اسلام آباد (آزادی نیوز)پاکستان کی سپریم کورٹ نے اربوں روپے کے ترقیاتی فنڈز کے اجرا کے معاملے میں سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف اور دیگر ذمہ داران کے خلاف فوجداری قوانین کے تحت مقدمہ درج کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ 52 ارب روپے مالیت کے ان صوابدیدی فنڈز کی تقسیم کے معاملے پر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اپنے از خود نوٹس کا فیصلہ جمعرات کو سنایا۔ عدالت میں موجود نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق فیصلہ سناتے ہوئے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ترقیاتی فنڈز کے نام پر رقم کا اجرا غیر قانونی تھا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ اس معاملے میں ضابطے اور قوانین کی خلاف ورزیاں کی گئی ہیں اور من پسند افراد کو نوازا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ راجہ پرویز اشرف نے بطور وزیرِاعظم اختیارات کا ناجائز استعمال بھی کیا۔ سماعت کے دوران راجہ پرویز اشرف کے وکیل وسیم سجاد کا کہنا تھا کہ ترقیاتی فنڈز جاری کرنا وزیراعظم کا صوابدیدی اختیار ہے جسے کسی عدالت میں چیلینج نہیں کیا جا سکتا۔ یہ فنڈز جاری نہ کرنے پر ہی اس وقت کے وزیرِ خزانہ عبدالحفیظ شیخ کو ان کے عہدے سے ہٹایا گیا تھا اور پھر پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت کے آخری ایام میں اس وقت کے وزیرِ خزانہ سلیم مانڈوی والا نے یہ رقوم جاری کر دی تھیں۔ عدالت نے فیصلے میں حکم دیا کہ جس نے یہ فنڈ جاری کیے اور جن لوگوں نے ان سے فائدہ اٹھایا ان کے خلاف فوجداری قانون کے تحت کارروائی عمل میں لائی جائے۔ تاہم عدالت کا یہ بھی کہنا تھا کہ جن ترقیاتی منصوبوں کے لیے قواعد و ضوابط کے مطابق رقم جاری ہوئی ان پر کام جاری رکھا جائے۔ خیال رہے کہ سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے اپنے دور حکومت میں دو سابق وزیرِاعظموں یوسف رضا گیلانی اور چوہدری شجاعت کے علاوہ متعدد من پسند اراکینِ اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز کی مد میں رقوم جاری کی تھیں۔ بی بی سی کے نامہ نگار کے مطابق ان فنڈز کی فراہمی کے لیے بھاشا ڈیم اور لواری سرنگ کے منصوبوں اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کی مد سے 25 ارب روپے نکلوائے گئے تھے۔ خیال رہے کہ یہ فنڈز جاری نہ کرنے پر ہی اس وقت کے وزیرِ خزانہ عبدالحفیظ شیخ کو ان کے عہدے سے ہٹایا گیا تھا اور پھر پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت کے آخری ایام میں اس وقت کے وزیرِ خزانہ سلیم مانڈوی والا نے یہ رقوم جاری کر دی تھیں۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے اس معاملے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے اپنی سربراہی میں تین رکنی بینچ تشکیل دیا تھا جس نے معاملے کی سماعت کے بعد رواں برس جولائی میں اس پر فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے غیر شفاف ترقیاتی منصوبوں کی منظوری دینے والے افراد کے خلاف کارروائی کا حکم دیا تھا۔