندم کی اصل قیمت سے بھی زیادہ ہیں۔

بشکریہ اردو VOAاور انجم ہیرلڈ گل