|

وقتِ اشاعت :   November 30 – 2017

حب: جمعیت علماء اسلام کے مرکزی سیکرٹری جنرل ڈپٹی چیئر مین سینیٹ مولانا عبدالغفور حیدری کہا ہے کہ آئین میں ختم نبوت کے شق کو دوبارہ بحال نہ کرتے تو ہم بھی سڑکوں پر نکل آتے اور دمادم مست قلندر ہوتا،حکومت کے اتحادی ہوتے ہوئے بھی ہمیں ختم نبوت کے متعلق آئین کو چھیڑنے پر اعتماد میں نہیں لیا گیا ۔

ملک میں حالات ٹھیک نہیں وفاق اور صوبوں میں حکومت کی رٹ سست ہو گئی ہے بلوچستان میں حالات پھر سے خراب ہیں سیکیورٹی فورسز، پولیس آفیسرز نشانہ بن رہے ہیں

انتخابی اصلاحات کے متعلق جے یو آئی کی تجویز ہے کہ بلوچستان کی نشستوں کو قومی اسمبلی میں کم از کم تیس ہونی چاہیئے بلوچستان کے ہر ضلع کی بنیاد پر قومی اسمبلی کی ایک نشست ہونی چاہئے گوادر میں ترقی مزاق کے علاوہ کچھ نہیں اب تک تو عملی طورپر پر کچھ نظر نہیں آرہا وہاں لوگ پانی کے لئے ترس رہے ہیں۔ 

صرف ترقی کا خواب دکھایا جا رہا ہے ۔ سی پیک پر پوری دنیا کی نظرین لگی ہوئی ہیں ان خیالات کا اظہار انہوں نے مدرسہ قاسم العلوم بھوانی حب میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ ختم نبوت کے متعلق آئیں کو چھیڑنے پر ہمیں اعتماد میں نہیں لیا گیا اور نہ ہی ہم سے کوئی مشاورت کی گئی حکومت نے چوری چھپکے یہ سب کیا جس سے تمام امت مسلمہ کے جزبات سے کھیلا گیا۔

آئینی شق کو چھیڑتے ہی ہم نے اپنا اجلاس طلب کیا اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ ختم نبوت کے متعلق ترامیم کو ہر حال میں روکنا ہے ۔ ہم نے حکومت کو پیغام دیا کہ وہ کی گئی ترامیم کو رواں اجلاس میں واپس لیکر آئین کو اصل شکل میں بحال رکھیں نہیں تو ہمارے اور حکومت کے راستے الگ ہونگے ۔ 

جس پر اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینٹ نے بہت اہم کردار ادا کیا انھوں نے تما م سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کو اعتماد میں لیا اور ختم نبوت کے شق کو اصل شکل میں بحال کرادیا۔ 

انھوں نے کہا کہ اس کا کریڈٹ جمیعت علماء اسلام کو جاتا ہے ، مولانا حیدری نے کہاکہ اگر حکومت ہماری بات نہیں مانتی اور ہم ختم۔نبوت کے شق کو بحال کرنے میں پارلیمنٹ میں ناکام ہوتے تو سڑکوں پر نکل کر دمادم مست قلندر کرتے ذمہ داروں کو چین سے بھیٹنے نہیں دیتے ۔

انھوں نے کہاکہ ہمارے پاس پارلیمنٹ کا فورم تھا ہم نے اپنا مطالبہ منواکر کامیابی حاصل کی ہمیں کسی دھرنے کی ضرورت پیش نہیں آیا۔ انھوں نے کہاکہ جنھوں نے دھرنا دیا، جلسے کئے اور میڈیا میں بیانات دیئے انھوں نے بھی اچھا کیا ہر ایک نے اپنے مطابق اچھا کیا مگر یہ بات ٹھیک نہیں کہ جس نے دھرنا دیا صرف وہی عاشق رسول ہیں اور باقی خدانخواستہ منکر رسول ہیں۔

انھوں نے کہاکہ جب تک کسی کو کسی چیز سے انکار کرتے نہیں دیکھوں تو اسے منکر قرار مت دو ۔ مولانا حیدری کا کہنا تھا کہ ختم نبوت دھرنا ایک عظیم ہستی کی ناموس کے لئے تھا جو کہ حق اور سچ تھا اور دھرنے جلسے جلوسوں سے عوام کو تکلیف ضرور ہوتی ہے مگر کہ ایک جمہوری عمل ہے اپنے مطالبات منوانے کے لئے ۔ مگر افسو س کہ حکومت نے دھرنے کو صلاحیتوں کی فقدان کے باعث غلط ڈیل کیا دھرنے پر آپریشن غلط اقدام تھا ۔

انھوں نے کہا کہ ایک شخص نے تو ذاتی خواہشات پر دھرنا دیا، پارلیمنٹ، سیاسی جماعتوں، اداروں کو گالیاں دیکر لوگوں کی پگڑیاں اچھالی اداروں پر حملے کئے مگر اس کو تو ہر لحاظ سے برداشت کیا گیا، مگر جودھرنا ایک عظیم اور مقدس ہستی کی ناموس کے لئے تھا اس پر گولیاں اور لاٹھی برسائے گئے ۔ حکومت کی پالیسی سمجھ سے بالاتر ہے ۔

ملکی حالات اور بلوچستان کے متعلق مولانا عبدالغفور حیدری کا کہنا تھا کہ ملک میں حالات ٹھیک نہیں وفاق اور صوبوں میں حکومت کی رٹ سست ہو گئی ہے بلوچستان میں حالات پھر سے خراب ہیں سیکیورٹی فورسز، پولیس آفیسرز، سپاہی اورشہری سرعام قتل ہو رہے ہیں جوکہ حکومت اور اداروں کی غلط پالیسیوں اور انٹیلیجنس اداروں کے غیر معیاری کرداراور انٹیلیجنس شیئرنگ نہ ہونے کی وجہ سے ہیں ۔ جس کے باعث صوبے کے حالات درست نہیں ہو رہے ۔

سی پیک اور گوادر کے متعلق انھوں نے کہاکہ گوادر میں ترقی مزاق کے علاوہ کچھ نہیں اب تک تو عملی طورپر پر کچھ نظر نہیں آرہا وہاں لوگ پانی کے لئے ترس رہے ہیں۔ صرف ترقی کا خواب دکھایا جا رہا ہے ۔

سی پیک پر پوری دنیا کی نظرین لگی ہوئی ہیں عالمی قوتیں اور پڑوسی ممالک کو بھی یہ بات ہضم نہیں ہو رہا ہمسایہ ممالک نارض بھی ہیں مگر دوسری جانب سی پیک کے نام سے آنے والی معاشی سیلاب سے استفادہ حاصل کرنے کے لئے بلوچستان حکومت اور وفاق کی جانب سے صوبے میں کوئی حکمت عملی نظر نہیں آرہا، وزیراعلی بلوچستان بتائیں کہ سی پیک میں بلوچستان کے نوجوانوں اور یہاں ماہی گیروں، کسانوں اور غریب عوام کے لئے کیا ہیں