|

وقتِ اشاعت :   November 15 – 2017

کراچی کی سیاست ہمیشہ سے مختلف رنگوں میں ڈھلا ہوا ملتا ہے کراچی شہر جس کو بار بار ملک کا معاشی حب قرار دیا جاتارہاہے، طویل دہشت کی رات ڈھلنے کے بعد اس کی رونقیں معمول پر آئیں تو ہر ایک اس کی روشنیاں واپس لانے کا کریڈٹ اپنے سر لینے کیلئے کوشاں رہا۔

اس کی ایک مثال حالیہ بلدیاتی انتخابات کے دوران بھی دیکھنے کو ملی کہ مسلم لیگ ن یہاں سے کچھ نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوئی اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کراچی میں امن کی بحالی ن لیگ کے دور حکومت میں عمل میں آئی اور شاید دوہزار اٹھارہ کے الیکشن میں بھی اسی نعرے کو لیکر پیپلز پارٹی اور ن لیگ اپنے جھنڈے لہراتے پھریں گے کہ ہماری وجہ سے یہ ہوا ہماری وجہ سے وہ ہوا۔

کراچی میں امن کی بحالی کے بعد جوبھی ہواہویہاں روز کی بڑھتی آبادی اب بھی کئی مسائل میں گری ہوئی نظر آتی ہے سب سے بڑا مسئلہ شہر کی صفائی اور سڑکوں کا حال ہے جو سب کے سامنے ہے ۔

ان دونوں معاملات پر شہر کی دو بڑی جماعتوں نے گزشتہ دو سالوں میں جو سیاست کی ہے اگر اس سیاسی جنگ میں سے کچھ حصہ اس شہر کی جانب توجہ مبذول کرکے کچھ کام کراتے تو شاید مسائل میں کسی حد تک قابو پایا جاسکتا تھا۔

اب تو اس شہر کا یہ حال ہے کہ اگر کہیں ایک اسٹریٹ لائٹ کا بلب بھی لگتا ہے تو اس کھمبے پر اگلے دن اس علاقے میں متحرک پارٹی ورکر اپنے پارٹی کے پرچم کے ساتھ ایک پینا فلیکس آویزاں کرکے اپنے علاقائی نمائندے کیلئے مبارکباد کے پیغامات چھوڑ جاتے ہیں۔

کراچی میں ایک دہائی سے جاری کشت و خون کے بعد رینجرز آپریشن نے شہریوں کو جینے کا جیسے ایک اور موقع دیا ہو ،کراچی جو ایک عرصہ تک اپنے ہی بچوں کیلئے قبرستان جیسا بننے لگا تھا اب حالات قدرے مختلف اور بہتر ہیں۔

اب پہلے جیسے حالات نہیں رہے، نہ ہی کسی پارٹی کارکن یا رہنما کی ہلاکت کے بعد منٹوں میں شہر بند ہوجاتا ہے ،اب شہر بندہونا تو کوئی کتابی سی بات لگتی ہے مگر یہاں کی رونقیں بحال ہونے کے بعد اکثر و بیشتر سڑکیں جام ہوجاتی ہیں اس کی ایک وجہ شہر کی خوشیاں ہیں اور دوسری کھنڈرات سے بدتر سڑکیں۔

کراچی میں سیاست کسی زمانے میں بڑی اہمیت رکھتی تھی جس طرح آج کے دور میں کہا جاتا ہے کہ اگر کسی کو مرکز میں حکومت بنانی ہے تو پہلے پنجاب میں اپنے پنجے گاڑھنے ہونگے اسی طرح کراچی کی سیاسی تاریخ بھی کالجز اور جامعات میں اسٹوڈنٹس سیاست سے لیکر ضیا دور کے کوڑوں اور مشرف دور کے بارہ مئی جیسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔

حالیہ وقتوں میں کراچی کی سیاست میں مرکزی کردار پیپلز پارٹی ،ایم کیو ایم اور کسی حد تک جماعت اسلامی کا ہوسکتا ہے جبکہ پاکستان تحریک انصاف کی پنجاب میں دلچسپی کے باعث کراچی میں ان کی موجودگی نہ ہونے کے برابر ہے۔

گزشتہ ہفتے کراچی کی سیاست میں جو بھونچال آیا ،اس کے آفٹر شاکس اب بھی جاری ہیں۔

بائیس اگست دوہزار سولہ کے بعد متحدہ قومی موومنٹ کے ساتھ جو ہوایا جو کچھ کروایا گیا سب کے سامنے ہے اب تک اس واقعے کے آثارنے متحدہ کو اپنی اصل شکل ظاہر کرنے سے قاصررکھا ہے کہ متحدہ وہ تھی جو بائیس اگست سے پہلے تھی یا متحدہ وہ ہے جو بائیس اگست کے بعد بنی، کچھ واضح نہیں،متحدہ قومی موومنٹ کی حالت پر غالب کایہ اشعاریاد آتے ہیں۔
کوئی امّید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی
کچھ ہماری خبر نہیں آتی
متحد ہ قومی موومنٹ جس کے بارے میں پہلے سب یہ جانتے تھے کہ اس پارٹی سے کوئی شخص کسی دوسری جماعت میں جانے کا سوچ بھی نہیں سکتا ، اب مشکلات میں ایسی گھری ہے کہ ہر کوئی اس کو چھوڑ کر جارہاہے۔

ان مشکلات میں کچھ کمی اس وقت ہوتی نظر آئی جب فاروق ستار ایک پریس کانفرنس کے دوران کسی کا انتظار کرتے ہوئے پائے گئے وہ شخص کوئی اور نہیں سابق متحدہ کے سینیٹر ،سابق ناظم کراچی اورموجودہ پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفیٰ کمال تھے پھر کیا تھا۔

جو اعلانات ہوئے جو گلے شکوے دور ہوئے ایک پارٹی ،ایک پرچم ایک نشان کے بلند و بانگ دعوؤں سے کراچی کی سیاست میں جیسے کوئی سونامی آگئی ہو لیکن اگلے دن متحدہ پاکستان کے سربراہ فاروق ستار کی پریس کانفرنس نے سونامی کے نشانات تو چھوڑے مگر سونامی کو کہیں کا نہ چھوڑا۔

فاروق ستار کی جانب سے جو کھل کر مہاجر کارڈ کھیلا گیا اس سے یہ لگتا ہے کہ شاید مصطفیٰ کمال کو سیاست کے آغاز کے پہلے راؤنڈ پر ہی چت کردیا گیا۔ا ب مصطفیٰ کمال کی جانب سے الزامات کا ایک اور سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ایک مرتبہ پھر نہ نظر آنے والی اسٹیبلشمنٹ کے کردارپرسوالات اٹھائے گئے۔