کوئٹہ (اسٹاف رپورٹر) ملک بھر میں چیف جسٹس افتخار چوہدری کے بطور سپریم کورٹ چیف جسٹس کارکردگی کو سراہا جارہا ہے تاہم بلوچستان کے قانون دان اور لاپتہ افراد کے لواحقین چیف جسٹس کی کارکردگی سے مطمئن نظر نہیں آتے بلکہ انکی کاکردگی کوغیر تسلی بخش اور کسی حد تک تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے ، وکلا تحریک کے اہم رہنما علی احمد کرد کہتے ہیں کہ چیف جسٹس افتخار چوہدری نے بلوچستان کو مایوس کیا ہے اور انہیں افسوس ہے کہ چیف جسٹس جو 16مارچ 2008ء کو بحال ہونے کے بعد پاکستان میں سب سے زیادہ طاقتور شخصیت کے طورپر ابھر کر سامنے آئے لیکن انہوں بلوچستان جہاں وہ پیدا ہوئے کیلئے کچھ خاص جدوجہد نہیں کی ، علی احمد کرد نے کہا کہ بلوچستان کی امیدیں اسلئے زیادہ تھیں کہ افتخار محمد چوہدری کا تعلق بلوچستان سے ہے، وہ یہاں کئی سالوں تک وکیل رہے اور ایڈووکیٹ جنرل کے فرائض انجام دیتے رہے اور صوبے کے تمام مسائل سے بخوبی آگاہ تھے ، اس کے باوجود کہ وہ جانتے تھے کہ بلوچستان کا بڑا مسئلہ لاپتہ افراد کا ہے لیکن ان کیسز کو بہت دیر سے اہمیت دی ، اگر چیف جسٹس اپنی بحالی کے فورابعد لاپتہ افراد کا مسئلہ اٹھاتے تو آج نتائج بہت مثبت ہوتے اور کئی مقدمات میں نتائج بھی سامنے آتے جس صوبے کے حالات میں بہتری لانے میں مددگار ثابت ہوتے لیکن انہوں نے لاپتہ افراد کے مسئلے کوبہت دیر سے سنجیدگی سے لیا جس کے باعث آج وہ آخری دن آفس میں گزار رہے ہیں لیکن لاپتہ افراد کا مسئلہ جوں کا توں ہیں ۔ دوسری جانب وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصر اللہ بلوچ کا کہنا ہے کہ لاپتہ افراد کے لواحقین بہت سی امیدیں لیئے چیف جسٹس کے پاس گئے تھے اب ان پر منصر ہے کہ وہ آخری روز ایسا فیصلہ سنائیں جس سے انسانیت کی اس سنگین جرم میں ملوث ادارے اور بااثر افراد کو سزا مل سکے ، انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے لاپتہ افراد کے حوالے سے مثبت کام کیا ہے اور انکے ایف آئی آر کے اندراج کے حکامات نے لاپتہ افراد کی تعداد ظاہر کرنے میں مدد دی ہے اس سے قبل پولیس لاپتہ افراد کے مقدمات درج کرنے سے صاف گریز کرتی تھی اب کہیں نہ کہیں مقدمات کا انداراج ہورہا ہے ، انکا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے بلوچستان سے صرف 27افراد بازیاب کرائے ہیں جو کچھ ماہ غیر قانونی پابند سلاسل میں رہے اسکے علاوہ ہزاروں بلوچ جو سالوں سے لاپتہ ہیں انہیں اب تک بازیاب نہیں کرایا گیا ۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے نئے جج سے بھی بہت سی امیدیں وابستہ ہیں کہ وہ لاپتہ افراد کے مسائل حل کردیں گے ۔