کوئٹہ: بلوچستان میں پولیس آفیسران اور اہلکاروں پر حملوں میں تیزی آگئی۔ جنوری سے اب تک 41پولیس اہلکار ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں میں شہید ہوئے۔
ڈی آئی جی حامد شکیل بلوچستان میں رواں سال دہشتگردی کا نشانہ بننے والے چھٹے آفیسر ہیں۔اس سے قبل ایس پی ایس قلعہ عبداللہ ساجد مہمند ،ایس پی قائد آباد کوئٹہ مبارک شاہ ، ڈی ایس پی ہیڈکوارٹر عمر الرحمان ، انسپکٹر عبدالسلام بنگلزئی بھی ٹارگٹ کلنگ اور خودکش بم حملوں میں شہید ہوئے۔
اعداد و شمار کے مطابق رواں سال اب تک چار خودکش دھماکوں سمیت بارہ حملوں میں 41پولیس اہلکار شہید ہوئے۔ سولہ جنوری کو کوئٹہ میں دواٹھائیس جنوری کوڈیرہ مراد جمالی میں انسپکٹر سمیت دو پولیس اہلکاروں کو شہید کیاگیا۔
13فروری کو کوئٹہ میں بم ڈسپوزل اسکواڈ کے کمانڈر عبدالرزاق سمیت دو پولیس اہلکار بم ناکارہ بناتے ہوئے شہید ہوئے۔گیارہ جون کو کوئٹہ کے علاقے سریاب میں بلوچستان کانسٹیبلری کے تین اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ کی گئی۔
23جون کو کوئٹہ میں آئی جی آفس کے باہر خودکش کار بم دھماکے میں بارہ پولیس اہلکار لقمہ اجل بنے۔29مئی کو کوئٹہ میں ڈی ایس پی عمر الرحمان کو گھر کے قریب گولیاں مار کر شہید کیاگیا۔
10جولائی ایس ایس پی قلعہ عبداللہ ساجد مہمند چمن میں خودکش حملے میں جان کی بازی ہارگئے۔13جولائی کو کوئٹہ کے علاقے کلی دیبہ میں ایس پی قائد آباد مبارک شاہ کو تین محافظوں سمیت فائرنگ کرکے شہیدکیاگیا۔
18اکتوبر کو کوئٹہ کے علاقے سبی روڈ پر خودکش کار بم دھماکے میں بلوچستان کانسٹیبلری سات اہلکار شہید اور چوبیس زخمی ہوئے۔ اسی روز قمبرانی روڈ پر سی ٹی ڈی انسپکٹر عبدالسلام بنگلزئی کو بھی گولیاں مار کر شہیدکیاگیا۔
9 نومبر کو ڈی آئی جی ٹیلی کمیونیکشن حامد شکیل درانی سمیت تین اہلکاروں نے خودکش حملے میں جام شہادت نوش کی۔پولیس ریکارڈ کے مطابق1979سے اب تک بلوچستان پولیس کے 868اہلکاروں نے فرائض کی انجام دہی کے دوران جانیں قربان کیں۔
ان میں تین ڈی آئی جیز، ایک ایس ایس پی، دو ایس پیز ، اٹھارہ ڈی ایس پیز اور 24انسپکٹرز شامل ہیں۔ 1979سے 2012ء تک تک 33سالوں میں 304اہلکار شہید ہوئے۔
2013میں پولیس پر حملوں میں تیزی آئی اور گزشتہ پانچ سالوں کے دوران 564اہلکاروں نے فرائض کی انجام دہی کے دوران جانیں قربان کیں۔
2016میں سب سے زیادہ 128اہلکار ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں میں شہید ہوئے۔ 2013میں 109، 2014میں 48اور 2015میں 39اہلکار لقمہ اجل بنے۔