پولیٹکل انجنیئرنگ ایک تازہ اصطلاح ہے۔اس کی واضح ترین مثال ایم کیو ایم (پاکستان) اور پاک سر زمین پارٹی(پی ایس پی) کے درمیان محض چند گھنٹے تک برقرار رہنے والا عقد ہے۔دونوں جماعتوں کے رہنماؤں نے تسلیم کیا کہ اس شادی کا اہتمام اسٹیبلشمنٹ کے بعض کھلاڑیوں کی طرف سے کیا گیا تھا۔
گورنر سندھ محمد زبیر نے ایک ٹیلیویژن چینل کو اپنے حالیہ انٹرویو میں الزام لگایا کہ اسٹیبلشمنٹ کے بعض لوگ نہیں چاہتے کہ پاکستان پیپلز پارٹی سندھ میں اگلی حکومت بنائے۔مجھے چند روز قبل اسلام آباد کے دورے کے دوران بتایا گیا کہ نادیدہ حکومت کے ارکان کی طرف سے بعض سیاست دانوں پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ حکومت کی طرف سے پیش کیے جانے والے بلوں پر کس طرح ووٹ دیں اور پاکستان مسلم لیگ(ن) کی حمایت ترک کر دیں۔
بد قسمتی سے پولیٹکل انجنیئرنگ صرف پاکستان تک ہی مخصوص نہیں ہے بلکہ دوسرے ملکوں کی اسٹیبلشمنٹس بھی تواتر کے ساتھ اسے استعمال کرتی ہیں۔وہ اس احمقانہ کہاوت پر پختہ یقین رکھتی ہیں کہ ” مقصد طریقوں کاجواز ہوتا ہے” ۔انھیں اس بات کا بہت کم ادراک ہے کہ جو طریقے اپنی پسند کا ” مقصد” حاصل کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں ان کی اپنی حرکیات ہوتی ہیں اور آگے چل کروہ ایک اور ہولناک مقصد کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔
امریکا، سعودی عرب اور پاکستان نے افغانستان کو سوویت یونین(اب روس)کا ویت نام بنانے کے لیے جہاد کو استعمال کیا۔وہ اس بات کو نہ سمجھ سکے کہ ایسا کر کے وہ دہشت گرد اور انتہا پسند قوتوں کو کھلی چھٹی دے رہے ہیں۔اور آج یہ ممالک اس موقع پرستانہ پالیسی کی بھاری قیمت ادا کر رہے ہیں–
مقصد طریقوں کا جواز ہوتا ہے۔مگر یوں لگتا ہے کہ نام نہاد انٹیلجنس ایجنسیاں کبھی کچھ نہیں سیکھتیں۔کیا انھوں نے لیبیا اور شام میں اسلامی دہشت گردی کے جن کو جگا کر وہی غلطی نہیں دہرائی؟
بھارت میں اندرا گاندھی کی حکومت نے خالصتان تحریک کے توڑ کے لیے جرنیل سنگھ بھنڈرانوالاتخلیق کیا۔یہ عسکریت پسند لیڈر اپنے ہی خالق کے سامنے کھڑا ہو گیا ،اس نے گولڈن ٹیمپل پر قبضہ کر لیا اور اندرا گاندھی کی حکومت کو آپریشن بلیو اسٹار شروع کرنے پر مجبور کر دیا۔یہ غلط ” طریقہ” استعمال کرنے پر انھیں اپنی جان گنوانا پڑی اور ایک مشتعل سکھ گارڈ نے انھیں قتل کر دیا۔
ان کے صاحبزادے راجیو گاندھی نے اپنی پسند کے نتائج حاصل کرنے کے لیے گڑ بڑ کی خاطرکشمیر کے انتخابات میں پولیٹکل انجنیئرنگ کی کوشش کی جس سے وادی میں تحریک آزادی کو نئی زندگی ملی۔اور سری لنکا کی تامل تحریک میں حکومت کی مداخلت کی وجہ سے انھیں اپنی جان گنوانا پڑی۔
اپنے ملک کی بات کریں تو اسٹیبلشمنٹ نے متعدد بار پولیٹکل انجنیئرنگ کی کوشش کی ۔60 اور80 کی دہائیوں میں ہم نے بہت قریب سے دیکھا کہ فوجی آمروں کے خلاف جمہوری تحریک کو کمزور کرنے کے خیال سے سندھ کی سندھی اور اردو بولنے والی آبادی کو تقسیم کرنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ نے کس طرح کام کیا۔
ملک نے اسٹیبلشمنٹ کی ان پالیسیوں کی بھاری قیمت ادا کی ہے کیونکہ ان سے صوبے میں رہنے والی دو برادریوں میں ایک دوسرے کے بارے میں بد گمانی پیدا ہوئی۔80 کی دہائی میں جنرل ضیا کی حکومت نے ایک چھوٹی سی مہاجر طلبہ تنظیم کو ایک طاقت ور فسطائی سیاسی جماعت بننے میں مدد دی۔
پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ،جس نے ملک کی آدھی زندگی میں اس پر براہ راست حکمرانی کی ،اپنی در پردہ سرگرمیوں کے ذریعے اس پر بالواسطہ حکمرانی بھی کرتی رہی ہے۔انھوں نے جمہوری عمل کی افزائش کو روکا کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ مقصد طریقوں کا جواز ہوتا ہے۔تاہم زیادہ تر صورتوں میں وہ اپنے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہے۔
حکمراں جنتا نے1970 کے انتخابات میںیہ سوچتے ہوئے ایک معلق پارلیمنٹ لانے کے لیے جوڑ توڑ کی کوشش کی کہ اس طرح جنرل یحیٰی خان خود کو صدر منتخب کرانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔الیکشن کے غیر متوقع نتائج کے بعد جس میں عوامی لیگ نے اکثریت حاصل کر لی تھی، ان کی حکومت اور بھٹو نے مستقبل کے آئین کے خد وخال پر قانون ساز اسمبلی سے باہر بات چیت کی کوشش کی۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مشرقی بنگال کو مغربی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف آزادی کی جنگ لڑنا پڑی۔
بھٹو نے1977 کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی36 نشستوں پر دھاندلی کی تھی جس کے باعث انھیں پاکستان قومی اتحاد(پی این اے) کی ایک بڑی تحریک کا سامنا کرنا پڑا۔بالآخر مکار جنرل ضیا نے حکومت کا تختہ الٹ دیا، ملک میں مارشل لا لگا دیااور11 سال حکومت کی۔جنرل ضیا کو بھی سیاسی مدد کی ضرورت تھی اس لیے انھوں نے 1985 میں ایک غیر جماعتی انتخابات کے لیے انجنیرنگ کی۔
اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ آئندہ وزیر اعظم ان کا فرماں بردار ہو،انھوں نے اپنی پسند سے محمد خان جونیجو کو اس منصب کے لیے چنا۔مگر اس کے باوجود اس وزیر اعظم اور ان کے ساتھیوں نے جنرل ضیا کی سوچ سے انحراف کیا اور افغانستان کے ساتھ جنیوا سمجھوتے پر دستخط کیے۔اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ فوجی آمر کی سیاسی انجنیئرنگ ناکام رہی اور انھیں1988 میں جونیجو حکومت اور پارلیمنٹ کو برطرف کرنا پڑا۔نتیجتاً جنرل ضیا ،جنھوں نے اس ملک کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا،اپنے ہی حلقے کی حمایت سے محروم ہو گئے اور انھیں قتل کر دیا گیا۔
اسٹیبلشمنٹ نے1988 میں دائیں بازو کا ایک سیاسی اتحاد — اسلامی جمہوری اتحاد(آئی جے آئی)بنا کر اپنی پسند کے نتائج حاصل کرنے کے لیے انجنیئرنگ کی مگر اسے جزوی کامیابی ہی حاصل ہو سکی۔ان کی یہ خواہش کہ پاکستان پیپلز پارٹی(پی پی پی)کو حکومت بنانے سے روک دیا جائے ،پوری نہ ہو سکی کیونکہ انتخابات میں وہ ایک بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری۔
پی پی پی نے اتحادیوں کے ساتھ مل کر حکومت بنائی۔مگر اسٹیبلشمنٹ نے پی پی پی کی حکومت کو18 ماہ سے زیادہ برداشت نہ کیا اور آئین کے بدنام آرٹیکل58(2b) کو استعمال کرتے ہوئے اسے ختم کر دیا۔اسٹیبلشمنٹ کو پولیٹکل انجنیئرنگ کی واحد بڑی کامیابی1990 کے انتخابات میں حاصل ہوئی، جس کے نتیجے میں آئی جے آئی کامیاب ہوئی اور وہ حکومت بنانے کے قابل ہو گئے۔
اسلام آباد میں یہ باتیں سنی جا رہی ہیں کہ آج کے سیاسی منظر نامے میں اسٹیبلشمنٹ کسی بھی صورت میں پی ایم ایل(ن) کومارچ کے وسط میں ہونے والے سینیٹ کے انتخاب میں اکثریت حاصل نہیں کرنے دے گی۔
جب یہ سوال کیا جائے کہ مارشل لا لگائے بغیر یہ کیسے ممکن ہو گاتو نواز شریف کے مخالفین ایک ایسی عدالتی بغاوت کی پیش گوئی سے نہیں ہچکچاتے جس میں اسمبلیاں تحلیل ہو جائیں گی۔مگر پر امید لوگوں کا خیال ہے کہ انتخابات وقت پر ہوں گے اور اسٹیبلشمنٹ کپتان کی ٹیم کو کچھ آگے بڑھائے گی۔
پولیٹکل انجنیئرنگ سے نقصان ہو گا
وقتِ اشاعت : December 27 – 2017